29 اکتوبر، 2025، 6:57 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

اسرائیلی اشتعال انگیزی ناکام، حزب اللہ نے ہوشیاری سے جنگی چال ناکام بنادی

اسرائیلی اشتعال انگیزی ناکام، حزب اللہ نے ہوشیاری سے جنگی چال ناکام بنادی

امریکہ اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے دباؤ، فضائی حملوں اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود حزب اللہ نے بڑے تصادم سے گریز کرتے ہوئے عقل و تدبیر پر مبنی پالیسی اپنائی۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: لبنان میں جاری کشیدگی کے دوران حزب اللہ نے اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی کے باوجود تحمل اور ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے منصوبے ناکام بنا دیے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے اب تک چار ہزار سے زیادہ خلاف ورزیاں کیں، جن میں ڈرون حملے، فضائی دراندازی اور ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ حزب اللہ کو کسی بڑے ردعمل پر اکسایا جائے تاکہ اسرائیل نئی لڑائی کو دفاعی اقدام کا نام دے سکے۔

صہیونی اشتعال انگیزی کے مقابلے میں حزب اللہ نے جلد بازی کے بجائے سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا۔ تنظیم نے نہ صرف اپنی دفاعی تیاری برقرار رکھی بلکہ دشمن کو اپنی شرائط پر میدان بنانے کا موقع بھی نہیں دیا۔ حزب اللہ کے سربراہ شیخ نعیم قاسم نے اپنے بیان میں کہا: ہم اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہیں، لیکن ہم جنگ کا آغاز نہیں کریں گے۔ اگر لڑائی مسلط کی گئی تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے دشمن کو داخل نہیں ہونے دیں گے۔

مبصرین کے مطابق حزب اللہ کی یہ حکمت عملی جذباتی نہیں بلکہ سوچے سمجھے فیصلوں پر مبنی ہے۔ اس حکمت عملی نے ایک طرف اسرائیل کی اشتعال انگیزی کو محدود کیا ہے، اور دوسری جانب لبنان کے اندر امن و استحکام کو برقرار رکھا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس وقت مزاحمتی قوتوں کو غیر مؤثر کرنے کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں، لیکن حزب اللہ کے سنجیدہ اور سمجھ دار فیصلوں نے یہ منصوبہ کمزور کر دیا ہے۔

بیروت میں مبصرین کے مطابق حزب اللہ کی خاموش تیاری اور صبر و تحمل نے دشمن پر نفسیاتی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ لبنانی تنظیم کی اس حکمت عملی نے ثابت کر دیا ہے کہ مزاحمت صرف بندوق اٹھانا ہی نہیں بلکہ تدبیر اور ضبط کا نام بھی ہے۔

غیر ملکی دباؤ اور اندرونی توازن

بیرونی فوجی خطرات کے ساتھ ساتھ حزب اللہ اس وقت غیر مسلح کرنے کے سلسلے میں بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کا بھی سامنا کر رہی ہے۔ یہ دباؤ امریکہ، اسرائیل اور لبنان کے اندر موجود کچھ سیاسی گروہوں کی طرف سے ڈالا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ملک شدید اقتصادی بحران، بینکوں کے نظام کی تباہی اور سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے اندرونی حالات نہایت نازک ہوگئے ہیں۔ ایسے ماحول میں حزب اللہ کی کوئی بھی غلط کارروائی یا غیر محتاط ردعمل ملک کے اندرونی جھگڑوں کو ہوا دے سکتا ہے۔ تاہم تنظیم نے اپنی تاریخی ساکھ اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے تجربے کی بنیاد پر یہ مؤقف اپنایا ہے کہ اس کے ہتھیار ملک میں انتشار کا سبب نہیں بلکہ ملک کے دفاع کا ذریعہ ہیں۔ حزب اللہ کی قیادت نے مسلسل کوشش کی ہے کہ اس معاملے کو قومی بحران میں نہ بدلنے دیا جائے۔

حزب اللہ نے اپنے مزاحمتی اصول برقرار رکھتے ہوئے قومی ذمہ داری کو بھی مقدم رکھا ہے۔ تنظیم کا مقصد لبنان کی سیاسی طاقت پر قبضہ کرنا یا مخالف گروہوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ ملک کے استحکام اور سماجی انتشار سے بچاؤ کو یقینی بنانا ہے۔

خارجہ پالیسی میں فیصلہ سازی اور عقل مند فریق کا نظریہ

سیاست میں فیصلے صرف عالمی طاقتوں کے ڈھانچے یا بین الاقوامی نظام کی پابندیوں پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ ہر ملک یا تنظیم اور اس کے رہنماؤں کے رویّے، فیصلے اور حکمت عملی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں سب سے اہم نظریہ "سمجھ دار فریق کا ماڈل" ہے، جسے گراہم الیسن نے پہلی بار کوبا کے میزائل بحران کے تجزیے میں استعمال کیا۔ اس ماڈل میں تصور کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی ملک یا تنظیم ایک واحد فریق کی طرح کام کرتا ہے، جو اپنے مقاصد، دستیاب اختیارات اور ممکنہ نتائج کا تجزیہ کرتا ہے۔ پھر وہ فیصلہ کرتا ہے جو سب سے زیادہ فائدہ مند ہو اور نقصان یا خطرہ کم سے کم ہو۔ حزب اللہ بھی جذباتی اور فوری ردعمل کے بجائے ہوشیاری اور حساب کتاب کے ساتھ فیصلے کرتی ہے۔ وہ اپنے مقاصد کے لیے بہترین راستہ چنتی ہے اور ہر قدم کو ممکنہ نتائج کے حساب سے پرکھتی ہے۔

