22 ستمبر، 2022، 4:14 AM

ایران کے صدر کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب؛

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت خطے کی اقوام کی آزادی کی راہ میں واقع ہوئی

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت خطے کی اقوام کی آزادی کی راہ میں واقع ہوئی

ایران کے صدر نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ایران انصاف پر علمدرآمد اور شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا حکم دینے والے اور اسے انجام دینے والے والے کے خلاف مقدمے کو ایک منصفانہ عدالت کے ذریعے حتمی نتیجے کے حصول تک جاری رکھے گا۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے مقامی وقت کے مطابق آج صبح کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۷۷ویں اجلاس میں تقریر کی۔ انہوں نے موجودہ عالمی اور زوال کے شکار کے نظام کی کمزوریوں اور خطرات کا ذکر کیا اور دنیا میں ایک عادلانہ نظام کی تشکیل میں ایرانی قوم کی بلاوقفہ اور پے در پے کوششوں پر توجہ دلائی۔ انہوں نے ایران کے ساتھ برتاو سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں دہشت گردی اور انسانی حقوق جیسے مسائل کے مقابلے میں امریکہ کی ناانصافی اور دوہری معیارات کے متعدد نمونوں کو پیش کیا اور  امریکہ کی اپنی ایجاد کردہ دہشت گردی پر قابو پانے سمیت جابرانہ اور مداخلت آمیز پالیسیوں کے سامنے ایران کے برجستہ اور پیشرو کردار کی وضاحت کی اور شہید جنرل سلیمانی کی قیادت میں خطے کے ملکوں کا نقشہ تبدیل کرنے کو ناکام بنانے کا ذکر کیا اور تاکید کی کہ ایک عادلانہ عدالت کے ذریعے سابق امریکی صدر کے جرم کی منصفانہ عدالتی چارہ جوئی کی پیروی جاری رکھیں گے۔

ایرانی صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پابندیاں تیزی سے ترقی کرتے اور خودمختار ایران کو نہیں روک سکیں اور امریکی حکومت نے باضابطہ اس بات کا اقرار کیا کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی نے شرمناک طور پر شکست کھائی جبکہ جوہری معاہدے کے حوالے سے امریکہ نے عہد شکنی کا مظاہرہ کیا۔ صدر رئیسی نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں معاشی فوائد سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے پائیدار ضمانتوں کی فراہمی کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے واضح موقف کو بھی بیان کیا اور موجودہ دنیا کو درپیش توانائی کے چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے دنیا میں توانائی کے تحفظ کی منصفانہ ضمانت کو یقینی بنانے کے لئے ایران کے منصوبے کا اعلان کیا۔ 

آیت اللہ رئیسی نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ ایران دنیا میں عدل و انصاف کا خواہاں ہے جبکہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پر امن ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ایک بہتر دنیا کی تشکیل کے لئے بنیادی معیار عدل و انصاف ہے۔ انسان کی تمام امنگیں آخر میں عدل و انصاف پر ہی تولی جاتی ہیں۔ وحی پر استوار عقلانیت عدل و انصاف کے ایک وسیع دائرہ کار کی قائل ہے۔ عدل یعنی ظلم کی نفی کرنا۔ ہم ایسے عدل و انصاف کے پرچمدار ہیں کہ جو ظلم کی تمام سطحوں بشمول خود، خدا، معاشرے اور عالم ہستی پر ظلم کی نفی کرتا ہے۔ عدل و انصاف کے قیام کی طرف میلان تمام انسانوں کے وجود میں اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت و ودیعت ہے جبکہ نا انصافی کا ڈھیر لگنا قوموں کے عوامی انقلابات کی صورت میں حرکت میں آجانے کا سبب بنتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اگرچہ بہت سی تحریکیں انقلاب کی بلوغت تک نہیں پہنچیں اور بہت سے انقلابات اپنے اصلی راستے سے منحرف ہوگئے تاہم اپنے انقلاب کی حقیقت کو دوام بخشنے میں بعض قوموں جیسے کہ ایرانی قوم کی کامیابی نے دنیا کے لوگوں کے دلوں میں عدل و انصاف کے قیام کی امید کو بدستور زندہ اور قائم رکھا ہوا ہے۔  

