مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: نامہ نگار نفیسہ عبداللہی: «سزد کراچی و لاهور، قبه السلام / که هست یاری اسلام کار پاکستان. مدام تشنه صلح است ملتش / هرچند که نیست کم ز کسی اقتدار پاکستان»
شاید یہ اشعار فارسی گو شاعر اقبال لاہوری کی بہترین توصیف ہو۔
پاکستان یا پاک لوگوں کی سرزمین، برصغیر کے ثقافتی دائرے کا گیٹ وے ہے۔ یہ ملک اور یقیناً ہندوستان کا شمال ہمیشہ سے فارسی زبان کا ثقافتی علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن انگریزوں کی آمد اور اس خطے سے فارسی زبان کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی وجہ سے فارسی ان علاقوں میں کم نمایاں ہو گئی ہے۔ تاہم اب بھی ان دونوں ممالک میں اس کی موجودگی کے بہت سے آثار موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قومی ترانہ زیادہ تر فارسی الفاظ پر مشتمل ہے، جیسے: پاک سرزمین شاد باد، کشور حَسین شاد باد، مرکز یقین شاد باد.
پاکستان دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا مسلمان ملک اور واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم ہے۔ اس ملک میں بیرونی مداخلت ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے اور پاکستان کے ایک سابق عہدیدار کے مطابق اگر استعمار نہ ہوتا تو آج ہم اور ایرانی فارسی بول رہے ہوتے۔
اسلامی جمہوریہ ایران پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک اسٹریٹجک ثقافتی اور تہذیبی گہرائی ہے، اس لیے ان میں سے بہت سے لوگ ایران کو اپنا دوسرا ملک سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے زمینی مشاہدات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام میں باہمی محبت کے جذبات سے سرشار ہیں۔ جب پاکستانیوں کو ایرانیوں کی شناخت معلوم ہوتی ہے تو وہ جلدی سے اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
ایران کی سڑکوں پر پاکستانی مشہور شخصیات اور پاکستان کی سڑکوں اور اہم مقامات پر ایرانی مشہور شخصیات کے نام، فارسی زبان کی اعلی مشترکات کے ساتھ، دونوں قوموں کے گہرے تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے کے دوران کراچی کی ایک شاہراہ کا نام تبدیل کر کے امام شاہراہ خمینی رکھ دیا گیا۔
پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل کو تسلیم کیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کئی سالوں سے امریکہ میں ایران کے مفادات کا محافظ رہا ہے اور اس نے 8 سالہ جنگ کے دوران مدد کی اور ہماری مسلح افواج کو رسد فراہم کی۔
اس لیے اگر ہم برصغیر پاک و ہند کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو اس کا گیٹ وے پاکستان ہے، جو ایک مسلمان اور دوست ملک ہے جو کبھی بھی ایران اور ایرانیوں کے ساتھ تصادم کا شکار نہیں رہا۔ بلاشبہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی پہلا ملک ہے جس نے قیام پاکستان اور اس خطے کے مسلمان عوام کی برطانوی استعمار سے آزادی کے وقت اسے تسلیم کیا۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات میں کہا: ہم کبھی نہیں بھولیں گے کہ ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی آزادی کو تسلیم کیا۔
کوہ ہندوکش کی بلندی جتنے عروج پاتے پاک ایران تعلقات
محمد علی جناح، گاندھی کے دوستوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے برصغیر کے مشہور فارسی شاعر اقبال لاہوری کے ساتھ مل کر ایک مسلم ملک کے قیام کی تجویز پیش کی اور پاکستان کی آزادی کے آغاز کے ساتھ ہی، حالانکہ اس سرزمین کو ہندوستان کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تلخ واقعات رونما ہونے سے بالآخر پاکستان ایک مسلم ملک کے طور پر ہندوستان سے الگ ہوگیا۔
اپنے دورہ پاکستان کے دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی اور مرحوم رہنما کی یادگاری کتاب پر دستخط بھی کیے۔
