مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران میں ایرانی مسلح افواج کے پیریڈ سے خطاب کرتے ہوئے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ 22 ستمبر 1980 کو ایران پر 8 سالہ کنگ مسلط کی گئی۔ دفاع مقدس کے دوران ایرانی عظیم قوم نے جرائت، بہادری اور قربانی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ ہفتہ دفاع مقدس ایرانی مسلح افواج کی بہادری اور قربانی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
صدر رئیسی نے دفاعی شعبے میں ایران کی ترقی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایرانی افواج نے پابندیوں کو ترقی اور پیشرفت کے لئے فرصت میں بدل دیا ہے۔ دشمن اس خام خیالی میں تھے کہ پابندیاں ایران کو دفاعی طور پر ترقی سے روکیں گی لیکن حقیقت میں ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کا دفاع مزید مضبوط ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا ایران کی فوجی تربیت اور سازو سامان میں ترقی کو تسلیم کرتی ہے اور ہم دفاعی مصنوعات برامد کرتے ہیں۔ ایران نے اتنی طاقت حاصل کرلی ہے کہ دشمن اس کی مسلح افواج کا مقابلہ کرنے یا ایران پر حملے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کا ارادہ نہیں رکھتا اور اس کی فوجی طاقت کا ہدف صرف اپنا دفاع کرنا ہے۔ ایران کے ملٹری ڈاکٹرائن میں جنگ اور جارحیت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے لیکن اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے دفاعی صلاحیت میں اضافے کی پالیسی ضروری ہے۔
انہوں نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی پالیسی کے بارے میں کہا کہ ایران نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دفاع، تجارت اور ٹیکنالوجی میں تعاون کے معاہدے کئے ہیں۔
صدر رئیسی نے تاکید کی کہ علاقائی ممالک کو خطے مخصوصا خلیج فارس سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے لیے مل کر کام کرنا چاہئے۔ خطے میں غیر ملکی افواج کی موجودگی مشکلات کا حل نہیں بلکہ اس میں اضافے کا باعث ہے۔
انہوں نے عراق کی جانب سے ایران سے متصل سرحدی علاقوں سے دہشت گرد عناصر کے انخلاء کا خیر مقدم کیا۔ ایران اپنی سرحد کے نزدیک دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو بدامنی پھیلانے کی اجازت نہیں کرے گا۔ ایران سرحدی علاقوں سے ان عناصر کے انخلاء کے بارے میں تحقیقات کرنے کے لئے ماہرین کی ٹیم بھیجے گا تاکہ مارچ میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد پر یقین ہوجائے۔
انہوں نے خطے کے بعض ممالک اور صہیونی حکومت کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کے بارے میں کہا کہ مسلم دنیا اسرائیل سے نفرت کرتی ہے لہذا کوئی بھی عرب ملک صہیونی حکومت کے ساتھ حقیقی معنوں میں تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ ان ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے اسرائیل کو محفوظ ٹھکانہ میسر نہیں ہوگا کیونکہ خطے کے عوام دل سے اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال کر صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کی ہم مذمت کرتے ہیں اور فلسطینی عوام صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والی حکومتوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ مسئلہ فلسطین عقب نشینی اختیار کرنے سے حل نہیں ہوگا۔
صدر رئیسی نے ایرانی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل یہاں کے حقیقی باشندوں کے درمیان ریفرنڈم میں پنہاں ہے۔
آپ کا تبصرہ