صدر رئیسی نے کہا کہ ایران کا اسلامی انقلاب ایرانی قوم کے عدل و انصاف کی سمت حرکت کا مجسم مظہر تھا کہ جو مختلف فتنوں کے باوجود اپنے اصولوں اور امنگوں کی کرامت اور حقیقی تشخص کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ایرانی قوم نے اپنے پہلے قدم میں وحی سے پھوٹنے والی عقلانیت کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ کے نام سے موسوم ایک ترقی یافتہ سول اور سیاسی آڈر کی داغ بیل ڈالی اور دوسرے قدم میں عادلانہ عالمی آڈر اور نظام کی تشکیل کے درپے ہے۔ خدا طلبی، آگاہی بخشی،نوع دوستی اور کثیر الجہتی اس راہ کے کلیدی عناصر ہیں۔

ایرانی صدر نے مزید کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں اس قوم کا نمائندہ ہوں جو ایک عظیم تمدن کی وارث ہے۔ وہ قوم جو ہمیشہ سے آزاد رہی ہے اور جس نے تسلط پسندوں کی جانب سے ان کے مقدر کو اسیر بنانے کے لئے صدیوں پر محیط کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔ وہ قوم جس نے ہمیشہ ظلم کو تباہی کا سبب سمجھا ہے اور پوری تاریخ میں دوسری اقوام کو اسیر بنانے کا بھی مقابلہ کیا ہے؛ بابل والوں ﴿یہودیوں﴾ کی اسارت سے لے فلسطین والوں کی اسارت تک۔ 

صدر رئیسی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم انسانیت کے لئے مشترکہ مقدر کے قائل ہیں اور عدل و انصاف کے عالمگیر ہونے کی حمایت کرتے ہیں۔ جو چیز ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں دوسروں کے لئے بھی اسی کی آرزو کرتے ہیں اور جسے اپنے لئے پسند نہیں کرتے اسے دوسروں پر زبردستی نہیں تھوپتے۔ ایرانی قوم اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ عدل و انصاف وحدت و اتحاد آفرین ہے اور ظلم، تنازعات اور جنگ کی آگ بھڑکاتا ہے۔ یہ کہ ایک ملک اپنے اندر عدل و انصاف کا دعویدار ہو لیکن باہر، مختلف دہشت گردوں کی تربیت کرے اور انہیں قوموں کا وبال جان بنادے، یا مختلف قسم کے دباو کا بوجھ ڈال کر قوموں کو سر جھکانے پر مجبور کرے، اسے انسانیت سے بھی شرمسار ہونا چاہئے، آزادی سے بھی اور عدل و انصاف سے بھی۔

انہوں نے کہا کہ انسانیت تھوڑے سے انسانوں میں محدود نہیں اور تمام انسانوں کے حقوق کو یقینی بنائے بغیر انسانی حقوق کا تصور نہیں ہوسکتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے دینی عقائد سے الہام لیتے ہوئے اور اپنے آئین کی روح اور واضح تعبیر کی بنیاد پر انسان حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں ایک کارآمد ترین مکینزم کا مالک ہے اور موثر ترین وسائل کے ذریعے کسی بھی انسان کے پائمال شدہ حقوق کی ادائیگی کو ایک انسانی ذمہ داری، حکومتی فریضہ، الہٰی وظیفہ اور عوام کی جانب سے سونپی گئی ایک ماموریت سمجھتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ انسانی حقوق کے حوالے سے بعض ملکوں کے دوہرے معیارات کو انسان کے حقوق کی پائمالی کے رواج پکڑنے کا سب سے اہم سبب سمجھتا ہے کہ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں جس ایک سانحے کی چھان بین اور تحقیقات ابھی چل رہی ہیں اس کے بارے میں متعدد اور متنوع موقف سامنے آ رہے ہیں جبکہ ایک مغربی ملک میں ایک مختصر سی مدت کے دوران دسیوں بے آسرا خواتین کے قتل کے بارے میں موت کی سی خاموشی ہے۔ جب تک یہ دوگانگی قائم رہے گی انسانی حقوق کو مسلسل خلاف ورزیوں کی گزند سے امان نہیں ملے گے۔ 

 آیت اللہ رئیسی نے مزید کہا کہ انسانی حقوق سے بھی بڑھ کر، قوموں کے حقوق ہیں کہ جو ظالم قوتوں کی طرف سے بڑی آسانی سے پائمال ہو رہے ہیں۔ کینیڈا کے مقامی لوگوں کا حق کہ جن کے بچے اسکول کے کلاس رومز کے بجائے اس کے صحن میں اجتماعی قبروں میں دفن کر دیئے گئے، فلسطینی قوم کا اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق، پابندیوں میں جکڑی اقوام کا ترقی و پیش رفت کرنے کا حق، زیرِ قبضہ یا دہشت گردی کی قربانی بننے والی قوموں کا حقِ حیات، ان بے گھر ہوئے بے آسرا لوگوں کا زندگی کا حق کہ جن کے بچوں کو ان کی ماں اور باپ سے علیحدہ پنچروں میں بند رکھا جاتا ہے، یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کے مسئلے میں مدعی اور ملزم کی جگہ جابجا نہیں ہونی چاہئے اور یہ کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے حقیقی کردار انسانی حقوق کے بارے میں اظہار خیال کرنے کے لئے مطلوبہ اخلاقی لیاقت و شائستگی نہیں رکھتے۔ داعش کی نابودی میں ایران کا بے مثال کردار کہ جن کے مظالم اور جرائم کی صرف ایک یہی مثال کہ کُرد، ایزدی اور عیسائی خواتین کو لونڈی بناتے تھے، یہ دکھانے کے لئے کافی ہے کہ ہم انسانی حقوق کے مدعی اور مدافع کے مقام پر کھڑے ہیں اور داعش کے حامی ملزم کے کٹھہرے میں ہیں۔  

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم ایسے حالات میں یہاں جمع ہوئے ہیں کہ ہمیں ایک اہم حقیقت یعنی دنیا کے پلٹنے اور تبدیل ہونے، اور ایک جدید دوران اور آڈر میں داخل ہونے کا سامنا ہے۔ پرانی دنیا، «یکطرفہ پن»، «تسلط پسندی»، «سرمایے کے اخلاق، عدل و انصاف اور فضیلت پر غلبے کی»، «غربت، امتیازی سلوک اور عدم مساوات کو فروغ دینے والی»، «تشدد، پابندی اور قوموں کے حقوق کی خلاف ورزی کو بروئے کار لانے کی» اور «عالمی تنظیموں اور اداروں کو خود مختار ملکوں پر دباو ڈالنے کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی» دنیا تھی، ایک کلام میں، ہر اعتبار سے ایک غیر عادلانہ اور غیر منصفانہ دنیا ہے۔ یہ غیر عادلانہ آڈر دنیا کی رائے عامہ میں اپنا جواز کھو چکا ہے اور اسے بدلنے کے لئے سنجیدہ اور مصمم ارادے تشکیل پا چکے ہیں۔ اس پرانے آڈر کا زوال ناقابل تردید ہے۔ ہمارا خطہ یعنی مغربی ایشیا، افغانستان سے لے کر عراق، لبنان، فلسطین اور سربلند ایران تک اس پرانے آڈر اور نظام کے زوال کا عظیم میوزیم ہے۔

صدر رئیسی نے مزیدکہا کہ اس کے علاوہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا بڑھتا ہوا خطرہ، ثقافتی انحطاط اور سیاسی اخلاقیات کا زوال، کثیر الجہتی کی بے سابقہ تضعیف اور بیماری کی طرح بڑھتے ہوئے یکطرفہ غیر مشروع اقدامات نے کثیر الجہت ترقی اور انسانی بلندی کی راہ میں بڑے بڑے چیلنجز پیدا کر دیئے ہیں۔

آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ عالمی دیرینہ خطرات اور جدید مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے عدل و انصاف پر مبنی کثیر الجہتی کے دائرہ کار میں اتحاد اور تعاون کے علاوہ کوئی دوسرا انتخاب نہیں ہے جو انبیائے الہی ﴿ع﴾ کی تعلیمات سے پھوٹنے والے اعلیٰ انسانی اصولوں اور اقدار پر قائم ہو۔  

ایران کے صدر نے کہا کہ تمام آزادی پسند قومیں انہی اعلیٰ اقدار کی گرویدہ ہیں تاہم یہی اعتقادات دنیا کے ظالمین کی ہم سے تمام دشمنیوں کی وجہ ہے۔ ہم جس کو چاہتے ہیں وہ ایرانی قوم کے حقوق ہیں اور ظلم پر مبنی تعلق کو برداشت نہیں کرتے۔ ہم اپنی قوم کے حقوق پر ثابت قدم رہیں گے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی بھی قسم کا ظالمانہ تعلق عالمی صلح و سلامتی کے لئے نقصان دہ ہوگا اور عالمی برادری کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظلم کو معمول کا عمل سمجھنا ہے۔ عدل و انصاف کے علاوہ کسی بھی دوسرے راستے سے عالمی امن و سلامتی کا حصول پائیدار نہیں رہے گا اور یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق ہمیں اقوام متحدہ سے توقع ہے کہ اسے انجام دے۔

جی ہاں، عدل و انصاف مشکل ہے اور شاید یہی وجہ ہو کہ صلح کے بہت سے دعویدار عدل و انصاف سے گریزاں ہیں۔ اس کی دعویدار حکومتوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر آپ عدل و انصاف کے نفاذ کے لئے کسی عزم و ارادے کے مالک نہیں ہیں تو کیا ظلم سے مقابلہ کرنے کے لئے بھی کوئی میل و رغبت نہیں رکھتے؟

صدر رئیسی کا کہنا تھا کہ ہماری منطق کی جڑیں اسی قرآنی تہذیب سے جڑی ہوئی ہیں جو فرماتا ہے کہ نہ ظلم کرو اور نہ ہی ظلم برداشت کرو۔ اسی جملے سے بہت سی قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو منطق کی طاقت سے بے بہرہ ہیں طاقت کی منطق کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ منطق جو عدل و انصاف پر استوار ہو، طاقت پیدا کرتی ہے اور دلوں پر حکومت کرتی ہے۔ جس ملک کے پاس کوئی منطق نہیں ہوتی وہ بغاوت، ناجائز قبضے، فوجی مداخلت، لشکر کشی، دہشت گردی سے سلیکٹڈ برتاو اور کتنے ہی زیادہ ظلم و دیگر نا انصافیاں ہیں جن کا سہارا لیتا ہے۔ کیا ایٹمی ہتھیار کا سہارا لینے نے دنیا کو عدل و انصاف کی جانب دھکیلا یا تسلط پسندی کی زمین ہموار کی؟ لاکھوں عراقی، یمنی، شامی اور افغانی بچوں کی موت کون سے انسانی مقصد اور امنگ کی خدمت تھا؟ کیا یہ دنیا میں ظلم اور نا انصافی کے جلوے نہیں ہیں؟

آیت اللہ رئیسی کا مزیدکہنا تھا کہ آج تسلط پسندی دنیا کو آزار پہنچا رہی ہے، بگڑے حالات کا نیا دور ہماری دنیا کے لئے خطرہ ہے۔ دنیا کی قوموں میں عدل و انصاف کے قیام کی خواہش شدید تر اور ترقی، خود مختاری اور سلامتی کے حصول کا عزم مصمم تر ہو گیا ہے۔ مقاومت کی ڈاکٹرائن پر ایمان عدل و انصاف کے قیام کے لئے قوموں کے عزم کا نمایاں جلوہ ہے۔ 

