8 جولائی، 2022، 11:07 AM

حجت الاسلام و المسلمین محمد رضا یوسفی کی مہر نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو:

علمی جہاد اور کتابت حدیث کی ترویج، فتنوں کے مقابلے میں امام محمد باقر علیہ السلام کا طرز عمل

علمی جہاد اور کتابت حدیث کی ترویج، فتنوں کے مقابلے میں امام محمد باقر علیہ السلام کا طرز عمل

مہر نیوز کے نمائندے نے حوزہ علمیہ قم کے استاد اور مفید یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر حجت السلام و المسلمین محمد رضا یوسفی سے امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر اس زمانے کے مختلف حالات اور فتنوں کا جائزہ لینے اور ان کے مقابلے میں آپؑ کا موقف اور طرز عمل جاننے کے لئے خصوصی گفتگو کی۔

مہر نیوز کے نمائندے نے حوزہ علمیہ قم کے استاد اور مفید یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر حجت السلام و المسلمین محمد رضا یوسفی سے امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر اس زمانے کے مختلف حالات اور فتنوں کا جائزہ لینے اور ان کے مقابلے میں آپؑ کا موقف اور طرز عمل جاننے کے لئے خصوصی گفتگو کی۔ اس گفتگو کا خلاصہ قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ 

حجت الاسلام و المسلمین محمد رضا یوسفی نے کہاکہ اگر امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کے زمانے پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں نظر آئے گا اس زمانے کے اخلاقی حالات سقوط اور انحطاط کا شکار تھے اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بنی امیہ نے زمام حکومت پر قبضہ کیا ہوا تھا اور اپنی حکومت کے جواز فراہم کرنے کے لئے عوام میں اپنی باطل فکر کی ترویج میں مصروف تھے اور دربار سے وابستہ افراد کی تقویت کررہے تھے۔ دوسری جانب سے خود یہ حکومت بھی تاریخ کے اہم دور میں تھی۔ جیسے کہ ہم جانتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں بنی امیہ کی حکومت کمزور پڑ چکی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکام اور بنی امیہ کے مابین تنازعات شدت اختیار کرچکے تھے۔ اسی لئے حکومتوں کا دورانیہ انتہائی کم تھا۔ کیونکہ بنی امیہ مسلسل اپنے خلاف سازشوں میں مصروف تھے اور یہی وجہ تھی کہ معاشرے اور مخالفین کا دباو کم ہوگیا تھا۔   امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں بنی امیہ کی حکومت کمزور پڑ چکی تھی

جبریہ اور غلات جیسے انحرافی فرقوں کا سر اٹھانا

انہوں نے کہاکہ بنی امیہ کی حکومت کا فساد اور اخلاقی گراوٹ روز بروز پھیلتا جارہا تھا اور یہ مسئلہ امام باقر علیہ السلام کے زمانے کی مشکلات اور مسائل میں سے ایک تھا۔ ایسے تہذیبی حالات میں مختلف انحرافی فرقوں نے سر اٹھانا شروع کردیا، من جملہ جبریت پر مبنی افکار کے حامل گروہ سرگرم ہوگئے۔ جبریہ کا اس بات پر عقیدہ رکھتے تھے کہ انسان کو خود سے کوئی اختیار حاصل نہیں اور وہ مجبور ہے۔ دوسری جانب سے شیعوں پر بے انتہا دباو کی وجہ سے شیعوں کا ایک گروہ بھی انحرافی افکار کی جانب مائل ہوگیا کہ جنہیں غلات (غالی) کہا جاتا ہے۔ یہ شیعوں کا وہ فرقہ تھے کہ جو ائمہ علیہم السلام کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے اور انہیں خدائی کے مرتبے تک پہنچاتے تھے۔ غلو کسی کام میں یا کسی شخص کے بارے میں مبالغہ آرائی اور حد سے تجاوز کرنے اور بڑھاوا دینے کے معنی میں ہے اور غالی ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ جو افراط سے کام لے اور شخصیات کے متعلق حد سے خارج عقائد اور افکار کا اظہار کرے۔ یہ لوگ چند گروہوں میں بٹ گئے جن میں سے ہر گروہ نے ائمہ علیہم السلام کے متعلق مختلف باطل عقائد اختیار کئے۔

بنی امیہ کے دور میں معاشرے میں اخلاقی انحرافات کی ترویج  امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں ایک بنیادی مسئلہ فکری انحرافات تھے

