مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ حضرت امام حسینؑ کے قیام کے زمانے سے آج تک یہ سوال گردش کررہا ہے کہ آپؑ کے قیام کا کیا مقصد تھا۔ کیا کوفیوں کی دعوت کے باعث آپ نے قیام کیا؟ کیا اپنے والد گرامی کی طرح ایک اسلامی حکومت کا قیام آپ کا ہدف تھا جو معاشرے میں اصلاحات انجام دے؟
یہ سوال اس واقعے کے بارے میں لوگوں کے نظریات کی حکایت کرتے ہیں۔ ہر کسی نے اپنے نظریے کے مطابق واقعہ عاشورا کی تفسیر کی ہے۔ مسلمان اور غیر مسلم دانشوروں نے اپنے عقیدے کے مطابق قیام امام حسینؑ کی تشریح پیش کی ہے۔ واقعہ عاشورا نے دنیا کے حریت پسندوں کو درس دیا ہے۔
مہر نیوز نے محرم الحرام کی مناسبت سے عاشورا کے بارے میں مسلمان اور غیر مسلم دانشوروں کے نظریات پیش کرنے کے لئے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔
لبنان سے تعلق رکھنے والے مشہور عیسائی مورخ اور مصنف جارج جرداق نے امام علیؑ اور امام حسینؑ کے بارے میں تحریریں لکھی ہیں۔ جارج جرداق نے حضرت امام علیؑ کے بارے میں علی، ندائے عدالت انسانی کے نام سے معروف کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے لبنان کے مختلف جرائد اور مجلات میں مقالے بھی لکھے ہیں۔
جارق جرداق قیام عاشورا کے پس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یزید اپنے اسلاف کا وارث تھا اور ایک بدکار انسان جس میں ہر برائی پائی جاتی تھی۔ وہ لذت اور شہوت کا دلدادہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گھوڑ سواری کا بڑا شوقین تھا۔ بندروں سے کھیلنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ایک قول کے مطابق ایک بندر کے ساتھ گھڑسواری کے مقابلے کے دوران ہی گھوڑے سے گر کر یزید ہلاک ہوگیا۔
اس کے زمانے میں بنی امیہ کا تعصب اپنے عروج پر پہنچا۔ یزید سے بڑھ کر کوئی انسانی اقدار سے عاری نہیں تھا۔ کربلا میں اپنے زمانے کے سے افضل اور کامل انسان کو شہید کردیا۔ وہ ریاست طلبی، اقتدار پرستی اور مفاد پرستی کا نمونہ تھا۔
دوسری طرف فرزندان علی تھے جو انسانی صفات میں اعلی مرتبہ پر فائز تھے۔ شجاعت اور آزادگی ان کی سرشت میں شامل تھی۔ امام حسینؑ کے اصحاب بھی اپنے عزم میں مخلص تھے۔ جب آخری رات امام حسینؑ نے ان کو راہ الگ کرنے کی پیشکش کی تو کہا جب تک جسم میں جان ہے، امام کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ مسلم بن عوسجہ نے کہا کہ کیسے آپ کو تنہا چھوڑیں جب کہ ابھی آپ کا حق بھی ہم نے ادا نہیں کیا ہے۔ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے دشمن کے سامنے تلوار اور نیزے چلائیں گے یہاں تک کہ اپنی جان آپ پر قربان کردیں۔
حبیب بن مظاہر نے کہا کہ سے مسلم ہم بھی تیرے پیچھے آئیں گے۔ حر بن یزید آخری مرحلے میں خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور دنیوی مال و دولت کو ٹھوکر ماری۔ امام حسینؑ کے اصحاب شہادت کو سعادت اور شرافت سمجھتے تھے۔
ابن زیاد اور شمر ذی الجوشن نے شہداء کے جنازوں پر گھوڑے دوڑائے وہ خود بھی بدترین حیوان تھے۔ بچوں پر ظلم کیا۔ شہداء کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ عمر بن سعد نے لشکر والوں کو گواہ بناتے ہوئے امام حسینؑ کے خیمے کی طرف تیر پھینکا۔
دونوں لشکر میں یہی فرق تھا کہ امام حسینؑ کے اصحاب کہتے تھے کہ 70 مرتبہ بھی شہید ہوجائیں تو بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے جبکہ یزید کے لشکر والے فورا اپنا حصہ طلب کرتے تھے۔
آپ کا تبصرہ