تاہم اس کے مد مقابل یکطرفہ پن ہے جو ملکوں کو ان کی خود مختار ترقی کے راستے سے پیچھے رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ بات قبول نہیں کرسکتا کہ دوسرے ملک اپنے پاوں پر کھڑے ہوں اور خام خیالی میں فوجی اقدامات کو سلامتی کی بنیاد تصور کرتا ہے۔

سید ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ امریکہ کے دوستوں کی حالت بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔ آج یورپ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ گزشتہ دہائیوں میں مغربی ایشیا میں جو کچھ رونما ہوا اس کا ایک آئینہ ہے۔ مغربی ایشیا پر لشکر کشی اور مشرقی یورپ تک نیٹو کی توسیع ایک دوسرے سے بلکل بھی مختلف نہیں ہیں کیونکہ دونوں میں ملکوں کی تقدیر کا تعین اس امریکہ کے ذریعے ہوتا ہے کہ جو دوسروں کے خرچے پر اپنے مفادات کے درپے رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب ہماری قوم کا اپنے شایان شان مقام تک پہچنے کے لئے سفر کا آغاز تھا اور اس دوران اس نے بغاوت، داخلی دہشت گردی، علیحدگی پسندی، جنگ، آشوب و فسادات اور پابندیوں جیسے مختلف بحرانوں سے عبور کیا کہ ان میں ہر ایک اکیلا ہی بہت سے ملکوں کے لئے قابل برداشت نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ چار دہائیاں قبل ہماری قوم نے امام حمینی ﴿رہ﴾ کی قیادت میں اپنی مملکت سے غیروں کو نکال باہر کیا اور خود اپنی تقدیر پر مسلط ہوئی اور آج خطے کی اقوام اس تجربے کو مثال بنا کر اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔

ایرانی قوم کہ جو خود دہشت گردی کی قربانی بنی تھی، آج خطے میں امن و سلامتی کی تکیہ گاہ اور دنیا میں دہشت گردی سے جنگ میں حقیقی پیشرو اور پیش قدم بن چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایرانی قوم نے اپنے اعلیٰ عادلانہ اہداف تک پہنچنے کے لئے قیمت ادا کی ہے، خواہ اس زمانے کہ جب صدام حسین نے معاہدہ الجزائر کو پھاڑ دیا تھا اور ہمارے خلاف تمام عیار مسلح جنگ شروع کی تھی یا خواہ اس وقت کہ جب امریکہ کہ سابق صدر نے جوہری معاہدے کو روندتے ہوئے ہمارے خلاف تمام عیار معاشی جنگ چھیڑ دی اور بشریت کے خلاف ظلم و جنایت کے ایک جدید جلوے سے پردہ ہٹایا۔ 

امریکی جرائم اور شہید قاسم سلیمانی کے کردار کے متعلق ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے امریکہ کے سابق صدر نے اعلان کیا کہ داعش کو امریکہ نے بنایا ہے، ہمارے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ داعش کون سی امریکی حکومت کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے اس جانب سے ایک حکومت نے فیصلہ کیا کہ لاکھوں خواتین اور بچوں کا خون بہانے کی قیمت پر ہمارے خطے کے جغرافیا پر دوبارہ سے لکیریں لگائے گا تاہم اسلامی جمہوریہ نے اس پروجیکٹ کو روک دیا اور پھر اسے پیچھے دھکیل دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے والا، اس کا ہیرو اور داعش کو نابود کرنے والا کوئی نہیں تھا سوائے جنرل حاج قاسم سلیمانی کے۔ وہ انسان جو خطے کی اقوام کی آزادی کی راہ میں شہید ہوا اور امریکہ کے سابق صدر نے اس جرم کی سند کو اپنے نام کیا۔ 

