مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک-سیاسی تجزیہ نگار رضا ایروانی: بین الاقوامی تعلقات میں ڈیٹرینس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک پر حملہ ہونے کی صورت میں متاثرہ ملک حملے کا جواب دینے سے اس لئے باز رہتا ہے تاکہ میں دوبارہ حملے کا شکار ہونے سے محفوظ رہے۔
ڈیٹرینس دوسری مرتبہ حملے کا شکار ہونے کے شدید خوف کا نام ہے۔ ایسا خوف جو مدمقابل کے ذہن میں خودبخود وجود میں آتا ہے اسی وجہ سے ہر طرح کی جوابی کاروائی سے باز رہتا ہے۔ جو ممالک ڈیٹرینس کی پالیسی رکھتے ہیں، خود کو مطمئن دکھاتے ہیں کیونکہ مدمقابل پہلے وار کا جواب دینے کی سکت نہیں رکھتا اور اگر جواب دے تو بھی خوفزدہ حالت میں ہوتا ہے۔
ان حالات میں امریکی صدر نے طاقت کے نشے میں چور ہوکر دنیا والوں پر یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عالمی سطح پر ڈیٹرینس کا حامل پہلا ملک ہے۔ انہوں نے حملے کے چند لمحے بعد امریکی پرچم شئیر کیا گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حالات مکمل کنٹرول میں ہیں۔ امریکہ ہر طرح کے ردعمل کا سامنا کرنے کو تیار ہے اور کسی قسم کا خوف نہیں ہے۔
اس نفسیاتی حملے میں ایرانی حکام کے لئے بھی بڑا سبق ہے۔ ٹرمپ کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو باور کرائے کہ ایران پر حملہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی ہے لہذا کسی میدان میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے اس طرح ہمارے جال میں پھنس جاؤگے۔ صدر ٹرمپ کی یہ منطق مکمل غلط ہے جس سے کئی امور اخذ کیے جاسکتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ ٹرمپ غلط اندازوں کا شکار ہوا ہے۔ گذشتہ رات کا حملہ پہلے سے بہت واضح تھا اور اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ تہران کے بارے میں پہلے والی ذہنیت پر باقی ہے۔ امریکہ پر ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے کہ ایران میں فیصلہ سازی کا ٹریک بدل گیا۔ امریکہ اور صہیونی حکومت جنگ سے پہلے کی طرح حالات پر کنٹرول نہیں رکھتے۔
اگرچہ ٹرمپ کا خیال ہے کہ ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی چال چلاکر ایران کو دھوکہ دے سکے گا لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اس مرتبہ ٹرمپ خود کھیل کے میدان میں داخل ہوگیا ہے جس کی ابتدا جنگ اور انتہا خطے میں امریکی اجارہ داری قائم کرنا ہے اسی کے تحت اسرائیل کے حملوں میں بھی امریکہ اہم کردار ادا کررہا تھا اور صہیونی حکومت امریکی انٹیلی جنس اور لاجسٹک سہولیات کے ساتھ میدان جنگ میں داخل ہوگئی تھی۔ امریکی فوج کے بعض اعلی افسران بھی ذمہ داریاں ادا کررہے تھے تاہم امریکہ ایران کے حملوں کے اثرات سے کوشش کے باوجود خود کو نہیں بچا سکا۔ گذشتہ رات کے حملے نے امریکہ کا سارا کھیل خراب کردیا۔ اس مرتبہ ایران نے امریکہ پر چال چلی تاکہ مشرق وسطی میں اپنے جائز اہداف کو مزید وسیع کرے۔ ایران نے جنیوا مذاکرات میں حاصر ہوکر امریکہ کو پریشان کردیا۔
ٹرمپ نے آج صبح جو کچھ کیا، وہ خوف اور ترس کی بنیاد پر کیا ہے۔ علم نفسیات میں اس عمل کو خوف کی علامت سے تعبیر کیا جاتا ہے بلکہ یہ جوابی حملے سے خوف کی واضح دلیل ہے۔ اگر ان حالات میں ایران سخت اور براہ راست جواب دے تو دوسری مرتبہ حملے کی توانائی نہیں رکھتا ہے لہذا اپنے خود ساختہ کھیل میں دوبارہ داخل ہونے سے عاجز ہوجائے گا۔
تیسری بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ایران پر حملہ کرکے تمام سرخ لکیروں کو عبور کیا ہے۔ یہ اقدام ملک کے خلاف باقاعدہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہے۔ ان حالات میں اگر دشمن کو مناسب جواب نہ دیا جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ ایران نے اپنے موقف سے عقب نشینی کرلی ہے جوکہ ایران کے لئے دفاعی شکست اور ملک کی اسٹریٹیجک حیثیت پر سخت ضربت لگے گی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے دوسرے دور صدارت میں نوبل انعام لینے کی کوشش کررہے ہیں جس کے لئے ایک کارنامہ انجام دینے کی ضرورت تھی۔ ٹرمپ کے خیال میں آج صبح ہونے والا حملہ یہی کارنامہ ثابت ہوسکتا ہے تاہم جو کچھ ہوا وہ ٹرمپ کی توقعات کے برعکس ثابت ہوا۔ ٹرمپ نے یہ اقدام کرکے سیاسی خودکشی کی ہے کیونکہ دنیا امریکہ کو اس جنگ کو آغاز گر سمجھتی ہے گویا اس حملے کے بعد امریکہ عالمی برادری کی نظروں سے گر گیا ہے کیونکہ حملے کے فورا امریکہ نے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہورہا ہے کہ امریکہ اسلامی جمہوری ایران کے براہ راست جنگ میں شامل ہوگیا ہے۔ اب وقت آپہنچا ہے کہ ایران اپنے اسٹریٹیجک نعروں کو عملی جامہ پہنائے تاکہ ثابت کرسکے کہ امریکہ اب ڈیٹرینس پاور کا حامل نہیں ہے اور ایران دنیا میں جاری اس کھیل میں فعال کردار ادا کررہا ہے۔
اس کے بعد دشمن ایران کے خوف میں ہوگا اور ملک کے اندر مغرب زدہ حلقوں کو بھی کسی قسم کا بہانہ نہیں ہے۔ اب کسی تردید کے بغیر جواب دینا ہوگا۔ موجودہ حالات میں مصلحت پسندی کا شکار ہونا نہ صرف ایک غیر معقول اقدام ہوگا بلکہ ملکی مفادات کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوگا۔ دشمن کو اس کی توقع سے بڑھ کر جواب دینا ہوگا۔ آج زمین پر مظلومین کا خون جاری ہے۔ قومی مفادات خطرے میں ہیں۔ عالمی استکبار اپنے پراکسیز سے مایوس ہوکر خود جنگ میں داخل ہوگیا ہے لہذا کسی بہانے کی گنجائش نہیں ہے۔ آج مرثیہ خوانی اور غم منانے کا وقت نہیں بلکہ قیام اور ردعمل دکھانے کا وقت ہے۔
اب یہ جوابی حملہ کیسا ہونا چاہئے؟َ
ان حالات میں ایرانی سرزمین پر جارحیت کا کوئی بھی معقول جواب صرف یہی ہے کہ صہیونی حکومت مکمل تباہ ہوجائے اور خطے سے امریکی بساط لپیٹ دی جائے۔ اس جوابی حملے سے یہ امریکہ کو یہ پیغام ملنا چاہئے آج کے بعد خلیج فارس میں امریکہ اپنے پرچم کے ساتھ آزادانہ حرکت نہیں کرسکتا۔ مشرق وسطی کی فضائیں امریکہ کے لئے پرامن نہیں رہیں اور اس کے فوجی اڈے اور اہلکار کہیں بھی محفوظ نہیں۔
ایران کو بھی جان لینا چاہئے کہ جب عملی طور پر میدان جنگ میں داخل ہوجائے تو نعروں پر اکتفا کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ ان نعروں کو عملی جامہ پہنانا پڑے گا تاکہ دنیا پر ثابت ہوجائے کہ ایران زخم قبول نہیں کرتا ہے بلکہ زخمی ہوکر شدید حملہ کرتا ہے۔
آپ کا تبصرہ