مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرِ خارجہ سید عباس عراقچی نے جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شریک کی۔ دورے کے دوران انہوں نے عربی روزنامہ الشرق الاوسط کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا۔
اس گفتگو میں انہوں نے ایران کے علاقائی و بین الاقوامی مؤقف کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ غزہ، لبنان، شام اور ایران پر حالیہ حملوں نے پورے خطے کے لیے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ ان کا اصل دشمن کون ہے۔ آج یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ طاقت جو سب کو دھمکاتی ہے اور پورے خطے کو کمزور اور تقسیم کرنا چاہتی ہے، وہ صرف اور صرف صہیونی حکومت ہے۔
انٹرویو کا مکمل متن ذیل میں پیش ہے۔
جدہ میں وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ آپ اس اجلاس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور ایران کے نزدیک اس کے اہم ترین نتائج کیا ہیں؟
عراقچی: آج اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا ایک غیر معمولی اجلاس غزہ کے مسئلے پر غور کے لیے بلایا گیا۔ یہ اجلاس ایران، فلسطین اور ترکی کی درخواست پر منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ نے بہت اچھے بیانات دیے، نہایت مؤثر تقاریر کیں اور کچھ اہم فیصلے بھی کیے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ غزہ کے عوام کو ہمارے بیانات کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عملی مدد چاہیے۔ سب سے پہلے انہیں پانی، خوراک اور دواؤں کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد انہیں امن، انصاف اور قبضے کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں یہ بات بالکل واضح کردی کہ جن ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں، انہیں چاہیے کہ یہ تعلقات فوری طور پر ختم کریں اور تجارتی روابط بھی بند کردیں۔ یہ ایک عملی اور مؤثر قدم ہوگا۔اسی طرح اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی اداروں، عالمی تنظیموں اور عدالتوں میں ایک آواز بن کر اسرائیل کی مذمت کریں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 50 سے زیادہ اسلامی ممالک اور ایک ارب سے زائد مسلمان ایک عظیم طاقت ہیں، اور یہ طاقت اگر استعمال کی جائے تو غزہ اور فلسطین کی بھرپور مدد ہو سکتی ہے۔
کیا ایران امریکا کے ساتھ ایٹمی مذاکرات میں واپسی کے لیے تیار ہے؟ اور کیا تہران پابندیوں میں کمی یا خاتمے کے بدلے کچھ امتیازات دینے پر راضی ہوگا؟
عراقچی: ہم ہمیشہ اس بات کے لیے تیار ہیں کہ اپنے ایٹمی پروگرام پر منصفانہ اور عادلانہ مذاکرات کریں۔ جیسا کہ اس وقت بھی ہماری بات چیت تین یورپی ممالک کے ساتھ جاری ہے، اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ بھی ایک نئے تعاون کے فریم ورک پر گفتگو ہورہی ہے۔ امریکہ کے ساتھ بھی مذاکرات کے لیے ہماری آمادگی موجود ہے، لیکن براہِ راست بات چیت نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی امریکیوں کو یقین دہانی کرانی ہوگی کہ پچھلی بار کی طرح وہ مذاکرات کے دوران فوجی کارروائی نہیں کریں گے۔ ہمیں مطمئن ہونا ہوگا کہ اگر وہ مذاکرات کی میز پر آتے ہیں تو ایک منصفانہ اور باہمی مفاد پر مبنی مذاکرات کے لیے آئیں۔ اگر ان کا خیال ہے کہ جو چیز وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکے، وہ مذاکرات کی میز پر حاصل کر لیں گے، تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ہم نے کبھی مذاکرات کی میز کو نہیں چھوڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مذاکرات میں مصروف تھے جب اسرائیل نے ہم پر حملہ کیا اور امریکا بھی اس کے ساتھ شامل ہوا۔ اسی لیے اب کوئی بھی نیا مذاکرات پچھلے مذاکرات جیسا نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ میں نے کہا، ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات نہیں ہوں گے۔
اس وقت خطے میں کشیدگی بڑھتی نظر آرہی ہے اور یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل ایران پر دوبارہ حملے کرسکتا ہے۔ اسی دوران ایران نے بھی حالیہ دنوں میں فوجی مشقیں کی ہیں۔ کیا ہم ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں؟
عراقچی: ہر امکان موجود ہے اور ہم ہر صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ صہیونی حکومت اور امریکا ایران پر 12 روزہ حملے اور جنگ کے دوران اپنے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بہادری کے ساتھ نہ صرف مزاحمت کی بلکہ بھرپور جوابی کارروائی بھی کی۔ ہم نے آخری لمحے تک اسرائیل پر اپنے میزائل حملے جاری رکھے، حالانکہ وہ سمجھتے تھے کہ 48 گھنٹوں میں یہ حملے ختم کروا لیں گے۔ لیکن 12 دن کے بعد خود اسرائیل ہی تھا جس نے غیر مشروط جنگ بندی کی درخواست کی، اور چونکہ یہ درخواست بغیر کسی پیش شرط کے تھی ہم نے قبول کرلی۔ اگر وہ اس منظرنامے کو دہرانا چاہیں تو ہم پوری طرح تیار ہیں۔ تاہم، یہ 12 روزہ جنگ یہ ثابت کرچکی ہے کہ فوجی آپشن بالکل ناکام آپشن ہے۔ میری رائے میں وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کریں گے، لیکن اگر انہوں نے ایسا قدم اٹھایا تو ہمارا ردعمل پہلے جیسا نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ شدید ہوگا۔
خطے میں بعض حلقے یہ کہتے ہیں کہ ایران ہی عدم استحکام کا سبب ہے۔ آپ اس بارے میں کیا جواب دیں گے؟
عراقچی: غزہ، لبنان، شام اور ایران پر حملے کے حالیہ واقعات نے پورے خطے کو یہ حقیقت دکھا دی ہے کہ ان کا اصل دشمن کون ہے۔ میری رائے میں اب بالکل واضح ہوگیا ہے کہ جو سب کو دھمکی دیتا ہے اور پورے خطے کو کمزور اور منتشر رکھنا چاہتا ہے، وہ صہیونی حکومت ہے۔ حالیہ حملے میں پورے خطے کے تمام ممالک نے بلا استثنا ایران کی حمایت کی اور صہیونی حکومت حتیٰ کہ امریکی حملے کی بھی مذمت کی۔ گذشتہ ایک سال کے دوران، اسلامی جمہوریہ ایران نے ایران اور خطے کے ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے لیے بھرپور کوشش کی ہے۔ پچھلی حکومت میں بھی یہ عمل جاری تھا مگر اس بار زیادہ شدت اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھا ہے۔ گذشتہ ایک سال میں، میری دو بار سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی۔ ایک سال کے اندر اس نوعیت کی تین اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہماری تاریخِ تعلقات میں بے مثال ہیں۔
اسی طرح ہم نے خطے کے دیگر اہم ممالک جیسے مصر اور اردن کے ساتھ بھی قریبی روابط قائم کیے ہیں۔ ابھی تک ہمارے اور مصر کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، مگر جتنی بار میری ملاقاتیں اور گفتگو مصر کے وزیر خارجہ کے ساتھ ہوئی ہیں، اتنی بار خطے کے کسی اور وزیر خارجہ سے نہیں ہوئیں۔ آج کی ملاقاتوں میں بھی اور گزشتہ مہینوں میں ہونے والے مذاکرات میں بھی یہ بات میرے لیے بالکل واضح ہوگئی ہے کہ خطے کے ممالک اب اسلامی جمہوریہ ایران پر پہلے سے کہیں زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ وہ اپنے اصل دشمن کو پہچان چکے ہیں اور صہیونی حکومت کی جانب سے پورے خطے کے خلاف پھیلائے جانے والے خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان شاء اللہ ہم اسی راستے پر آگے بڑھتے رہیں گے۔
کیا مستقبل قریب میں ایران اور مصر کے تعلقات باضابطہ طور پر اعلی سطح پر فروغ پائیں گے؟