آیت اللہ خامنہ ای کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان عوام کا پرتپاک استقبال
1981 سے 1989 تک اسلامی جمہوریہ ایران کہ جس پر جنگ مسلط کردی گئی تھی، نے خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کے احیاء کو ایجنڈے پر رکھا۔ اس سلسلے میں اس وقت کے صدر آیت اللہ خامنہ ای نے کئی ملکوں کا دورہ کیا۔
1985 میں آیت اللہ خامنہ ای کا پاکستان کا دورہ ان دوروں میں سے ایک اہم ترین سفر تھا جس کا ذرائع ابلاغ اور میڈیا حلقوں میں بہت چرچا رہا۔ یہ استقبال اس قدر بے ساختہ اور تاریخی طور پر وسیع تھا کہ گویا پاکستانی عوام نے اپنے عوامی صدر کا استقبال کیا تھا۔ حتیٰ کہ امام خمینی (رح) نے اس سفر کے بعد اپنی ایک تقریر میں دنیا کی مسلم اور آزاد اقوام کی نوزائیدہ اسلامی انقلاب سے دلچسپی کے اظہار کو آیت اللہ خامنہ ای کے دورے میں منعکس پایا۔
دونوں ممالک کے درمیان یہ ثقافتی تعلقات ا اتنے گہرے ہیں کہ پاکستانی عوام نے امام خمینی (رح) کے انتقال پر دس روزہ عوامی سوگ کا اعلان کیا۔
پاکستان کے ساتھ وسیع مفادات اور گہرے تعلقات کا پایا جانا اور تصادم کا فقدان
پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری تینوں ممالک کے ساتھ مل کر تعلقات میں مزید بہتری کا باعث بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ کے باوجود ہم نے دیکھا کہ جب سعودی عرب اور بعض عرب ممالک نے یمن پر حملہ کیا تو پاکستان نے ایران کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے یمن کی دلدل میں اترنے سے انکار کر دیا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود یہ ملک ایران کو اپنی تہذیب کا ہمدرد اور حقیقی بھائی سمجھتا ہے۔
اگرچہ پاکستان میں سلفی رجحانات موجود ہیں، لیکن ہمارے اور پاکستان کے درمیان مفادات کا وسیع تصادم کبھی نہیں ہوا اور دونوں ممالک اپنے وجود اور بہت سی مشترکات کی وجہ سے بعض ادوار میں پیدا ہونے والے سیاسی چیلنجوں کو سنبھالنے میں کامیاب رہے ہیں۔
پاکستان کے معاشی دل (شہرا کراچی) کا سفر
پاکستان ایک بڑا ملک ہے جس کی بڑی آبادی اور اعلیٰ اقتصادی صلاحیت ہے۔ ایرانی انجینئرنگ کی اعلیٰ صلاحیت، پاکستان کی اچھی مارکیٹ اور زیادہ کھپت کے ساتھ جو کہ ایران سے تین گنا آبادی والا ملک ہے، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون کو فروغ دے سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ کراچی کے دوران پاکستان کے اقتصادی مرکز میں ایران اور پاکستان کے درمیان سرمایہ کاری کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تہران اور کراچی کے چیمبر آف کامرس کے درمیان تعاون کی دستاویز پر دستخط کیے گئے۔
ماضی میں امریکہ کے دباؤ نے ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون کو روکا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور آخری دہائی میں امریکہ کے دباؤ کا کوئی اثر نہ ہوا اور پاکستان نے ایران کے ساتھ دوستی میں اپنی بہتری تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔
شنگھائی تعاون تنظیم، اسلامی کانفرنس، اسلامی تعاون تنظیم اور ای سی او میں ایران اور پاکستان کی رکنیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کر سکتے ہیں۔
لہٰذا ایران کی موجودہ حکومت کا سفارتی نظام، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی معاونت کے ساتھ ساتھ متوازن پالیسی اور مشرق کی طرف دیکھتے ہوئے ان پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو از سر نو استوار کر رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف اور امریکی پابندیاں ہمارے اور پاکستان کے کاروباری اہداف کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنیں۔
وزارت خارجہ کی معاشی سفارت کاری کے نائب مہدی سفاری نے مہر نامہ نگار کو دونوں ممالک کی 5 سرحدی مارکیٹیں کھولنے کے منصوبے کے بارے میں بتایا: پاکستان کے ساتھ ہمارے اہم ترین مسائل میں سے ایک تجارت ہے۔ ہم نے کلیئرنگ کی بنیاد پر اس ملک کے ساتھ تجارت کی ہے۔
