مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان نے بتایا ہے کہ نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور تختروانچی نے امریکہ کے ساتھ عمان میں ہونے والے پہلے دور کے مذاکرات سے متعلق ایک جامع رپورٹ کمیشن کے ارکان کے سامنے پیش کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ترجمان ابراہیم رضائی نے بتایا کہ اتوار کو کمیشن کے ارکان اور تختروانچی کی موجودگی میں ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں نائب وزیر خارجہ نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ تختروانچی نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات براہ راست نہیں تھے، دونوں فریقین الگ مقامات پر مقیم تھے اور بات چیت عمان کے وزیر خارجہ کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی۔
تختروانچی نے مزید کہا کہ مذاکرات کے ابتدائی دور میں کوشش کی گئی کہ بات چیت کا بنیادی فریم ورک طے کیا جائے، تاہم ایران کو امریکی سنجیدگی پر اب بھی شک ہے اور مکمل اعتماد حاصل نہیں ہوا۔
رضائی کے مطابق نائب وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ مذاکرات کا دائرہ صرف جوہری امور تک محدود ہے اور دیگر موضوعات شامل نہیں۔ ایران کی جانب سے کسی بھی قسم کی دھمکی کو قبول نہ کرنے اور اس کا سخت جواب دینے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔
تختروانچی نے امریکہ کی جانب سے سابقہ معاہدوں کی خلاف ورزیوں، خصوصاً جوہری معاہدے سے یکطرفہ انخلا کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اب اعتماد سازی کرنی ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ مسقط میں کل چار بالواسطہ دور ہوئے اور مجموعی طور پر مذاکرات کا ماحول مثبت رہا۔
ابراہیم رضائی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تختروانچی نے واضح کیا کہ مذاکرات کے دوران کسی قسم کی دھمکی یا منفی نکتہ زیر بحث نہیں آیا۔ ایران نے امریکہ کو پابندیوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے ہماری اولین مطالبہ اور مقصد انہی پابندیوں کا خاتمہ ہے۔
رضائی کے مطابق، تختروانچی نے امریکی نمائندوں کے حوالے سے کہا کہ وہ مذاکرات میں سنجیدہ ہونے کا دعوی کر رہے ہیں، جنگ کے خواہاں نہیں اور ایران کے خدشات کو دور کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کرچکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کے اختتام پر یہ طے پایا کہ آئندہ نشست آئندہ سنیچر کو ہوگی، جس میں مذاکراتی فریم ورک پیش کیا جائے گا تاکہ بات چیت کی بنیاد اور دائرہ کار طے ہوسکے۔
تختروانچی نے ایک بار پھر زور دیا کہ مذاکرات صرف جوہری معاملے تک محدود ہیں، اور یہ مرحلہ وار آگے بڑھ رہے ہیں۔ فی الحال تفصیلات پر بات نہیں ہوئی۔ ایران کا مطالبہ ہے کہ امریکہ مکمل ضمانت دے کہ پابندیاں ختم کی جائیں گی۔ امریکیوں کا کہنا تھا کہ جس بات پر اتفاق ہوگا، ہم اس پر عمل کریں گے۔
رضائی نے کہا کہ آئندہ مذاکرات بھی عمان کی ثالثی سے ہوں گے اور ایران اس اصول پر قائم ہے۔ مذاکرات میں ایران کی اولین ترجیح اب بھی پابندیوں کا خاتمہ ہے۔
ترجمان کے مطابق، تختروانچی نے بتایا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان آئندہ نشست یورپ میں ہوگی، جس کی نگرانی عمان کرے گا۔ انہوں نے عراقچی اور ویٹکاف کی مسقط میں ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے اختتام پر ایرانی وزیر خارجہ نے عمانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں امریکی نمائندے سے مختصر بات چیت بھی کی۔
رضائی کے مطابق تختروانچی نے کہا کہ ابھی مذاکرات کے نتائج پر کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہے کیونکہ تفصیلات پر بات نہیں ہوئی۔ اگرچہ فضا عمومی طور پر مثبت رہی، مگر امریکہ پر مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ایران کو اپنی دفاعی تیاریوں اور دیگر شعبوں پر بھی توجہ رکھنی چاہیے اور حکمت عملی کے تحت اعلی سطحی دستاویزات، بالخصوص پابندیوں کے خاتمے کے فریم ورک کی روشنی میں تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کام کو آگے بڑھایا جائے گا۔ فی الحال یہ کہنا ممکن نہیں کہ کوئی معاہدہ ہو پائے گا یا نہیں۔
پارلیمنٹ کی قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان ابراہیم رضائی نے مزید کہا ہے کہ نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور تختروانچی نے مذاکرات کے حوالے سے قومی یکجہتی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان معاملات میں نہ خوش فہمی ہونی چاہیے اور نہ مایوسی۔
رضائی نے مزید بتایا کہ تختروانچی نے امریکی فریق کی جانب سے ایران میں سرمایہ کاری کی خواہش کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ امریکیوں نے مذاکرات میں سنجیدگی اور مسئلے کے حل کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تختروانچی نے واضح کیا کہ ایران اپنی علاقائی طاقت، جوہری کامیابیاں، میزائل پروگرام، اور تحقیق و ترقی جیسے امور کو سرخ لکیریں سمجھتا ہے جن پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔
کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ اجلاس کے دوران کمیشن کے ارکان نے بھی اپنی آراء اور خدشات پیش کیے۔ اراکین نے مذاکرات کے لیے ایک واضح فریم ورک کی ضرورت، پابندیوں کے مکمل خاتمے، جوہری معاہدے کی سابقہ غلطیوں کو دہرانے سے گریز اور امریکی دھمکیوں کا بھرپور جواب دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
آپ کا تبصرہ