مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی ویب سائٹ شہاب نیوز نے خبر دی ہے کہ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے تاکید کی ہے کہ ہم مسجد الاقصیٰ اور مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونی حکومت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حماس شروع سے ہی اپنے سیاسی موقف اور حکمت عملی پر ثابت قدم رہی ہے اور یہ تنظیم آزادی، اپنی زمینیوں میں واپسی کے حق اور خودمختاری کے حوالے سے اپنے نظریات اور امنگوں پر کاربند ہے اور فلسطین کو تمام فلسطینیوں کی ملکیت سمجھتی ہے۔
ہنیہ نے کہا کہ حماس کے بازو دنیا کے آزاد لوگوں کے لیے کھلے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس نے فلسطینی قوم کے ساتھ مل کر مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدس مقامات کے خلاف صہیونی دشمن کے منصوبوں کا مقابلہ کیا ہے۔
فلسطینی رہنما نے کہا کہ تمام تر سازشوں کے باوجود مغربی کنارے میں صہیونیوں کے خلاف مزاحمت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور حماس، قسام برگیڈز، نابلس میں عرین الاسود اور جنین بٹالین اور انفرادی طور پر مزاحمت میں مصروف دیگر مجاہدین نے غاصب صہیونی دشمن کے ساتھ جنگ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کردیا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صہیونی حکومت کی نئی کابینہ یہ تصور کرتی ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے، یہ ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہے کیونکہ صہیونی یہ تصور نہ کریں کہ ان کا استقبال پھولوں اور مٹھائیوں سے کیا جائے گا۔ فلسطینی قوم ایک مجاہد اور انقلابی قوم ہے جس نے سابقہ کابیناوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں دفن کر دیا ہے اور یہ کابینہ بھی صہیونی حکومت کی نابودی کے ساتھ پچھلی تمام کابیناوں جیسا انجام ہی پائے گی۔
ہنیہ نے زور دے کر کہا کہ مسئلہ فلسطین ہماری اولین ترجیح ہے اور ہم سمجھوتے کے منصوبوں کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری دوسری ترجیح مقبوضہ بیت المقدس جسے ہم صہیونی دشمن کے خلاف جد و جہد کا محور سمجھتے ہیں، ہماری تیسری ترجیح مقاومت اور مزاحمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمت اور جدوجہد نعرہ اور کوئی آپشن نہیں نہیں بلکہ یہ فلسطینی قوم کا مقدر ہے کہ وہ تمام وسائل اور طریقوں سے مزاحمت کرے۔
حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ نے مزید کہا کہ ہماری ایک اور ترجیح غزہ کی ظالمانہ ناکہ بندی کو توڑنا ہے۔
ہنیہ نے زور دے کر کہا کہ ہم بہت پر امید ہیں، ہم نے دیکھا کہ انہوں نے گزشتہ برسوں میں صدی کی ڈیل کے بارے میں کس طرح بات کی لیکن عرب ممالک نے قطر میں 2022 کے ورلڈ کپ کے دوران اس ڈیل کو مخدوش کردیا اور دشمن کو پر زور تاثر دیا کہ وہ کتنا قابل نفرت ہے اور کسی کا پڑوسی اور دوست نہیں۔
آپ کا تبصرہ