مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اقوام متحدہ نے اپنی تشکیل سے لے کر اب تک 2024 جیسا بدترین سال دیکھا ہوگا۔ اگر ہم ان بڑی تباہیوں کا ذکر کریں جو سال 2024 میں دنیا میں رونما ہوئیں اور جنہیں اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ حل کرنے میں ناکام رہا تو غزہ کی پٹی میں ہونے والی نسل کشی ہے۔
نسل کشی کا یہ سلسلہ قابض صہیونی حکومت نے اکتوبر 2023 میں شروع کیا تھا؛ سال 2025 میں داخل ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوا ہے۔ اس نے عالمی برادری، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق کے اصولوں اور تمام انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے ایک امتحان میں ڈال دیا ہے۔ بے دفاع فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ میں عالمی عالمی مکمل ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور اس سے منسلک تمام ادارے فلسطینی شہریوں کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے، حالانکہ کئی قراردادیں، بیانات، اور رپورٹس جاری کی گئیں جن میں صہیونیوں کی غزہ کے خلاف وحشیانہ جنگ کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
2024 انسانی بحرانوں کا سال
غزہ کے علاوہ سال 2024 دنیا کے مختلف ممالک میں بڑے بحرانوں اور تباہ کن تبدیلیوں کا گواہ رہا جن میں لبنان، شام، سوڈان، لیبیا، نائیجر، میانمار، افغانستان، ہیٹی، صومالیہ، کانگو، اور کچھ دیگر افریقی ممالک شامل ہیں۔
ان بحرانوں کی شدت کو سمجھنے کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر کی 11 دسمبر کو جاری کردہ اپیل پر نظر ڈالنا کافی ہے، جس میں 2025 کے لیے 33 ممالک کے 190 ملین افراد کی مدد کے لیے 47 ارب ڈالر کی امداد کی درخواست کی گئی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دنیا بھر میں 3 کروڑ سے زائد افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
سوڈان میں انسانی بحران
عبوری فوجی کونسل کے سربراہ عبدالفتاح البرہان اور کوئیک رپسپانس فورسز کے رہنما حمیدتی کے درمیان لڑی جانے والی جنگ نے سوڈان میں انسانی بحران کو شدید حد تک بڑھا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امداد کے مطابق سوڈان کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا صرف 1 فیصد ہے، لیکن یہ دنیا کی کل انسانی امداد کے 10 فیصد حصے کی ضرورت مند ہے۔
انسانی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قحط سوڈان کے وسیع حصوں میں پھیل سکتا ہے اور مزید لوگ پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ سوڈانی بچے بیماریوں اور شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ خواتین اور لڑکیاں کو درپیش مشکلات اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تقریبا 18 ملین افراد شدید بھوک سے دوچار ہیں۔ تقریبا 4 ملین بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سوڈان کے بحران سے نمٹنے کے لیے ضروری بجٹ دستیاب نہیں ہے۔ 15 اپریل کو پیرس میں منعقدہ بین الاقوامی انسانی امدادی کانفرنس میں سوڈان کے لیے 3 ارب ڈالر امداد کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اب تک صرف 16 فیصد فراہم کیا جا سکا ہے۔ سوڈان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے امداد دینے والے ممالک سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو فوری طور پر پورا کریں تاکہ قحط اور انسانی المیے کو کم کیا جا سکے۔
روس-یوکرین جنگ
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ 1030 دن سے زیادہ عرصے سے جاری ہے، جس نے لاکھوں یوکرینی باشندوں کے لیے موت، تباہی، اور مایوسی کا پیغام لایا ہے۔ یہ لوگ یا تو ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں یا اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو چکے ہیں۔ روسی سرحدوں کے قریب بھی عوام کو ڈرون حملوں اور دھماکوں کا سامنا ہے۔ یوکرین کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں لڑائی سب سے زیادہ شدید ہے جہاں پورے کے پورے شہر اور گاؤں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ نومبر میں روس نے یوکرین کے توانائی کے ڈھانچے پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا جس نے یوکرین کو شدید نقصان پہنچایا۔
حالیہ تبدیلیوں کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ اپنی صدارتی مدت ختم ہونے سے پہلے وہ یوکرینی فوج کو امریکی اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت دیں گے تاکہ وہ روس کے اندر طویل فاصلے کے اہداف کو نشانہ بنا سکیں۔ یہ اقدام روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے غصے کا باعث بنا جنہوں نے خبردار کیا کہ روس اپنی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی حکمت عملی پر نظرثانی کرے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جنگ کے دوران یورپ کے سب سے بڑے ایٹمی پاور پلانٹ اور دیگر حساس مقامات کے قریب فوجی سرگرمیوں کے باعث حقیقی جوہری حادثات کے خطرے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے لیے بھی سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی، غزہ میں عصر حاضر کا سب سے بڑا انسانی المیہ
سال 2024 کے آغاز سے 85 دن قبل صہیونی حکومت نے غزہ کے خلاف نسل کشی پر مبنی جنگ کا آغاز کیا جس میں فلسطینیوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا جارہا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اس جنگ میں صہیونی حکومت نے امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت کے ساتھ اپنے دفاع کے جھوٹے دعوے کے تحت غزہ کے سویلین تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ ان میں یونیورسٹیاں، اسکول، پناہ گاہیں، سڑکیں، کلینک، اسپتال، اور یہاں تک کہ نانبائیوں جیسے بنیادی ڈھانچے شامل ہیں۔ قابض صہیونی حکومت جان بوجھ کر غزہ میں زندگی کے تمام آثار کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے اور علاقے کو سخت محاصرے میں لے رکھا ہے۔
محاصرے کے نتیجے میں غزہ کے لوگ شدید بھوک اور قحط کا سامنا کر رہے ہیں اور سردیوں کی آمد کے ساتھ نومولود بچوں کے سردی سے جم جانے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں جو غزہ کے باسیوں کے لیے مزید اذیت ناک ہیں۔ 15 دسمبر کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ کی صورتحال کو انتہائی تباہ کن قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حملے 400 دنوں سے جاری ہیں جس نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے اور بڑی تعداد میں شہریوں، خصوصاً خواتین اور بچوں کو شہید کیا ہے۔ میں نے کبھی ایسے جرائم نہیں دیکھے۔ فلسطینی عوام پر یہ مظالم کسی بھی طور جائز قرار نہیں دیے جاسکتے ہیں۔
صہیونی فورسز کی جانب سے غزہ کے مکمل محاصرے کے بعد فلسطینیوں کے لئے غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ عالمی خوراک پروگرام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینڈی میکین نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگ غذائی سامان سے بھرے ٹرکوں کے قریب ہونے کے باوجود بھوک سے مر رہے ہیں۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس علاقے کے بے شمار لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑرہی ہے۔ اگر امداد کو غزہ کے تمام علاقوں تک پہنچنے دیا جائے تو قحط کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی اس بحران کو مزید بڑھارہی ہے۔
13 دسمبر کو عالمی خوراک پروگرام کے ایمرجنسی کمیونیکیشن آفیسر جوناتان دومنٹ نے غزہ کی موجودہ صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے فلسطینی خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سردیوں کے قریب آتے ہی بارش اور تیز ہوائیں خیمے پانی سے بھر دیتی ہیں۔ یہاں کے بیشتر بچے جوتوں کے بغیر ہیں اور کئی لوگ اپنے گھروں میں واپس جارہے ہیں حالانکہ وہ گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی 10 دسمبر کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں صہیونی حکومت کے حملوں کی وجہ سے اب تک 44,786 نہتے شہری شہید اور 106,188 سے زائد زخمی ہوئے ہیں جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ متعدد افراد اب بھی لاپتہ ہیں جن کے درست اعداد و شمار کسی کے پاس نہیں۔ غزہ دنیا میں سب سے زیادہ یتیم اور معذور بچوں کا شہر بن چکا ہے۔ 95 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور کئی بار نقل مکانی کرچکی ہے۔ 200 سے زیادہ صحافی اور تقریبا 260 امدادی کارکن صہیونی فورسز کے حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔
امریکہ مسلسل اسرائیلی جرائم کی حمایت کر رہا ہے۔ ہر بار جب غزہ میں جنگ بندی کی کوشش کی گئی، امریکہ نے اسے ناکام بنایا اور کئی بار اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کردیا۔ یہ حالات غزہ میں انسانی بحران کی شدت اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کو ظاہر کرتے ہیں۔ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی پامالی عالمی رہنماؤں کی بے عملی کا نتیجہ ہے۔
صیہونی حملوں کے سائے میں لبنان میں انسانی بحران
8 اکتوبر 2023 کو حزب اللہ نے فلسطینی عوام اور غزہ کی مزاحمت کی حمایت میں طوفان الاقصی جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ اسی دن سے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو لبنان میں جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے کی کوشش میں تھے لیکن ابتدا میں امریکہ نے اسے روک دیا۔ صیہونی حکومت نے لبنان میں کشیدگی بڑھانے کی کوشش جاری رکھی، تاکہ وہ امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ پر مجبور کر سکے۔ جب امریکہ نے تل ابیب کی اس خواہش کو مسترد کیا تو اسرائیل نے ایران کے خلاف اشتعال انگیزی کا آغاز کیا۔
1 اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کرکے سات ایرانی پاسداران کو شہید کیا گیا۔ 14 اپریل کو ایران نے "وعدہ صادق 1" آپریشن کے تحت پہلی بار براہ راست اسرائیلی اہداف پر حملہ کیا جس میں مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں کو ڈرونز اور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔
صہیونی حکومت کی اشتعال انگیزی جاری رہی اور 31 جولائی کو اسرائیل نے حزب اللہ کے کمانڈر شہید فواد شکر کے بعد تہران میں حماس کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا۔ ایران نے اس کے جواب میں "وعدہ صادق 2" آپریشن کیا جس میں تل ابیب کے فوجی اڈوں اور حساس مراکز پر سینکڑوں میزائل اور ڈرونز داغے گئے۔ یہ حملہ تاریخ میں اسرائیل کے خلاف سب سے بڑا حملہ قرار دیا گیا۔
17 ستمبر کو صیہونی حکومت نے لبنان میں "پیجرز دھماکوں" کے نام سے دہشت گردی کی بڑی کارروائی کی، جس میں ہزاروں افراد زخمی اور شہید ہوئے۔ صیہونی جارحیت کے نتیجے میں لبنان میں ہزاروں افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے اور بنیادی انفراسٹرکچر شدید متاثر ہوا۔ لبنانی معیشت مزید تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔
لبنان میں صیہونی جارحیت اور انسانی بحران کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی اور امریکہ کی حمایت نے اس خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔ لبنانی عوام اب انسانی ہمدردی کے اقدامات اور عالمی برادری کی سنجیدہ مداخلت کے منتظر ہیں۔
27 ستمبر کو صیہونی فوج نے بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ پر بینکر شکن بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ تنظیم کے متعدد رہنماؤں اور ایرانی پاسداران انقلاب کے سینئر مشیر جنرل عباس نیلفروشان سمیت شہید ہو گئے۔ چند ہفتے بعد حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے صدر سید ہاشم صفی الدین بھی شہید ہو گئے۔
ان واقعات کے بعد لبنان اور صیہونی حکومت کے درمیان شدید جنگ چھڑ گئی۔ اسرائیلی افواج نے امریکی بموں کی مدد سے بیروت کے جنوبی علاقے اور جنوبی لبنان کو وسیع پیمانے پر تباہ کر دیا۔ صیہونی حملوں میں 4000 سے زائد افراد شہید اور 17000 سے زائد زخمی ہوئے۔ بنیادی انفراسٹرکچر کی تباہی اور عوامی نقل مکانی نے لبنان میں انسانی بحران کو مزید گہرا کر دیا۔
27 نومبر کو مذاکرات کے بعد لبنان اور صیہونی حکومت کے درمیان 2006 کے اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کے تحت جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ تاہم صیہونی حکومت نے اس معاہدے کی بارہا خلاف ورزی کی اور جنوبی لبنان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی کوشش کی حالانکہ معاہدے میں 60 دن کے اندر انخلا کی شرط رکھی گئی تھی۔ حزب اللہ کی جانب سے اس اقدام کے خلاف سخت ردعمل کا امکان ہے۔
شام پر تکفیری دہشت گردوں کا قبضہ
2024 کے آخر میں دنیا اس وقت حیران رہ گئی جب شام میں تکفیری دہشت گردوں نے کسی مزاحمت کے بغیر دمشق پر قبضہ کرلیا۔ امریکہ اور ترکی سمیت علاقائی اتحادیوں نے بشار الاسد مخالف گروہوں کی حمایت کی تاہم اتنی سریع پیشرفت کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ دمشق سقوط کرنے کے بعد بشار الاسد نے روس میں سیاسی پناہ لے لی۔
تحریر الشام کے سرغنہ ابو محمد الجولانی نے اپنے تیور بدلتے ہوئے پہلے پینٹ کوٹ پہن لی اور اس کے بعد ٹائی پہن کر دنیا کے سامنے آکر اپنا معتدل چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی تاہم شام کے مختلف شہروں میں تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے سیاسی اور مذہبی مخالفین کے خلاف پرتشدد کاروائیاں جاری ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں پرتشدد مناظر پر مشتمل ویڈیوز اور تصاویر شائع ہورہی ہیں۔ ان مناظر کے سامنے آنے کے بعد مشرق وسطی کے ممالک میں تشویش پھیل رہی ہے کہ شدت پسندی کی دوسری لہر شروع ہوسکتی ہے۔
دمشق پر تکفیری دہشت گردوں کے قبضے کے بعد صہیونی حکومت نے شام کے وسیع رقبے پر قبضہ کیا ہے۔ تحریر الشام ملک کا دفاع کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ الجولانی نے واضح کیا ہے کہ شام کو اسرائیل کے خلاف استعمال کرنے نہیں دیا جائے گا۔ تکفیری رہنما کا بیان واضح ثبوت ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف شورش کو صہیونی حکومت کی مکمل حمایت حاصل تھی اور تحریر الشام اور صہیونی حکومت کے درمیان پس پردہ روابط تھے۔
ٹرمپ کی واپسی اور اقوام متحدہ کی ساکھ کو لاحق خطرات
2024 کے اختتام پر اقوام متحدہ کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں آچکے ہیں۔ ٹرمپ نے پہلے ہی ظاہر کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین اور اداروں کا احترام نہیں کرتے۔ توقع ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں، جیسے آنروا، بین الاقوامی فوجداری عدالت، اور انسانی حقوق کونسل کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔
اگرچہ 2024 کو اقوام متحدہ کے لیے بدترین سال قرار دیا جارہا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ صرف اسرائیل کے مفادات پر توجہ دے گا جس سے اقوام متحدہ کی حیثیت اور عالمی امن کی کوششیں مزید کمزور ہوسکتی ہیں۔
آپ کا تبصرہ