مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، حلیمہ میلائی: گذشتہ دس سالوں میں عراقی کردستان کے اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے نیچروان بارزانی کا ایران کا یہ چوتھا دورہ ہے۔ یہ دورہ انتہائی اہم اور حساس حالات میں انجام پارہا ہے جس کا زیادہ تر مقصد کردستان ریجن اور ایران کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا ہے، خاص طور پر گزشتہ سال تہران اور اربیل کے درمیان آنے والے سیاسی اور عسکری نشیب و فراز کے بعد، یہ دورہ سفارتی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
نیچروان بارزانی، عراقی کردوں کا ایک ڈپلومیٹک مگر اعتدال پسند چہرہ، جسے عراق، خطے اور دنیا کے تمام سیاسی حالات میں ایک خاص قبولیت حاصل ہے۔
وہ اپنے آخری دورہ تہران کے تین سال بعد، کردستان کے سربراہ کی حیثیت سے ایران کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات کو وسعت دینے کی اربیل کی خواہش کا واضح پیغام لے کر تہران آئے ہیں۔
گزشتہ سال کے واقعات اور اربیل میں موساد کے خفیہ ہیڈکوارٹر پر ایران کے میزائل حملے کے بعد تہران اور اربیل کے درمیان گہرے تعلقات میں تناؤ کے بعد، یہ دورہ اس اہم نکتے کو واضح کرتا ہے کہ ایران، عراق اور کردستان پڑوسی، دوست اور اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔
کردستان کے سربراہ کا اعلی سطحی وفد کے ساتھ ایران کا دورہ کئی پہلوؤں سے قابل توجہ ہے جس کا اس مختصر مضمون میں جائزہ لیا گیا ہے۔
ایران عراق سیکورٹی معاہدے پر عمل درآمد اور اس عملی نفاذ کا جائزہ
ایران اور عراق کے درمیان سیکورٹی معاہدے کے نفاذ کے اور اس پر عمل درآمد کے لیے اربیل کی کوششوں کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کرنا کہ جس میں ایران اور کردستان کی مشترکہ سرحدوں سے ایران مخالف گروہوں کے انخلاء اور ان کو غیر مسلح کرنا شامل ہے، یہ موضوع بارزانی کے دورہ تہران کا نہایت اہم بلکہ مرکزی ایجنڈا ہے۔
ایران پر بارزانی کا اعتماد
اگرچہ کردستان کا ایران کے خلاف سرگرم خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ کبھی بھی معمول کا رسمی تعلق نہیں رہا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ نے بعض اوقات کردستان کے حکام کو ایران کی سرحدوں کے قریب دشمن ممالک کی سیکورٹی سروسز کی خفیہ موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے شکوہ کیا ہے۔ جس کے جواب میں کردستان کے حکام نے ہمیشہ اعلان کیا ہے؛ وہ کبھی بھی عراق کے شمال کو اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے خطرہ نہیں بننے دیں گے۔
اس دورے میں کردستان اور ایران کے درمیان اقتصادی اور تجارتی امکانات کے ساتھ ساتھ سیکورٹی، فوجی اور سیاسی شراکت داری کا جائزہ لیا جائے گا۔
ایران اور شمالی عراق کے درمیان اہم اقتصادی تعلقات
ایران اور کردستان کی مشترکہ سرحد صرف کردستان والی سائیڈ سے 230 کلومیٹر ہے۔ جب کہ کرمانشاہ اور مغربی آذربائیجان اس کے علاوہ۔ عراق اور کردستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی لین دین سےکا بڑھتا ہوا حجم، خاص طور پر بشماق سرحد فریقین کو اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو خصوصی اہمیت دینے کا سبب بنا ہے۔ سلیمانیہ میں ایرانی قونصل نے کہا کہ گزشتہ سال کی کشیدگی سے قبل ایران اور کردستان کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 2.5 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا، اگلے سال اس میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
ثقافتی اور سماجی تعامل
ہمہ جہت ثقافتی اور سماجی تعلقات کی ترقی اور سرحدی سفارت کاری کی مضبوطی ایک اور اہم عنصر ہے جو ایران اور کردستان کے درمیان اچھے تعلقات میں نہایت موئثر ہے اور فریقین اس کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران اور عراقی کردستان کے درمیان ثقافتی تعلقات کی مضبوطی ایران اور عراق کی دو دوست قوموں کے دشمنوں کے لیے کبھی خوشگوار نہیں رہے اور امریکہ اور اسرائیل سمیت دشمنوں کی کوشش ہے کہ میڈیا پروپیگنڈوں کے ذریعے ایران اور عراق، تہران اور اربیل کے تعلقات کو مخدوش بنا دیا جائے۔ ایک خطرناک اور شیطانی پالیسی تھی جسے اسلامی جمہوریہ کی حکمت عملی اور عراق اور کردستان کے حکام کی کوششوں نے غیر موئثر بنا دیا۔
اربیل کے لئے تہران کی حمایت
اس حقیقت کے باوجود کہ اسلامی جمہوریہ ایران پورے خطے اور عراق میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، لیکن اس نے کبھی بھی ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ جیسا کہ یہ بات اسلامی ایران کے تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ وہ عراق اور دیگر ممالک میں اپنے دوستوں کی مدد کو آیا ہے۔ مثال کے طور پر عراقی ڈکٹیٹر صدام کے ساتھ جنگ اور کردستان کے قیام کی کوششوں میں اس نے کردوں کی زبردست مدد کی اور داعش کے ساتھ جنگ میں بھی ایران نے بھرپور مدد کی۔
اسی طرح کردستان نے جب بھی اپنے سیاسی بحرانوں کے حل کے لئے ایران سے مدد مانگی ہے، تہران نے بھرپور طریقے سے کردار ادا کیا ہے۔
مثال کے طور پر متحارب جماعتوں اور عراقی شیعہ اور سنی سیاسی دھاروں کے درمیان تناؤ کو حل کرنے کے لئے اربیل کی مدد کی۔
اربیل اور بغداد کے درمیان تیل کی برآمدات، بجٹ اور کردستان کے پارلیمانی انتخابات کے التوا کے معاملے پر اختلافات جیسے چیلینجز بارزانی کے اس دورے کے اہم ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
آپ کا تبصرہ