مہر خبررساں کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں جی 20 کے اجلاس کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارت، عرب امارات اور سعودی عرب کے رہنماؤں کے ساتھ مشرق وسطی کو ریلوے لائن اور سمندری راستے سے یورپ سے ملانے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔
اس منصوبے کے سامنے آنے کے بعد مبصرین نے منصوبے کو چینی کوریڈور کا متبادل قرار دیا تھا۔ چین نے دس سال پہلے کئی ٹریلین ڈالر کا منصوبہ پیش کیا تھا جس کا ہدف چین کو دنیا کے دوسرے علاقوں ملانا تھا۔
جوبائیڈن کے اس منصوبے میں فرانس، اٹلی اور جرمنی جیسے یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔ اس منصوبے میں دو روڈ ہیں۔ مشرقی کوریڈور کے ذریعے بھارت کو خلیج فارس کے ممالک اور شمالی کوریڈور کے ذریعے خلیج فارس کے ممالک کو یورپ سے ملایا جائے گا۔
اس حوالے سے مہر نیوز سے بات کرتے ہوئے جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے استاد اور سعودی بادشاہ کے سابق مشیر پروفیسر حسین عسکری نے کہا کہ یہ منصوبہ چین کی پیش کردہ کوریڈور کا منصوبہ ناکام بنانے کی امریکی سازش ہے۔
اس منصوبے کے کئی دیگر اہداف بھی ہیں جن میں اسرائیل کی تنہائی کو ختم کرکے عرب ممالک کے ساتھ روابط بڑھانا، ایران کو دیوار سے لگانا اور خلیج فارس کے علاقے میں امریکی حیثیت کو دوبارہ زندہ کرنا شامل ہے۔ اس منصوبے کے لئے درکار سرمایے کے پیش نظر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اقتصادی اہداف کم ہیں۔
اس کوریڈور کے دوسری گذرگاہوں پر اثرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سویز کانال جیسی گزرگاہوں کی اہمیت باقی رہے گی کیونکہ یہ سمندری راستے انتہائی کم لاگت کے ساتھ تجارت کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ایران، مصر اور ترکی جیسے اہم ممالک کے بغیر اس کوریڈور کی اہمیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے بارے عرب ممالک کے مالی تعاون کو دیکھنا پڑے گا۔ کیا عرب حکومتیں فلسطینی بھائیوں کو فراموش کرکے امریکی خواہشات کی پیروی اور اسرائیل کو آغوش میں لیں گی؟
اگر عرب ممالک اس کام کے لئے تیار ہو جائیں تو منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے البتہ اس صورت میں کوریڈور کے انفراسٹرکچر پر حملوں کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ میری نظر میں مذکورہ اہم ممالک کو نظر انداز کرنے کے علاوہ کچھ اور وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے منصوبے کی کامیابی بعید لگتی ہے۔
آپ کا تبصرہ