حوزہ علمیہ کے استاد نے وضاحت دی کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں ایک بنیادی مسئلہ فکری انحرافات تھے کہ جنہوں نے اسلام کی شکل اختیار کر لی تھی۔ حتی کہ بنی امیہ نے امیر المؤمنین پر لعن کو اپنی نمازوں میں شامل کرلیا تھا اور یہ سلسلہ تقریبا سو سال تک جاری رہا۔ لہذا یہ تمام چیزیں باعث بنیں کہ عوام صحیح دینی فکر اور راستے سے دور ہوگئے۔ دوسری جانب سے گزشتہ زمانوں سے منع حدیث کا مسئلہ چلا آرہا تھا اور احادیث کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے کوئی معتبر مأخذ اور ذریعہ بھی نہیں تھا، ہر کوئی اپنے سلیقے اور میلان کے مطابق پیغمبر اکرمﷺ اور اہل بیت علیہم السلام سے نقلِ قول کرتا تھا۔ گویا تبلیغِ دین کے سلسلے میں روایات و احادیث کے متعلق ایک قسم کی بے ضابطگی اور لاقانونیت وجود میں آگئی تھی۔ یہ مسئلہ باعث بنا کہ اس زمانے میں مسلمانوں کے مابین عمیق فکری انحراف پید ہو گیا، یہاں تک کہ غیر مسلموں کو بہانہ مل گیا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈا کرسکیں۔ معاشرے کا یہ انحطاط سبب بنا کہ معاشرے میں اخلاقی بے ضابطگی اور دوسروں کا مال لوٹنے کا رواج بھی عام ہوگیا۔ 

امام علیہ السلام کی انحرافات اور سماجی مسائل کے مقابلے میں تدابیر

انہوں نے مزید کہاکہ امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک ایسے دور میں اپنی امامت کا آغاز کیا کہ جب اسلامی معاشرے میں تہذیبی اور ثقافتی حالات ناگفتہ بہ تھے اور معاشرے میں عمیق عقیدتی تنازعات اور اسلامی فرقوں میں مختلف فقہی اختلافات پھیل چکے تھے۔ واقعہ عاشورا کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی تناو کا ٹھنڈا پڑجانا اور اسی طرح بعض سیاسی تحریکوں جیسے کہ عبد اللہ بن زبیر کی ناکامی بنی امیہ کی حکومت کے استحکام کا باعث بنی در نتجہ بہت سے دانشور سیاسی میدان سے دور ہوگئے اور مختلف علمی موضوعات کے بارے میں بحث و گفتگو شروع ہوگئی اور ایک وسیع علمی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ اس زمانے میں فقہی مسائل میں اتنی وسیع علمی تحریک، مختلف علمی موضوعات کے متعلق تبادلہ افکار اور بحث اور مدتوں جمود کے بعد پھر سے مختلف علمی مکاتب اور اسالیب کی پیدائش نے علم کے بازار کو گزشتہ سے بڑھ کر رونق بخشی۔ در حقیقت اس زمانے میں اسلامی مفکرین، خاص طور پر شیعہ دانشوروں کی علمی رہنمائی اس دور میں امام علیہ السلام کے درخشاں کردار کا سب سے اہم اور برتر پہلو ہے۔ 

امام باقر علیہ السلام کے زمانے میں برجستہ شاگردوں کی تربیت  امام باقر علیہ السلام کے زمانے میں شیعہ آراء کی وضاحت میں ایک انتہائی اہم اور مناسب قدم اٹھا گیا اور شیعہ دانشوروں کے مابین ایک قابل تحسین تحریک وجود میں آئی

حجت الاسلام یوسفی نے اپنے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ امام باقر علیہ السلام کے زمانے میں شیعہ آراء کی وضاحت میں ایک انتہائی اہم اور مناسب قدم اٹھا گیا اور شیعہ دانشوروں کے مابین ایک قابل تحسین تحریک وجود میں آئی۔ دوسری جانب سے یہود کے آلودہ افکار کا پھیلاو اور مرجئہ، جبریہ، قدریہ اور غلات وغیرہ جیسے فرقوں کے افکار کے تسلط نے تشیع کی فکری حیات کو خطرے سے دوچار کردیا تھا۔ البتہ امام باقر علیہ السلام جیسی شائستہ علمی مرجعیت نے ان فرقوں کے خطر آمیز افکار کو قابل توجہ حد تک دیوار سے لگا دیا تھا۔ امام باقر علیہ السلام علم و دانش کے آفتاب عالم تاب تھے۔ امام علیہ السلام کے علمی مقام کی برتری اور عظمت کے لئے یہ کافی ہے کہ شیعہ احادیث کے مجموعوں میں سب زیادہ احادیث آپؑ اور آپ کے فرزند گرامی امام جعفر صادق علیہ السلام کی ہیں اور یہ بات اپنی جگہ آپ کے علمی مقام کی بزرگی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ 

انہوں نے مزید کہاکہ ان سیاسی حالات میں امام علیہ السلام کا سب اہم اقدام قلم و دوات، شاگردوں کی تعلیم و تربیت اور فقہا اور دانشوروں کی پرورش تھا تاکہ یہ افراد اسلامی معاشرے میں اہل بیت علیہم السلام کے افکار او آراء کے مبلغ بن سکیں۔ اس زمانے میں بہت سے شیعوں نے تشیع کے بلند مراتب کو درک نہیں کیا تھا اور ان میں سے کچھ لوگ اہل سنت احادیث کے ساتھ ساتھ امام علیہ السلام کے علم و دانش سے استفادہ کرنے کے بھی بہت مشتاق تھے۔ جیسا کہ کتب رجال سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام سے قریبی رابطہ رکھنے والے بہت سے افراد ان کے اصحاب میں سے نہیں تھے۔ اس مسئلہ میں ان کی آراء نے لوگوں پر بہت اثر ڈالا اور تشیع کی فکر سے بہت سے خطرات کو دور کیا اور سبب بنا کہ اس زمانے مختلف عقائد رکھنے کے باوجود مکتب تشیع کے گرویدہ ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ 

عقلی مباحث کو رونق بخشنا

مفید یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ امام علیہ السلام کی اپنے شاگردوں کو ایک خاص تاکید یہ تھی کہ طالب علموں کو عقلی مباحث کی جانب متوجہ کیا جائے۔ اس دور تک نقل حدیث ممنوع تھی تاہم آپؑ نے  انحرافی مکاتب سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک دوسرا راستہ اپنایا۔ آپؑ نے فرمایا تم لوگ عقل کے ذریعے ان مذاہب کے ساتھ مکالمہ و مباحثہ کرو اور چونکہ یہ لوگ خود کو صاحبِ عقل سمجھتے ہیں عقلی گفتگو سے قانع ہوجائیں گے۔ بہت سارے مکالمات اور گفتگو جو امام علیہ السلام نے شاگردوں نے ان افراد کے ساتھ انجام دی نتیجہ خیز ثابت ہوتی تھی اور یہ افراد پسپا ہوجاتے تھے، اگرچہ بعض کی نفسیاتی خصوصیات باعث بن جاتی تھی کہ اپنی شکست کے اعتراف سے پرہیز کریں یا بحث سے راہ فرار اختیار کر لیتے تھے۔ ان مکالمات نے لوگوں کو اس منحرف مکتب کا حقیقی چہرہ دکھایا اور امام محمد باقر علیہ السلام کا ہدف بھی یہی تھا۔ کیونکہ اگر  یہ مذاہب مزید آگے بڑھتے تو فتنہ اٹھنے کا خدشہ تھا۔ اتنا ہی کافی تھا کہ لوگ سمجھ جاتے تھے کہ یہ افراد نہ فقط امام محمد باقر علیہ السلام کے سامنے بے بس ہیں بلکہ امام علیہ السلام کے شاگردوں کو بھی جواب نہیں دے سکتے اور اس طرح لوگوں کو معلوم ہوجاتا تھا کہ حق کس کے ساتھ ہے۔ 

کتابت حدیث کا احیاء امام باقر علیہ السلام کے فرمان کے مطابق عمر بن عبدالعزیز نجیبِ بنی امیہ تھا

انہوں نے کہاکہ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا کچھ عرصہ اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے ہمعصر تھا۔ امام باقر علیہ السلام کے فرمان کے مطابق عمر بن عبدالعزیز نجیبِ بنی امیہ تھا کہ جس تین وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اس نے منبروں سے امیر المؤمنین پر لعن کو ختم کیا اور اسے ممنوع قرار دیا۔ دوسری یہ کہ اس نے کتابت حدیث کی ممنوعیت کو ختم کیا۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے تقریباً ستر سال حدیث کی کتابت ممنوع تھی اور اگر کوئی حدیث ملتی تو اسے جلا دیتے تھے اور پانی میں بہا دیتے تھے تا کہ لوگوں کے ہاتھ نہ لگ سکے۔ تاہم امام محمد باقر علیہ السلام نے عمر بن عبد العزیز کے زمانے میں حاصل ہونے والے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ جب حدیث کی کتابت پر سے پابندی اٹھ چکی تھی، فرمایا: جو کوئی بھی کسی حدیث کو سنے یا اس کے ذہن میں محفوظ ہے اس کے لکھ لے۔ لہذا احادیث کی کتابت اور ان کی حفاظت آپؑ کی اپنے شاگردوں کو ایک اہم تاکید اور وصیت تھی۔

News ID 1911488

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha

    تبصرے

    • Sayed Walayat Hussain QA 00:50 - 2022/07/17
      0 0
      Eide ghadir Ka MATLAB Kiya he