سفاری نے تاکید کی کہ اس وقت ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم 2.5 بلین ڈالر ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایف اے ٹی ایف اور امریکی پابندیاں جیسے مسائل ہمارے اور پاکستان کے تجارتی اہداف کے حصول میں رکاوٹ نہیں تھے، لیکن ہمارا ایک مسئلہ ٹیرف کا مسئلہ تھا جس کا طریقہ کار واضح نہیں تھا اور سرحدی اور نقل و حمل کے مسائل بھی حل طلب تھے جن میں سے بہت سے حل ہو چکے ہیں۔
وزارت خارجہ کی معاشی سفارت کاری کے نائب نے مذکورہ سفر کے دوران ایران اور پاکستان کے درمیان کلیئرنگ میکانزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا: اب جب کہ پاکستانی فریق اس مسئلے کو سمجھ چکا ہے، ہم پاکستان کے ساتھ کلیئرنگ کو بڑھا سکتے ہیں۔
سفاری نے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ کلیئرنگ کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی پروڈکٹ خریدتا ہے اسے بھی ایک پروڈکٹ ایکسپورٹ کرنا چاہیے، لیکن جب ہم نے کلیئرنگ کے طریقہ کار کی وضاحت کی تو انھوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارت اقتصادیات اس معاملے پر فالو اپ دے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم کو 5 بلین ڈالر تک بڑھانے کے خواہاں ہیں، اور اس کے بعد ہمارا اگلا ہدف سالانہ 10 بلین ڈالر کا تجارتی حجم حاصل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگلے پیر کو ایران اور پاکستان کے درمیان مشترکہ راہداری کمیشن کا اجلاس ہوگا جس کے بعد ایران سے بھیجی جانے والی گاڑیاں بارڈر پر نہیں رہیں گی اور پاکستان جائیں گی، جسے ایک مثبت قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ .
ایران اور پاکستان کے درمیان 3 ارب ڈالر کا تبادلہ
ایرانی وزارت خارجہ کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر سید رسول موسوی نے بھی اس بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کو بتایا کہ پاکستان کا دورہ گزشتہ 5 سالوں میں کامیاب ترین دوروں میں سے ایک تھا۔
امہوں نے کہا کہ اس سفر کے دوران، ہم نجی اور سرکاری دونوں شعبوں اور پاکستان میں موجود مختلف ڈھانچوں کے ساتھ اپنی بات چیت کو آگے بڑھانے اور اچھے معاہدے کرنے میں کامیاب رہے۔ بعض اوقات، دونوں ممالک کے درمیان موجود کچھ بڑی چیزیں چھوٹے مسائل سے دوچار ہوتی تھیں، اور ہم اس سفر کے دوران کچھ مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوئے، کیونکہ چھوٹے مسائل کو حل کرنا ہی بڑے کام کرنے کی بنیاد ہے جیسے کلیئرنگ، بینکنگ، تجارت اور سلامتی کے مسائل۔
سیکیورٹی سرحدوں کو اقتصادی سرحدوں میں تبدیل کرنے کا معاہدہ
موسوی نے یاد دلایا کہ اس سفر کے دوران، خصوصی سرحدی حفاظتی معاہدوں اور دونوں ممالک کے درمیان سرحد کو اقتصادی سرحد میں بدلنے کے لئے بات چیت، دونوں ممالک کے درمیان حاصل ہونے والی اہم کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان مالیاتی تبادلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 3 بلین ڈالر کے مالیاتی تبادلے ہو رہے ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں ہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلوں میں ایک اچھا اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ .
ایرانی وزارت خارجہ کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر جنرل نے افغانستان کے مسائل کے حوالے سے پاکستانی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سفر کے دوران عمومی طور پر افغانستان میں امن و استحکام کے لیے دونوں ممالک کی دلچسپی اور ایک قومی حکومت کی تشکیل کے لئے دونوں ممالک کے مشترکہ کوشش کے حوالے سے بات کی گئی تاکہ افغانستان میں ایک ترقی پذیر حکومت کا قیام عمل میں آسکے۔
آپ کا تبصرہ