عقل مند فریق کے ماڈل کے بنیادی عناصر

1. مسئلے کی وضاحت: فریق کو بحران کی نوعیت کو درست طور پر پہچاننا چاہیے۔

2. اہداف کا تعین: واضح ہونا چاہیے کہ فیصلہ سازی کس مقصد کے لیے کی جارہی ہے، جیسے بقا، سلامتی یا قانونی و اخلاقی جواز۔

3. ممکنہ راستوں کی نشاندہی: مسئلے سے نمٹنے کے تمام ممکنہ طریقے شناخت کیے جائیں۔

4. نتائج کا جائزہ: ہر فیصلے کے مختصر اور طویل مدتی فائدے اور نقصانات کا تجزیہ کیا جائے۔

5. معقول فیصلہ: وہ راستہ چنا جائے جو سب سے زیادہ فائدہ مند اور کم سے کم نقصان دہ ہو۔

اس ماڈل میں مفروضہ یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے مکمل معلومات رکھتے ہیں اور جذباتی یا نظریاتی ردعمل کی بجائے، نتائج کی پیش گوئی اور حساب کتاب کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں۔

توازن برقرار رکھنا: قیادت کی اصل آزمائش

ہر نظریاتی فریق کے لیے سب سے مشکل پہلو یہ ہوتا ہے کہ اپنے آرمانی اصولوں اور عقلانی تقاضوں کے درمیان توازن برقرار رکھے۔ حزب اللہ، جو مزاحمت کے موقف پر گہرا عقیدہ رکھتی ہے، اس وقت مجبور ہے کہ نظریاتی اصولوں (قدس کی حفاظت اور ناجائز قبضہ کے خلاف مزاحمت) اور لبنان کے عوام کی حقیقی ضروریات (سلامتی، اقتصادی استحکام اور جنگ سے بچاؤ) کے درمیان اعتدال قائم کرے۔ سمجھ دار فریق کے ماڈل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ موجودہ حالات میں زیادہ سے زیادہ ممکنہ فائدے کے اصول کی پیروی کرتی ہے: یعنی نہ مکمل غیر فعال ہونا اور نہ خطرناک کھیل میں کودنا، بلکہ محدود اور ہدف کے مطابق اقدامات جو قومی مفادات کے دائرے میں ہوں۔ یہ نقطہ نظر سیاسی پختگی کی عکاسی کرتا ہے، جس میں مزاحمت صرف ایک فوجی طاقت کے طور پر نہیں بلکہ لبنان کے ریاستی ڈھانچے میں ذمہ دار کردار ادا کرنے والے فریق کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔

حزب اللہ اور بحران کے متعدد سطحی انتظامات

ایسے ماحول میں فیصلہ سازی صرف ردعمل پر مبنی نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ کثیر سطحی انتظام کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ حزب اللہ کو ایک وقت میں تین سطحوں پر فیصلے کرنے ہوتے ہیں:

دفاعی سطح: تصادم کو بڑھائے بغیر حملوں کا جواب دینا۔

داخلی سیاسی سطح: داخلی سیاسی تقسیم کو بڑھنے سے روکنا۔

علاقائی سفارتی سطح: لبنان کی پوزیشن کو علاقائی تناسب میں برقرار رکھنا، بغیر یہ کہ ملک غیر مستحکم ہو۔

ان تینوں سطحوں پر حزب اللہ کا رویّہ عقلانی فیصلہ سازی کی تصدیق کرتا ہے۔ اسے کھیل نظریہ کے زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ حزب اللہ محدود معلومات کے ساتھ منطقی فریق کے طور پر عمل کرتی ہے: اس کے اقدامات جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخالف کے رویّے کی پیش گوئی اور خطرات کے جائزے پر مبنی ہوتے ہیں۔

نتیجہ

حالیہ مہینوں میں حزب اللہ کے رویّے نے ثابت کیا ہے کہ عقلانیت اور مزاحمت ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ مربوط ہیں۔ اس تنظیم نے سمجھ دار فریق کے ماڈل کو اپناتے ہوئے ایسے فیصلے کیے ہیں جو طاقت کا توازن برقرار رکھتے ہوئے جنگ کے پھیلاؤ کو روکیں۔ حزب اللہ کے طرزِ عمل کو "ذہین مزاحمت" کہا جا سکتا ہے: ایک مزاحمت جو نہ غیر فعال ہے اور نہ خطرناک، بلکہ خطرات اور مواقع کی مکمل سمجھ بوجھ پر مبنی ہے۔

ایسے ماڈل میں ہر دفاعی، سیاسی یا میڈیا سے متعلق اقدام ایک معقول حساب کتاب کا حصہ ہے جو بقا، قانونی جواز اور قومی استحکام کے لیے کیا جاتا ہے۔ آخرکار، جیسا کہ فیصلہ سازی کے نظریات بتاتے ہیں، سیاسی خرد تب معنی رکھتی ہے جب غیر یقینی حالات میں فریق بہترین ممکنہ اختیار کا انتخاب کرسکے۔ حزب اللہ آج اس قسم کی عقلانیت کی واضح مثال ہے۔

News ID 1936192

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha