مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد رضوی نے مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائے خلقت سے اب تک اللہ کا اس کائنات میں یہ نظام قائم رہا ہے کہ اس میں اچھائی اور برائی دونوں ہیں۔ اچھائی اللہ کی طرف سے اور برائی انسانوں کے ہاتھوں سے وجود میں آتی ہے۔
اللہ نے ہر چیز کے حدود اور معیار بنایا ہے جب تک انسان ان حدود کے اندر رہے اس کو اللہ کی طرف سے اجر اور انعام ملتا ہے لیکن جب ان حدود کو پار کرے خواہ حدود الہی ہوں خواہ حدود انسانی حتی کہ طبیعی امور میں بھی اگر کوئی ان حدود کو عبور کرے تو اللہ کی طرف سے اس کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ یہ ردعمل مختلف شکلوں میں ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالی ان حدود کو عبور کرنے والوں کو قرآن میں ظالم قرار دیتا ہے اور ظالموں پر عذاب نازل کرنا اللہ کی سنت ہے۔ چنانچہ تاریخ میں متعدد اقوام کا تذکرہ ملتا ہے مثلا قوم عاد، قوم ثمود، قوم ہود اور قوم صالح جنہوں نے حدود کو عبور کیا تو مختلف طریقوں سے اللہ کی طرف ان پر عذاب نازل ہوا مثلا کسی قوم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی، کسی کو طوفان میں بہادیا گیا اور بعض اقوام کو آسمان کی طرف اٹھاکر الٹے زمین پر پھینک دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی طرف سے طوفان الاقصی جاری ہے۔ یہ لفظ قرآن سے لیا گیا ہے۔ قرآن میں بنی اسرائیل پر طوفان نازل کرنے کا ذکر آیا ہے آج اسرائیل اسی عذاب کا شکار ہے۔ بنی اسرائیل پر آنے والا طوفان قدرتی تھا لیکن آج کا طوفان انسانی ہے۔ دونوں کی وجہ اللہ کی حدود کو عبور کرنا ہے۔ بنی اسرائیل نے بھی انبیاء کو قتل کیا اور لوگوں کو مظالم ڈھائے اس لئے قدرتی طوفان نے ان کو گھیر لیا تھا۔ برسوں سے صہیونی حکومت فلسطین میں انسانی حتی کہ جانوروں پر رحم نہیں کررہی ہے اس انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی میں ملوث رہی ہے اس لئے فلسطینی عوام نے تنگ آکر طوفانی شکل میں حملہ شروع کردیا ہے لہذا اس طوفان الاقصی کا مبنا قرآنی ہے گویا یہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والا ایک عذاب ہے۔
جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان کے سربراہ نے مزید کہا کہ اگر انسان کا ضمیر آلودہ نہ ہو تو ندائے الہی پر لبیک کہتا ہے۔ باضمیر انسان صرف اپنے جیسوں پر نہیں بلکہ حیوانات اور نباتات اور ماحولیات پر بھی جب ظلم ہوتے دیکھتا ہے تو وہ چپ نہیں بیٹھتا ہے بلکہ اپنا ردعمل دکھاتا ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف کونوں سے بیدار لوگ صہیونی حکومت کے ان مظالم کے خلاف آوازیں اٹھارہے ہیں۔
البتہ حکمران طبقہ ہر دور میں معدود تعداد کے علاوہ سب عملی طور پر کوئی کردار ادا نہیں کررہے ہیں چنانچہ گذشتہ دنوں او آئی سی کے اجلاس میں اسلامی ممالک کے حکمران کسی بھی نکتے پر متفق نہیں ہوسکے اور اسرائیل کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کرنے میں ناکام رہے بلکہ بعض ممالک اسرائیل کا نام لینے سے بھی گریز کررہے تھے حالانکہ اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا چنانچہ امام خمینی رح کا فرمان بھی ہے، سب پر ضروری تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ رہبر معظم کا قول قابل ذکر ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو طوفان کا انتظار کریں یعنی کوئی طوفان ضرور آئے گا چنانچہ شاعر بھی کہتا ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے گھٹ جاتا ہے، خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔
اسی طرح مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کا بھی فرمان ہے کہ مظلوم کا انتقام ظالم کے ظلم سے ہمیشہ شدید تر ہوگا۔ قرآن کا بھی وعدہ ہے کہ دنیا میں مستضعفین کی حکومت قائم ہوگی۔
سید احمد رضوی نے کہا کہ پاکستان میں بھی الحمد للہ عوام بیدار ہیں۔ میڈیا کے نمائندے اس موضوع پر خوب بول رہے ہیں۔ عوام کی طرف حکمرانوں کے خلاف دباو بڑھ رہا ہے تاہم حکومت کی دوغلی پالیسی دوسرے ممالک کی طرح بخوبی سامنے آرہی ہے۔
قدس کی آزادی کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا کے آزاد منش قائدین نے بشارت دی ہے کہ ان شاء اللہ قدس آزاد ہوکر رہے گا البتہ یہ اس عمل میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ قدس آزاد ہوکر رہے گا اور مولا امام زمان قدس میں نماز پڑھائیں گے اور حضرت عیسی ان کے پیچھے نماز ادا کریں گے۔ رہبر معظم نے فرمایا کہ پچیس سال میں اسرائیل کا ناپاک وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا پھر فرمایا کہ یہ مدت تخمینی ہے جس میں تھوڑی بہت جلدی یا تاخیر بھی ممکن ہے۔ اگر مقاومتی بلاک متحد ہوجائے، اسلامی ممالک کے حکمران جاگ جائیں اور دنیا کے مسلمان متفق ہوجائیں تو قدس کی آزادی بہت نزدیک ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ اب دنیا پر عیاں ہوچکا ہے کہ فلسطین کا دنیا میں واحد حامی ایران ہے۔ حزب اللہ اور دیگر مقاومتی تنظیمیں بھی ایران کی ہی پشت پناہی میں کررہی ہیں۔ لہذا ایران کے پیچھے ہٹنے کی باتوں کی حقیقت سے سب واقف ہیں اسرائیل بھی اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ ایران ہی اس وقت فلسطین کا سب سے بڑا حامی اور مدد کرنے والا ملک ہے۔ اگر ایران کی مدد نہ ہوتی تو فلسطین اسرائیل کے ہاتھوں بہت پہلے ختم ہوچکا ہوتا چنانچہ فلسطینی خود اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل بھی کئی بار اعتراف کرچکا ہے کہ اس وقت اس کے خلاف جنگ ایران ہی لڑرہا ہے۔
لبنان، یمن اور عراق سے مقاومتی بلاک فلسطین کی حمایت میں آگے آرہا ہے۔ اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ ایران کی حمایت پر ان کو یقین ہے گویا کوئی بھی اسلامی جمہوری ایران کو ساتھ رکھے بغیر فلسطین کی حمایت کے لئے تیار نہیں ہے۔
آپ کا تبصرہ