صدر رئیسی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جس جرم کا سابق امریکی صدر نے اعتراف کیا ہے اس کی عادلانہ عدالتی پیروی انسانیت کی خدمت ہے، تاکہ اس ظلم کی بابت کہ جو خطے کی اقوام پر ہوا ہے، اس ظلم سے زخمی ہونے والوں دلوں کو کسی قسم کی تشفی مل جائے۔ اس جرم کی عادلانہ پیروی اور ٹرائل انسانیت کی خدمت ہے تا کہ اس کے بعد ظلم زبوں ہوجائے اور عدل و انصاف سربلند رہے۔ ہم عدل و انصاف پر عملدرآمد اور جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا حکم دینے والے اور اسے انجام والے کے خلاف مقدمے کو ایک منصفانہ عدالت کے ذریعے حتمی نتیجے کے حصول تک جاری رکھیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری قوم کی کہانی، اس قوم کی کہانی ہے جس نے سیکھ لیا ہے کہ اپنے پاوں پر کھڑی ہو اور کسی دوسرے پر تکیہ نہ کرے۔ انہوں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم نے یہی نقطہ نظر رکھنے اور اپنے گزشتہ تجربات کی بدولت استقامت اور ترقی کی پالیسی کو اپنا شیوہ بنایا ہوا ہے۔ مشخص طور پر ایک پیش رفتہ، مستحکم اور عقلانی سیاسی اور سول آڈر کی وجہ سے اسلامی ایران پابندیوں اور دھمکیوں کے با وجود آج خطے اور دنیا کی سطح پر ایک طاقتور ملک ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ آج دنیا طاقتور ایران کی محتاج ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم در عین حالیکہ تیل اور قدرتی گیس کی برآمد کر رہے ہیں، پورے ملک میں بجلی اور گیس کی تقسیم کا ایک وسیع نیٹ ورک بنا چکے ہیں۔ ہم سٹیم سیلز، خلائی صنعت، بائیو اور نینو ٹیکنالوجی اور نیوکلیئر سائنسز سمیت دیگر پیش رفتہ علوم میں پیش قدم ہیں۔ انسانی ترقی کے اشاریوں میں ایران کی ترقی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ہم نے 85 ملین ایرانی عوام کے انشورنس جیسے بنیادی سماجی بہبود کے بنیادی ڈھانچے کے قیام کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو ایک بنیادی اصول اور عمل بنایا ہے جب کہ ہمیں جنگ کے دوران ہم پر خاردار تار خریدنے کی بھی پابندی تھی، آج ہم جدید ترین فوجی سازوسامان کے تکنیکی علم تک رسائی حاصل کر چکے ہیں اور ڈیٹرنس کے مرحلے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایسے میں ہے کہ جب اس پورے دور میں ہمیں ایرانی قوم کی ترقی سے مقابلے میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی دشمنی کا سامنا تھا۔

ایرانی صدر نے کہا کہ یہ ہمارے دشمن نہیں تھے جو خود پیچھے ہٹے بلکہ یہ ہماری قوم تھی جس نے ہر دشمن کو میدان سے نکال باہر کیا۔ صدر رئیسی کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے ملکوں اور خاص طور پر اپنے ہمسایہ اور دوست ممالک کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعامل کا خواہاں ہے۔ جنگ بحرانوں کا حل نہیں بلکہ بحران کے حل کا راستہ بات چیت اور باہمی مفاہمت ہے۔ خطے کی سلامتی کو اندرونی طور پر اور بیرونی مداخلت کے بغیر قائم کرنا ہوگا اور اس کا راستہ تعاون ہے نہ کہ بلاک بندی۔

صدر رئیسی کا مزید کہنا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب غیر ملکیوں اور ایران و عراق کے دشمنوں کی شہ پر ایران اور عراق کے درمیان ایک جنگ ہوئی تھی تاہم آج دنیا کی سب سے بڑی اخوت کی علامت اور ثقافتی ایونٹ یعنی اربعین مارچ عراق اور ایران کے عوام اور دنیا کی دیگر اقوام کی بے مثال مجاہدتوں کے ساتھ منعقد ہوتا ہے تا کہ محمد رسول اللہ ﴿ص﴾ کے بیٹے حسین بن علی ﴿ع﴾ کی یاد اور راہ کو خراج عقیدت پیش کریں کہ جنہوں نے اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانوں کو لوگوں کو جہالت سے نجات دلانے اور انہیں ظلم سے چھٹکارہ دلانے کے لئے قربان کیا۔ 

انہوں نے حاضرین کی توجہ اس بات کی طرف دلائی کہ فلسطین کا مسئلہ خطے کے تمام بحرانوں کا سرچشمہ اور نا انصافی کا ایک غم انگیز جلوہ ہے۔ معاصر تاریخ نے فلسطینی قوم سے زیادہ کسی مظلوم قوم اور قدس پر قابض رجیم سے زیادہ کسی ظالم قوم کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ممالک جو آزادی اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں انہیں بتانا چاہیے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایران کے منصفانہ اور کھلے فارمولے سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟ مظلوم فلسطین میں ہم ون فلسطین پالیسی پر کاربند ہیں۔ بحر سے دریا تک فلسطین کی تمام زمینیں اس مقدس اور تاریخی سرزمین کے اصل باشندوں کی ہیں۔ صرف تمام فلسطینیوں بشمول مسلمان، عیسائی اور یہودیوں کی رائے کی طرف جانا ہی مسئلہ فلسطین کا حال ہے جو ایک عمومی ریفرنڈم کروا کر حاصل ہوسکتی ہے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ القدس پر قابض رجیم جو کہ بدستور خطے کے دیگر ممالک کی زمینوں پر قابض ہے، صلح و سلامتی کا حصہ نہیں بن سکتی۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ میں صاف کہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران جوہری ہتھیاروں کا خواہاں نہیں ہے اور اس ہتھیار کی ہمارے دفاعی ڈاکٹرائن میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس حکم حکومتی کا رہبر معظم انقلاب کے فتوے میں اعلان کیا گیا ہے اور یہ ایرانی قوم اور ملک کے لیے کسی بھی قسم کی بین الاقوامی نگرانی سے بڑھ کر موثر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کا پرامن جوہری پروگرام دنیا کے جوہری پروگراموں کا صرف 2 فیصد ہے لیکن جوہری تنصیبات کا 35 فیصد معائنہ ہماری تنصیبات پر ہوتا ہے۔ وہ ممالک جو قوانین کی پابندی کرتے ہیں وہ این پی ٹی میں اپنے حقوق سے محروم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران کی مذاکراتی منطق منصفانہ تجزیہ پر مبنی ہے اور صرف اس جملے کے فریم ورک کے اندر ہے: وعدوں پر قائم رہنا۔ ضمانتوں کا معاملہ صرف کسی واقعہ کی تیاری کا معاملہ نہیں ہے۔ ہم ایک تجربے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ہم نے جوہری معاہدے سے دستبرداری اور موجودہ امریکی انتظامیہ کے وعدوں کو پورا کرنے میں ڈیڑھ سال کی تاخیر کا تجربہ کیا ہے۔ جہاں امریکی انتظامیہ اپنے وعدوں پر واپس آنے کی بات کر رہی ہے، اسی دن ہمیں اس ملک کے اندر سے ایک اور آواز سنائی دیتی ہے، جو امریکہ کے اپنے وعدوں پر قائم رہنے پر سوال اٹھاتی ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ہم کسی معاہدے کے ساتھ یا اس کے بغیر اپنا راستہ خود تلاش کریں گے اور قوت کے ساتھ اپنے راستے پر چلتے رہیں گے۔ ہم نے ظاہر کیا ہے کہ ہمارے پاس اس مسئلے کے منصفانہ حل کے لیے پختہ ارادہ ہے، بشرطیکہ سنجیدہ مذاکرات کی طرح ایرانی عوام کے مفادات کو پورا کیا جائے۔ ہماری رائے میں جوہری معاہدے کی گرہ کو وہیں سے کھولنا چاہیے جہاں سے اس کو باندھا گیا تھا۔

News ID 1912422

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha