مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گزشتہ روز امریکہ کی جانب سے ایران کی پرامن جوہری اور یورینیم افزودگی کی تنصیبات پر حملے کے بعد، دنیا کی سب سے اہم سمندری گزرگاہ یعنی آبنائے ہرمز کو بند کرنا ایران کے پاس موجود ممکنہ جوابی اقدامات میں سے ایک ہے۔
ماہرین کے مطابق عالمی منڈی میں تقریباً 20 فیصد تیل اسی راستے سے گزرتا ہے۔ لہٰذا اس بین الاقوامی گزرگاہ کو بند کرنے کے اثرات اور خلیج فارس کے کنارے واقع ممالک کے لیے پیدا ہونے والے مسائل کے پیشِ نظر ایران کو اس اقدام سے روکنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
اگرچہ اس طرح کے اقدام سے بین الاقوامی سطح پر کچھ ردِعمل سامنے آ سکتے ہیں، لیکن بعض تخلیقی تدابیر اختیار کر کے ایسا ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ صرف مخالف ممالک ہی اس کے اثرات کا شکار ہوں۔
آبنائے باب المندب میں یمنی ماڈل
یمنیوں نے غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی غرض سے کافی عرصے سے باب المندب کی آبی گزرگاہ بند کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ جب تک اسرائیل کے حملے غزہ پر جاری رہیں، وہ اس پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔
اس حوالے سے قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ یمنی حکام نے باب المندب کو بند کرنے کا اعلان کیا، تاہم ابتدائی مرحلے میں صرف اُن جہازوں کو گزرنے سے روکا گیا جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی جانب جا رہے تھے۔
دوسرے الفاظ میں، تمام دیگر جہازوں کی آمد و رفت جاری رہی، البتہ صرف اُن جہازوں کو روکا گیا جن کا رُخ اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف تھا۔ بعد میں، جب امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کی حمایت میں یمن پر حملے کیے، تو یمنیوں نے ان دو ملکوں کے جہازوں پر بھی پابندی عائد کر دی۔
اس دوران یمنیوں نے ایک اور حکمت عملی بھی اپنائی: پہلے وہ یہ جانچتے کہ کسی جہاز کی مالک کمپنی کا اسرائیل سے کوئی تعلق ہے یا نہیں، اور اگر ہوتا تو اس پر حملہ کیا جاتا۔ دوسری صورت میں وہ جہاز کے عملے کے اس بیان پر اکتفا کرتے کہ ان کا رخ مقبوضہ علاقوں کی طرف نہیں ہے۔ اگر بعد میں معلوم ہوتا کہ جہاز نے دھوکہ دیا اور اپنا راستہ بدل کر مقبوضہ علاقوں کی طرف گیا، تو یمنی فورسز یا تو اسی جہاز کو آئندہ عبور کے وقت نشانہ بناتیں یا اس کمپنی کے کسی دوسرے جہاز کو نشانہ بنایا جاتا۔
یہ حکمت عملی اس قدر مؤثر رہی کہ اسرائیلی بندرگاہیں تقریباً بندش کے دہانے پر پہنچ گئیں اور اسرائیلی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔ برطانیہ، امریکہ اور خود اسرائیل کی جانب سے کیے گئے حملے بھی اس آبی ناکہ بندی کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔
آبنائے ہرمز میں یمنی ماڈل کو کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے؟
آبنائے ہرمز کے حوالے سے بھی وہی حکمت عملی اپنائی جاسکتی ہے جو انصار اللہ یمن نے اختیار کی۔ یعنی ایران اپنی فوجی تنصیبات کے ذریعے بعض مخصوص ممالک کی کشتیوں کی آمد و رفت کو ممنوع یا محدود کرسکتا ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ خلیج فارس میں موجود وہ بہت سی تنصیبات، جن سے امریکہ یا دیگر ممالک ایران کو دھمکیاں دیتے ہیں، انہی کے رسد کا راستہ آبنائے ہرمز ہی ہے۔
آبنائے ہرمز کی بندش کے مخالفین کا ماننا ہے کہ اس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور صرف دشمن ممالک ہی نہیں، بلکہ ایران کے دوست ممالک بھی اس کے منفی اثرات کا شکار ہوں گے۔ تاہم ایران اگر صرف مخصوص ممالک جیسے اسرائیل، امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ممکنہ طور پر ارجنٹینا کے جہازوں پر پابندی عائد کرے، تو نہ صرف یہ کہ تیل بردار جہازوں کی عالمی مارکیٹ تک رسائی برقرار رکھی جاسکتی ہے، بلکہ دوست اور غیر جانبدار ممالک پر بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر یہ مخصوص پابندیاں عائد کی جائیں تو صرف دشمن ممالک کی معیشت کو شدید دھچکا پہنچے گا اور ان کی مالیاتی مارکیٹیں بھی بری طرح متاثر ہوں گی۔
اس اقدام سے نہ صرف خلیج فارس کے ممالک معمول کے مطابق اپنی نقل و حرکت جاری رکھ سکیں گے، بلکہ چین جیسے دوست یا غیر جانبدار ممالک کے لیے بھی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس، دشمن ممالک کے لیے تیل کی ترسیل اور خریداری کی لاگت بہت بڑھ جائے گی، حتی کہ ان کے جہازوں کی انشورنس تک کئی گنا مہنگی ہوجائے گی۔
15:51 - 2025/06/23
آپ کا تبصرہ