فاطمہ بنت حِزام، اُمّ البَنین کے نام سے مشہور امیرالمؤمنینؑ حضرت علی علیہ السلام کی زوجات میں سے ہیں۔ حضرت علیؑ سے ازدواج کے نتیجے میں آپ کے بطن سے چار بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام حضرت عباسؑ، عبداللہ، جعفر اور عثمان ہیں۔ یہ چاروں بھائی عاشورا کے دن امام حسینؑ کے ساتھ شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ آپ ام البنین یعنی بیٹوں کی ماں کے لقب سے ملقب ہوئیں۔
واقعہ کربلا کے بعد حضرت ام البنین امام حسینؑ اور اپنے بیٹوں کیلئے اس طرح عزاداری کرتی تھیں کہ دشمنان اہل بیتؑ بھی آپ کے ساتھ رونے پر مجبور ہوتے تھے۔ آپ کا مدفن قبرستان بقیع میں ہے۔
شیعہ علماء نے آپ کی شجاعت، فصاحت اور اہل بیتؑ خاص کر امام حسینؑ کے ساتھ والہانہ محبت کی تعریف کی ہیں۔ شہید ثانی و عبدالرزاق مُقَرَّم کے مطابق امالبنین نے اپنے آپ کو خاندان رسالتؑ کی خدمت کے لئے وقف کر رکھی تھی اسی بنا پر اہل بیتؑ بھی آپ کے ساتھ احترام سے پیش آتے تھے اور عید کے ایام میں آپ سے ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے۔
نسب اور سوانح حیات
حضرت ام البنین کے والد گرامی ابوالمجْل حزام بن خالد یا حرام بن خالد[1] قبیلہ بنی کلاب سے ان کا تعلق تھا۔[2] آپ کی مادر گرامی لیلی یا ثمامہ بنت سہیل بن عامر بن مالک تھیں۔[3]
مورخین کے مطابق بنی کلاب شجاعت و بہادری اور اخلاقی فضائل میں مشہور تھے اور یہی خصوصیات حضرت علیؑ کے ساتھ آپ کی شادی میں موثر ثابت ہوئے۔[4]
حضرت ام البنین کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کے بارے میں کوئی دقیق معلومات تاریخی منابع میں ثبت نہیں۔ لیکن بعض مورخین نے مختلف تاریخی شواہد کی بنا پر آپ کی تاریخ ولادت کو 5 سے 9ھ کے درمیان قرار دیئے ہیں۔[5] آپ کی تاریخ وفات بعض مورخین کے نزدیک 13 جمادی الثانی 64ھ[6] جبکہ بعض دوسرے مورخین 18 جمادیالثانی سن 64ھ ہے۔[7]اسی طرح بعض مورخین کے مطابق واقعہ کربلا کے بعد آپ کے زندہ ہونے کی کوئی معتبر دلیل موجود نہیں ہے۔[8] مورخین کے مطابق آپ کا محل دفن قبرستان بقیع میں ہے۔[9]
حضرت علیؑ کے ساتھ ازدواج
حضرت فاطمہ زہراؑ کی رحلت کے بعد حضرت علیؑ نے اپنے بھائی عقیل سے جو نسب شناسی[نوٹ 1] میں مشہور تھے، ایک نجیب خاندان سے بہادر، شجاع اور جنگجو اولاد جنم دینے والی زوجہ کے انتخاب کے بارے میں مشورہ کیا[نوٹ 2] تو عقیل نے فاطمہ بنت حزام کا نام تجویز کیا اور کہا عربوں میں بنی کلاب کے مردوں جیسا کوئی دلیر مرد نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ یوں حضرت علیؑ نے آپ سے شادی کی۔ [11]اس شادی کا ثمرہ خدا نے چار بیٹوں کی صورت میں عطا کیا جن کے نام عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان ہیں۔
آپ کے یہ چار بیٹے شجاعت اور دلیری میں اپنی مثال آپ تھے اس وجہ سے آپ کو ام البنین [بیٹوں کی ماں] کہا جاتا تھا۔ آپ کے یہ چار کے چار بیٹے کربلا میں اپنے بھائی اور امام، امام حسینؑ کے رکاب میں شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے۔[12]