عراقچی: ہم اس وقت دو عام ممالک کی طرح باہمی تعلقات اور تعاون رکھتے ہیں۔ یہ کہ باضابطہ تعلقات قائم ہوں، اس کے لیے ہم جلدی نہیں کر رہے اور انتظار کر رہے ہیں کہ وقت مناسب آئے۔ دونوں ممالک کے سفارت خانے تہران اور قاہرہ میں مکمل طور پر کام کر رہے ہیں، لیکن فی الحال ان کا نام صرف دفتر برائے تحفظ مفادات ہے۔ ان دفاتر کے ذمہ دار افراد تہران اور قاہرہ میں سفیر کے برابر عہدے پر فائز ہیں۔ میں نے کل رات مصر کے وزیر خارجہ کے ساتھ عشائیے میں شرکت کی اور دو گھنٹے سے زیادہ گفتگو کی۔ ہم مستقبل میں بھی اسی راستے پر آگے بڑھیں گے۔ میں نے مصر کے وزیر خارجہ کے ساتھ جتنی بار بات چیت اور ملاقات کی، وہ دیگر خطے کے وزرائے خارجہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ آج کی ملاقاتوں اور گزشتہ مہینوں کی تمام ملاقاتوں سے مجھے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ خطے کے ممالک اپنے اصل دشمن کو پہچان چکے ہیں اور صہیونی حکومت کے پورے خطے کے خلاف خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان شاء اللہ ہم اسی راستے پر آگے بڑھتے رہیں گے۔
بعض اوقات ایران میں ایسے بیانات سامنے آتے ہیں جو بظاہر ایک دوسرے کے متضاد لگتے ہیں، جیسے آبنائے ہرمز کو بند کرنے اپیل۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
عراقچی: یہ بیانات اسلامی جمہوریہ ایران کے رسمی موقف کی نمائندگی نہیں کرتے، بلکہ عام افراد، صحافیوں یا غیر ذمہ دار شخصیات کے خیالات ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ حقیقتاً آزاد ہے اور مختلف آراء سامنے آتی ہیں۔ اگر آپ ہماری سرکاری نشریات دیکھیں تو ہر رات مباحثے کے پروگرام ہوتے ہیں، جہاں دو افراد ایک دوسرے سے بحث کرتے ہیں، مثلاً ایک کہتا ہے آبنائے ہرمز بند کریں، دوسرا کہتا ہے نہیں۔ ہماری سرکاری پالیسی بالکل واضح ہے: ہم خطے میں امن، استحکام اور سکون چاہتے ہیں، خاص طور پر خلیج فارس میں۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے؛ ایران بھی سعودی عرب اور دیگر خطے کے ممالک کی طرح تیل پیدا کرنے اور برآمد کرنے والا ملک ہے۔ ہماری معیشت بڑی حد تک تیل کی برآمدات پر منحصر ہے۔ اس لیے ہمارا مقصد یہ ہے کہ خلیج فارس میں امن اور سکون قائم رہے۔ میں ایک حقیقت آپ کو بتانا چاہوں گا؛ حالیہ 12 روزہ جنگ میں اسرائیل نے خلیج فارس اور عسلویہ میں ہمارے تیل کے مراکز پر حملے کیے اور ہم نے محسوس کیا کہ اسرائیل جنگ کو خلیج فارس تک لے جانا چاہتا ہے، یعنی تیل کی جنگ شروع کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہم نے جواب میں صرف اسرائیلی مراکز پر حملہ کیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ خلیج فارس میں جنگ نہ پھیلے۔ میری رائے میں خلیج فارس کے جنوبی ممالک کو ایران کی پالیسی پر نہیں بلکہ اسرائیل کی پالیسیوں پر تشویش ہونی چاہیے، جو آبنائے ہرمز بند ہونے اور خلیج فارس میں جنگ کے خطرات پیدا کرسکتی ہیں۔
حال ہی میں ایران کے وزیر دفاع نے کہا کہ ایران نے دفاعی صنعت کے بنیادی ڈھانچے کو بعض دیگر ممالک میں قائم کیا ہے۔ کیا آپ اس بیان کی وضاحت کرسکتے ہیں؟
عراقچی: واقعی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں اس سوال کا جواب دوں گا؟ اگر مزید وضاحت کی ضرورت ہوتی تو خود وزیر دفاع اسے بیان کرتے۔
ایران لبنان کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتا، لیکن حزب اللہ کی حمایت اور اس کے ہتھیار حکومت لبنان کو نہ دینے کو مداخلت سمجھا جاتا ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟
عراقچی: ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم لبنان کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی رائے ظاہر نہ کریں۔ تمام ممالک، بشمول سعودی عرب، لبنان کے بارے میں اپنے مؤقف کا اظہار کرتے ہیں، اور یہ مداخلت نہیں ہے۔ مداخلت وہ لوگ کرتے ہیں جو لبنان پر قبضہ کرتے ہیں یا عجیب و غریب منصوبے دے کر لبنان کو کمزور اور تابع بنانا چاہتے ہیں۔ حزب اللہ کے ہتھیار کے فیصلے کا اختیار خود حزب اللہ کے پاس ہے۔ حزب اللہ نے خود تجویز دی ہے کہ لبنان کی سکیورٹی اسٹریٹجی کے لیے تمام گروپوں اور قوموں کے درمیان قومی مذاکرات ہوں اور سب مل کر تفاهم پیدا کریں۔ ہم صرف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ پورا خطہ کمزور، غیر مسلح اور منتشر ہوجائے۔ دیکھیں شام میں کیا ہوا؛ ایک نئی حکومت وجود میں آئی جو بشار الاسد کی حکومت سے مختلف ہے، لیکن اب زیادہ علاقے اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ اسرائیل نے نئی حکومت کی دفاعی صلاحیت کو مکمل طور پر نشانہ بنایا، کوئی مضبوط ہتھیار باقی نہیں رہنے دیا۔ یہی منصوبہ لبنان پر بھی نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ صرف مزاحمتی ہتھیار نے اب تک انہیں روکا ہے۔ حالیہ مہینوں میں مزاحمت نے کچھ نقصانات اٹھائے ہیں، اور وہ سوچتے ہیں کہ یہ کمزور ہوگئی ہے، اس لیے اسے بے ہتھیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ایک مکمل طور پر اسرائیلی منصوبہ ہے۔ میں دوبارہ واضح کرتا ہوں کہ اس معاملے میں فیصلہ حزب اللہ، لبنان کی حکومت اور عوام کا ہے؛ ہم صرف اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ خطے کے دیگر ممالک بھی حقیقت کو سمجھیں۔ انہیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ شام اور لبنان کے بعد باری دیگر خطے کے ممالک کی ہے۔ انہوں نے ایران تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن ایران نے مزاحمت کی اور وہ پچھتائے۔ ایران نے کس طرح مزاحمت کی؟ ڈپلومیسی یا امریکا کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے؟ نہیں، بلکہ اپنے میزائلوں کے ذریعے۔ جو چیز اسرائیل کے حملے کو روک سکتی ہے وہ طاقت ہے، نرمی یا رعایت نہیں۔ ہم واقعی خطے کے ممالک کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو کسی طرح کا موقع دینے کی کوشش نہ کریں؛ جتنا زیادہ امتیاز دیں گے، اسرائیل اپنا حملہ اتنا ہی زیادہ کرے گا۔ جیسا کہ آج نتن یاہو کے بیانات میں ظاہر ہے، وہ دراصل سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک کے نصف علاقوں پر نظریں رکھے ہوئے ہیں۔
کیا ایران اور سعودی عرب کے درمیان لبنان کے حوالے سے مشترکہ تعاون کا امکان موجود ہے؟
عراقچی: میں اس معاملے میں کوئی رکاوٹ نہیں دیکھتا۔ کوئی بھی رکاوٹ موجود نہیں اور ہم تعاون کے لیے تیار ہیں۔ آج میں نے اپنے بھائی فیصل بن فرحان کے ساتھ لبنان کے موضوع پر بہت اچھی گفتگو کی، اختلافات ضرور ہیں لیکن ہم نے بہت منطقی اور پر سکون انداز میں بات کی۔ ہم تیار ہیں کہ باہمی تعامل اور بات چیت جاری رکھیں تاکہ لبنان کے مسئلے کے حل میں مدد کے لیے مشترکہ نقطہ نظر پر پہنچ سکیں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ سعودی حکومت بھی لبنان کے عوام کی مدد کرنا چاہتی ہے، اور ہم بھی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا طریقہ کار مختلف ہے، لیکن امید ہے کہ ہم کسی مشترکہ رائے پر پہنچیں گے۔
شام کے بارے میں؟ کیا ایران اسرائیل کے بار بار حملوں اور شام کے ٹکڑوں میں تقسیم کو مسترد کرتا ہے؟
عراقچی: ہم ہمیشہ اس کو مسترد کرتے آئے ہیں اور اسے اسرائیل کو ضرورت سے زیادہ موقع دینے کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ ہمارا موقف شام کے حوالے سے واضح ہے کہ ہم شام کی سرزمین کی سالمیت، حاکمیت اور سرحدوں کے تحفظ کے خواہاں ہیں، اور ہم شام کی تقسیم کے مخالف ہیں۔ ہمارا مقصد شام میں استحکام اور امن قائم رکھنا ہے۔ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اگر شام میں امن اور استحکام نہ ہو تو یہ دہشت گرد گروہوں کا مرکز بن سکتا ہے، جو خطے کے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔ ابھی تک ہم نے نئی شام کی حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا اور ہمیں کوئی جلدی بھی نہیں۔ جب نئی شام کی حکومت یہ سمجھ لے گی کہ ایران کے ساتھ تعلقات اس کے اور شامی عوام کے فائدے میں ہیں، تو ہم اس پر ضرور غور کریں گے۔
آپ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
عراقچی: سعودی عرب خطے اور عالم اسلام کا ایک بڑا ملک ہے، اور ایران بھی اسی طرح ایک بڑا ملک ہے۔ ہم اس خطے میں ایک ساتھ رہ چکے ہیں، رہ رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ خطے میں استحکام دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ میری رائے میں یہ امن اور استحکام صرف ایران اور سعودی عرب کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ ایران اور سعودی عرب خطے کے دو اہم ارکان ہیں۔ ہمارے درمیان اختلافات اور مقابلہ ضرور ہے، لیکن دشمنی نہیں ہونی چاہیے۔ سعودی عوام ہمارے دینی بھائی ہیں، جس طرح ایرانی بھی آپ کے بھائی ہیں۔ آپ حرمین شریفین اور زائرین کے میزبان ہیں۔ اس وقت سالانہ 80 ہزار سے زیادہ ایرانی حج تمتع ادا کرتے ہیں اور سب خوشی خوشی واپس آتے ہیں۔ حج عمرہ بھی حال ہی میں شروع ہوا ہے اور توقع ہے کہ اس سال 4 لاکھ ایرانی عمرہ ادا کریں گے۔ دونوں ممالک اسلام اور مسلمانوں کے مفاد و حفاظت کے حوالے سے حساس ہیں اور عالم اسلام کے مسائل کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے درمیان تعاون نہ صرف دو طرفہ بلکہ خطے اور عالم اسلام کے لیے بھی اہم ہے۔ خوش قسمتی سے حالیہ سالوں تعلقات میں نئے افق کھلے ہیں۔ اقتصادی تعلقات ابھی پوری طرح کھلے نہیں اور اس کے لیے مزید منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح ایرانی حج کے لیے سعودی عرب آتے ہیں، اسی طرح سعودی لوگ بھی ایران میں سیاحت کے لیے آئیں گے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ ایران میں قدرتی، ثقافتی اور تاریخی کشش انہیں کھینچ لائے گی اور وہ اچھا وقت گزاریں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں ایران کا اصل منظر ملے گا۔ خطے اور دنیا کے کئی لوگ ایران کو مغربی میڈیا کے زاویے سے دیکھتے ہیں، اور جب وہ پہلی بار ایران آتے ہیں، تو ان کی ذہنی تصویر بدل جاتی ہے۔
ایران پر حملوں کے بعد ممالک کے مؤقف کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
عراقچی: سعودی عرب کا مؤقف، اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی مذمت اور ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی اور حمایت کے حوالے سے، بہت مضبوط اور مثبت تھا۔ اسی طرح خلیج فارس تعاون کونسل کے دیگر ممالک نے بھی ایسا ہی موقف اختیار کیا، جو ہمارے لیے بہت اہم تھا۔
اقتصادی تعاون کے کس شعبے میں ترقی کی جاسکتی ہے اور کیا ایران سعودی عرب کے وژن 2030 سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
عراقچی: میرا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات شروع ہونے چاہئیں۔ بہت سے وہ سامان جو سعودی عرب دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے، وہ آسانی سے ایران سے حاصل کیا جاسکتا ہے، اور ہماری کئی ضروریات بھی سعودی عرب کے ذریعے دستیاب ہیں۔ ہم ایک خطے کے ایک ملک کے ساتھ 30 ارب ڈالر سے زیادہ تجارتی تبادلہ کرتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ حتی کہ پابندیوں کے دوران بھی وسیع تجارتی تبادلے ممکن ہیں۔ ایران میں خاص طور پر تیل و گیس کے شعبے میں سعودی سرمایہ کاروں کے لیے بہترین مواقع ہیں۔ ایران کے راستے وسطی ایشیا، قفقاز، چابہار اور بحر ہند کے ذریعے بھارت تک نقل و حمل کے لیے بہترین ہیں۔
آخر میں، ایک جملے میں، کیا آپ خطے کے مستقبل کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں؟
عراقچی: سفارتکار ہمیشہ مثبت فکر والے ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر خطے کے ممالک، خاص طور پر ایران اور سعودی عرب، تعاون کریں، تو ہم ایک خطہ قائم کریں گے جو استحکام، امن، ترقی اور پیشرفت سے بھرپور ہوگا۔ ان شاء اللہ میں ایران کی سفارتکاری کو اسی سمت لے جاؤں گا۔
آپ کا تبصرہ