مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صہیونی وزیراعظم نتن یاہو کی اقتدار میں واپسی کے پہلے ہفتے کے بعد عدالتی اصلاحات کا مقدمہ ان کی کابینہ کا پہلا اور اہم منصوبہ بن گیا ہے۔ ان اصلاحات کا پہلا مرحلہ 2023 کے پہلے ہفتے سے لے کر اس سال کے تقریبا اختتام تک جاری رہا۔ اس عرصے کے دوران نتن یاہو کی کابینہ نے تین شعبوں میں اصلاحات پر غور کیا لیکن اصلاحات کا یہ مرحلہ اس وقت تقریبا ناکام رہا جب سپریم کورٹ نے یکم جنوری 2024 کو عدالتی اصلاحات کے بنیادی قانون کو منسوخ کر دیا
2024 کے آخر تک عدالتی اصلاحات کا معاملہ تقریبا خاموش رہا اور غزہ کی پٹی میں حماس اور پھر لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا انتظام ناگزیر طور پر حکمران اتحاد کا اہم کیس بن گیا۔ چونکہ 2024 کے وسط سے لبنان اور غزہ کے محاذوں پر لڑائی کی شدت میں کمی آئی لہذا ان اصلاحات کی بحالی کی افواہیں ایک بار پھر بڑھ گئیں۔
جنگوں کی شدت میں کمی کے دوران، عدالتی اصلاحات کے احیاء اور کابینہ کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے عدلیہ اور اٹارنی جنرل پر حملوں میں اضافہ ہوا۔ موجودہ حکومتی اتحاد عدالتی اصلاحات کو عدلیہ کے ساتھ 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والی شکستوں اور اس دن کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنانے کے معاملے پر مصالحہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نتن یاہو اس سلسلے میں سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ عدالت کے نسبتا اختیارات کو برقرار رکھنے کی قیمت پر وہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے دوران سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی حکام کی غفلت اور غلطی کی تحقیقات کے لیے ایک خودمختار فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم نہ کر سکے۔
پہلے مرحلے میں عدالتی اصلاحات دو بنیادی خیالات پر مبنی تھیں؛ پہلا یہ کہ اگر عدلیہ کسی حکومتی فیصلے کو مسترد کردے تو کنیسٹ دوبارہ ووٹنگ اور مطلق اکثریت کے حصول کے ذریعے منسوخ شدہ قراردادوں کو دوبارہ قانون میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اس کے بعد، وزیرِ انصاف یاریو لوین، جو عدالتی اصلاحات کے معمار ہیں، نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا کہ مخالفین کے کچھ تحفظات درست تھے۔
دوسرا خیال تین ماہ کی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے بعد پیش کیا گیا۔ نتن یاہو کی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ اصلاحات کو ایک بل کی بجائے متعدد بلوں کی صورت میں پیش کیا جائے، تاکہ اس سے عدلیہ اور عوام کی طرف سے ردعمل کی شدت کم کی جاسکے۔ اس بل کے ذریعے عدلیہ کو یہ اختیار ملتا تھا کہ وہ کسی حکومتی فیصلہ کو "غیر معقول" ہونے کی وجہ سے منسوخ کر سکے، لیکن نیتن یاہو کے اتحاد نے اس بل کو ایک بنیادی قانون کے طور پر منظور کروا لیا تاکہ عدلیہ اس کو مسترد نہ کرے۔
عدالتی اصلاحات کا دوسرا مرحلہ 2024-2025
پہلے مرحلے میں ناکامی کے بعد، عدالتی اصلاحات کا معاملہ کچھ مہینوں کے لیے ٹھنڈا ہوگیا تھا، لیکن 2024 کے وسط میں اس کی بحالی کے بارے میں آوازیں دوبارہ سنائی دینے لگیں۔ کنست کی بنیادی قانون کمیٹی کے صدر نے ایک بار پھر اصلاحات کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔
اس نئے مرحلے میں وزیرِ انصاف یاریو لوین نے عدلیہ کی طاقت کم کرنے کی بجائے، ججز کے انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی کی کوشش کی تاکہ زیادہ قدامت پسند ججز کو عدلیہ میں شامل کرکے انتہائی عدالتی سرگرمی کو روکا جاسکے۔
پچھلے قانون کے مطابق، عدلیہ کے ججز کے انتخاب کے لیے کمیٹی کی تشکیل ۹ ارکان پر مشتمل تھی:
1. سپریم کورٹ کے تین ججز: جن میں دیوان عالیہ کے صدر اور دو دیگر ججز شامل تھے، جو 15 ججز کے ذریعے منتخب کیے جاتے تھے۔
2. بار ایسوسی ایشن کے دو نمائندے: یہ افراد بار ایسوسی ایشن کے ممبران کے ووٹ سے منتخب ہوئے تھے اور عام طور پر آزاد عناصر کے طور پر کام کرتے تھے۔
3. کابینہ کے نمائندے: وزیرِ انصاف اور کابینہ سے ایک اور وزیر۔
4. کنیست کے دو نمائندے: ایک نمائندہ حکومتی اتحاد سے اور ایک اپوزیشن سے منتخب ہوتا تھا۔
یہ ترکیب اس طرح ڈیزائن کی گئی تھی کہ کوئی بھی گروہ (ججز، وکلا، یا سیاستدان) اکثریت نہ رکھے، اور فیصلہ سازی کے لیے مختلف گروپوں میں اتفاق یا اتحاد ضروری ہو۔
تاہم 26 مارچ 2025 کو اس حوالے سے ایک نیا بل منظور ہونے کے بعد اس کمیٹی کے نو ارکان کا انتخاب مندرجہ ذیل طریقے سے کیا جائے گا:
سب سے اہم تبدیلی صیہونی حکومت کی بار ایسوسی ایشن کے دو منتخب نمائندوں کو کمیٹی کی تشکیل سے مکمل طور پر خارج کرنا ہے۔ اس سے ججوں کے انتخاب کے عمل سے وکلاء برادری کی آزادانہ آواز ختم ہوجاتی ہے۔
بار ایسوسی ایشن کے دو نمائندوں کی جگہ، دو دیگر قانونی ماہرین کمیٹی میں شامل کیے جائیں گے، مگر ان کے انتخاب کا طریقہ مختلف ہوگا۔
ایک کنیست نمائندہ حکومتی اتحاد کے ذریعے منتخب ہوگا جبکہ دوسرا نمائندہ اپوزیشن کے ذریعے منتخب ہوگا۔ اس تبدیلی کے ذریعے ان دو نشستوں کو سیاسی وابستگی کے ساتھ تبدیل کیا جائے گا، جس سے سیاسی جماعتوں کا اثر و رسوخ کمیٹی میں نمایاں طور پر بڑھ جائے گا۔
طاقت کے توازن میں تبدیلی
ان تبدیلیوں کے ساتھ نئی کمیٹی کی ترکیب میں 9 ارکان شامل ہوں گے، لیکن ان میں سے چھ ارکان (دو حکومتی نمائندے، دو کنست کے نمائندے، اور دو قانونی ماہرین جو حکومت اور اپوزیشن منتخب کریں گے) براہ راست یا بالواسطہ سیاسی دھڑوں کے اثر میں ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں، صرف تین ارکان یعنی دیوان عالی کے ججز عدلیہ کی نمائندگی کرتے رہیں گے۔ یہ تبدیلی طاقت کے توازن کو بنیادی طور پر سیاستدانوں کے حق میں تبدیل کرے گی اور ان کو واضح اکثریت فراہم کرے گی۔
نتائج
52 اپوزیشن ارکان نے اس بل کی ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا، اور یہ بل 67 اراکین کی حمایت کے ساتھ منظور کیا گیا جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ آیا۔ اپوزیشن رہنما یائیر لاپیڈ، بنی گانتس اور یائر گولان نے اس قانون کی شدید مخالفت کی اور اسے نتن یاہو کی طرف سے جمہوریت کے خلاف جنگ دوبارہ شروع کرنے کے مترادف قرار دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ صہیونی دیوان عالی بھی اس قانون کی مخالفت کرے گا۔ یہ عمل دوبارہ صہیونی معاشرے اور اداروں کے درمیان تقسیم کو بڑھا دے گا۔ یہ تصادم نتن یاہو کی کابینہ کی مدت کے اختتام اور اگلے عام انتخابات تک جاری رہ سکتا ہے، جو مقبوضہ علاقوں میں نئے بحرانوں کا باعث بن سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