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی حضرت امام علیؑ کو یہ تجویز دی تھی کہ ان کو بجائے فاطمہ ام البنین کہہ کر پکارا جائے تاکہ حضرت فاطمہ زہراء(س) کے بچوں کو فاطمہ کہنے سے اپنی ماں حضرت فاطمہ زہرا(س) کی یاد تازہ نہ ہوجائے اور انہیں ماں پر گزرے تلخ حوادث آزار نہ پہنچائیں۔[حوالہ درکار]
ام البنینؑ واقعہ کربلا کے بعد
ام البنینؑ واقعہ کربلا پیش آتے وقت وہاں موجود نہیں تھیں۔ جب اسیران کربلا کا قافلہ مدینہ پہنچا تو آپ کو کسی نے آپ کے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنائی لیکن آپ نے کہا: امام حسینؑ کے بارے میں کہو جب آپ کو بتایا گیا کہ امام حسینؑ آپ کے چار بیٹوں کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے ہیں تو اس وقت آپ نے کہا: اے کاش میرے بیٹے اور جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے میرے حسینؑ پر فدا ہوتے اور وہ زندہ ہوتے۔ آپ کے یہ جملات، امام حسینؑ اور اہل بیتؑ کے ساتھ آپ کی سچی اور با اخلاص محبت کی عکاسی کرتی ہے۔[13]
تاریخی منابع میں ہے کہ حضرت زینب(س) مدینہ پہنچنے کے بعد "ام البنین" سے ملنے گئیں اور انہیں ان کے بیٹوں کی شہادت کے حوالے سے تعزیت و تسلیت پیش کی۔[14]
بقیع میں قبروں کی جگہ
ام البنین کا اپنے بیٹوں کیلئے عزاداری
حضرت ام البنینؑ اپنے بیٹوں کی شہادت سے باخبر ہونے کے بعد ہر روز اپنے پوتے عبیداللہ (فرزند عباس) کے ساتھ قبرستان بقیع جایا کرتی تھی اور وہاں پر اپنے اشعار پڑھا کرتی تھیں اور نہایت دلسوز انداز میں گریہ کرتی تھیں۔ اہل مدینہ ان کے ارد گرد جمع ہوتے اور ان کے ساتھ گریہ کرنا شروع کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ مروان بن حکم جو اہل بیت کا سرسخت دشمن سمجھا جاتا تھا بھی آپ کے ساتھ گریہ و بکا کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔[15] آپ حضرت عباسؑ کیلئے مرثیے کے یہ اشعار پڑھا کرتی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے:
" اے وہ جس نے عباس کو دشمن پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا ہے جو دشمن کے پیچھے تھا۔ کہتے ہیں میرے بیٹے کے ہاتھ جدا ہوگئے تھے اور اس کے سر پر گرز مارا گیا تھا۔ اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو کوئی تیرے نزدیک نہیں آسکتا"۔[16]آپ کو ایک فصیح و بلیغ ادیب و شاعر اور اہل فضل و دانش سمجھا جاتا تھا۔[17]
ام البنینؑ کے بارے میں بزرگوں کے اقوال
زین الدین عاملی جو شہید ثانی کے نام سے معروف ہیں، حضرت ام البنینؑ کے بارے میں کہتے ہیں: ام البنین با معرفت اور پر فضیلت خواتین میں سے تھیں۔خاندان نبوت سے خاص محبت اور شدید و خالص دلبستگی رکھتی تھی اور اپنے آپ کو ان کی خدمت کیلئے وقف کی ہوئی تھی۔ خاندان نبوت کے ہاں بھی آپ کو ایک اعلی مقام حاصل تھا اور آپ کا خصوصی احترام کرتے تھے۔ عید کے ایام میں ان کی خدمت میں تشرییف لے جاتے تھے اور ان کا خاص احترام کرتے تھے۔[18]
قبرستان بقیع میں ام البنین کی قبر
