مہر خبر رساں ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک: چند روز قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے شام کے معاملے پر تبادلہ خیال کے لئے ایران کا دورہ کیا جس میں انہوں نے مذکورہ مقصد کے لئے ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی جبکہ یہ دورہ امریکی صدر جو بایڈن کا دورہ مشرق وسطی ختم ہونے کے بعد انجام پایا۔ یہ ایسے حالات میں ہے کہ جب ایران اور ترکی کے مابین مختلف معاملات من جملہ شام، شمالی عراق، آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تجارتی راہداری اور مذکورہ معاملات میں تہران کے مفادات کے بارے میں اختلافات پہلے کی طرح جاری ہیں۔
ایرانی صدر کی اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات دو طرفہ تعلقات کے استحکام اور تجارتی رابطوں کے فروغ سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری معاہدے طے پانے کا سبب بنی۔
اس سلسلے میں مہر خبر رساں ایجنسی نے سیاسی امور کی ماہر اور محقق ہدی رزق کے ساتھ ایک انٹرویو ترتیب دیا جو ذیل میں پیش کیا جارہا ہے؛
عرب دنیا کی اس سیاسی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ترکی کے بعض عرب ملکوں سے نزدیک ہونے کی پرچھائیوں میں خطے کی بدلتی صورتحال شام کے مسئلے کے متعلق باہمی عمل کے طریقہ کار میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تہران کے اجلاس میں روس اور یوکرین کی جنگ کا معاملہ روس، ترکی اور ایران کے لئے ایک اہم مسئلہ تھا۔ خاص طور پر جب خطے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور یہی بات سبب بنتی ہے کہ آستانہ سمٹ میں شرکت کرنے والے ممالک شام کے سیکورٹی مسائل، ملکی سالمیت اور اس کے استحکام کی کوئی راہ تلاش کریں، کیونکہ ایران کے خیال میں یہ معاملہ اپنے طور پر ترکی کی سلامتی پر بھی اثر انداز ہے۔
ہدی رزق نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ترکی نے کرد مسلح گروہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز ﴿قسد﴾ کے زیر قبضہ علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی غرض سے شام کے شمالی حصوں میں فوجی کاروائیاں شروع کردی ہیں اور اپنے حمایت یافتہ مسلح عناصر کے ساتھ مطلوبہ ہماہنگی انجام دے چکا ہے، یہی مسئلہ پہلے بھی ایران کے اعتراض کی وجہ بنا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد ایران نے اپنے وزیر خارجہ امیر عبد اللہیان کی جانب سے ایک تخلیقی عمل پیش کیا جس کا اصلی ہدف آستانہ سمٹ کی تجاویز کو مستحکم کرنا اور شام میں متنازعہ علاقوں میں کشیدگی کو کم کرنا تھا۔ چہ بسا کہ تہران کا سہ فریقی اجلاس شام اور ترکی کے مابین تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ تہران کا سربراہی اجلاس امریکی سربراہی میں خطے میں عربی، اسرائیلی اتحاد تشکیل پانے کے بعد منعقد ہوا جبکہ ترکی بعض عرب ممالک اور اسرائیل کے ساتھ اپنے موقف ہماہنگ کر رہا ہے، ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا موقف واضح اور معین کرے؛ کیونکہ تل ابیب زور دے رہا ہے کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف ہے۔ کچھ نئے توازن اور حالات وجود میں آرہے ہیں کہ جو ایک طرح سے ایران اور ترکی پر اثر انداز ہوں گے، نیز علاقائی، سیاسی، سیکورٹی اور معاشی معاملات کو بھی اپنی لپیٹ میں لیں گے، بالکل ایسے ہی جیسے ان تعلقات کا مستقبل انقرہ کے سیاسی انتخاب اور فیصلوں کے اثرات قبول کرے گا۔
ہدی رزق نے واضح کہا کہ کوئی شک و شبہ نہیں کہ ترکی کے خلیج فارس کی پٹی کے عرب ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات ایران کے ذریعے ہی جاری رہ پائیں گے، اسی وجہ سے مشترکہ مفادات اور ان کے حصول کے مکانیزم کا جائزہ لینا ضروری ہے،ممکن ہے یہ اجلاس ان تین ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں توسیع کا سبب بنے۔
انہوں نے کہا کہ روس اور ایران کے باہمی تعلقات روس اور ترکی کے تعلقات سے مختلف ہیں، یہ اختلاف محض اسٹریٹجک الائنسس کو شامل نہیں ہے بلکہ روس اور ایران کے خلاف پابندیوں کی وجہ سے بھی ہے۔ دو ملک جو تیل و گیس کے ذخائر اور امریکی تسلط کے خلاف ایک جیسا موقف رکھتے ہیں۔ تاہم ترکی کا موقف نیٹو اور ۲۰۲١ سے اپنی خارجہ پالیسی میں جن نئے آپشنز کی طرف مائل ہوا ہے، کی وجہ سے مختلف ہے کیونکہ خارجہ پالیسی میں یہ نئے رجحانات ان کے ملکی مفادات کی بنیاد پر انقرہ کے آپشنز اور بقیہ ملکوں سے اس کے فاصلے کو معین کرتے ہیں۔
سیاسی امور کی اس محقق نے اپنی گفتگو کے آخر میں کہا کہ کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ شام کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ہونے والی کوششیں ترکی اور ایران کے مابین تجارتی اور کاروباری تعلقات کی سطح کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ البتہ ماسکو بھی قفقاز میں دونوں ملکوں مابین کاروبار کے دروازے کھلنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ اجلاس یوکرین سے غلات کی برآمدات کے مسئلے اور یوکرین کی جنگ رکوانے کے لئے مذاکرات اور ثالثی کے دروازے کھلنے میں بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