سید محمود حسینی شاہرودی (متوفی 17 شعبان ۱۳۹۴ ہجری قمری) کہتے ہیں: میں مشکلات اوقات میں حضرت ابوالفضل العباسؑ کی ماں ام البنین(س) کیلئے 100 مرتبہ صلوات ہدیہ کرتا ہوں اور اپنی مشکلات سے بخوبی باہر آتا ہوں۔[19]سید محسن امین کتاب اعیان الشیعہ میں لکھتے ہیں: ام البنین(س) ایک خوش بیان شاعر اور عرب کے اصیل اور شجاع خاندان سے انکا تعلق تھا۔[20]
مقرم کہتے ہیں: ام البنین کا شمار با فضیلت خواتین میں ہوتی تھی آپ اہل بیت کی حقانیت سے خوب واقف تھیں اور ان کی محبت اور دوستی میں خالص تھیں متقابلا خود بھی اہل بیت کے ہاں ایک خاص مقام رکھتی تھیں۔[21]علی محمد علی دُخَیل عصر حاضر کے عرب لکھاری اس عظیم خاتون کے بارے میں لکھتے ہیں: اس خاتون (ام البنین) کی عظمت وہاں آشکار ہوتی ہے جب انکے بیٹوں کی شہادت کی خبر آتی ہے تو اس پر کوئی توجہ نہیں دیتی بلکہ امام حسینؑ کی سلامتی کے بارے میں سوال کرتی ہے گویا امام حسینؑ ان کے فرزند ہیں نہ اپنے بیٹے۔[22] باقر شریف قرشی؛ کتاب عباس بن علی کرامت کی نشانی کے مصنف اس خاتون کی فضیلت کے بارے میں لکھتے ہیں: تاریخ میں نہیں دیکھا گیا ہے کہ کسی عورت نے اپنی سوکن کے فرزندان سے خالص محبت کی ہو اور ان کو اپنے فرزندوں پر مقدم رکھی ہو سوای یہ با عظمت خاتون یعنی ام البنین (س)[23]
1. بطل العلقمی کے مصنف کے بقول ام البنین فاطمہ کے باپ کا نام اگرچہ اکثر حزام لکھا گیا ہے لیکن یہ یقینی طور پر غلط ہے۔ ان کے باپ کا نام حرام ہے۔مظفر،الموسوعہ بطل العلقمی،ج1 ص
2. طبری، تاریخ، ج۴، ص۱۱۸.
3. ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ص۳۵۶؛ غفاری، تعلیقات بر مقتل الحسین، ص۱۷۴.
4. مسعودی، مروج الذهب و معادن الجواهر، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۶۷.
5. آقاجانی قناد، مادر فضیلت ہا، ۱۳۸۲ش، ص۲۰ش.
6. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنیہاشم، ۱۳۷۶ش، ج۲، ص۷۶.
7. زہیری، أم البنین سیرتہا وکراماتہا، ۲۰۰۶م، ص۱۶۹-۱۷۰۔
8. مقرم، مقتل الحسین(ع)، ۱۴۲۶ق، ص۳۵۵-۳۵۷۔
9. ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنیہاشم، ۱۳۷۶ش، ج۲، ص۷۶.
10. الاغانی الاصبهانی، ابوالفرج، الاغانی، بیروت، داراحیاءالتراثالعربی، ج۱۵، ص۵۰.
11. ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ص۳۵۷.
12. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۲ -۸۴؛ ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ص۳۵۶؛ حسّون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶.
13. حسون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶-۴۹۷؛ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۳، ص۲۹۳.
14. موسوی، قمر بنیهاشم، ص۱۶.
15. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۵.
16. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۳، ص۲۹۴ و تنقیح المقال، ج۳، ص۷۰
17. حسون، اعلام النساء المؤمنات، ص۴۹۶-۴۹۷.
18. ستارہ درخشان مدینہ حضرت ام البنین، ص۷.
19. چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم ابوالفضل العباسؑ، ج۱، ص۴۶۴.
20. اعیان الشیعہ، ج۸، ص۳۸۹.
21. مقرم،العباسؑ، ص۱۸.
22. دخیل، العباسؑ، ص۱۸.
23. شریف قرشی، العباس بن علی، ص۲۳.
بشکریہ ویکی شیعہ
آپ کا تبصرہ