9 جون، 2024، 8:46 PM

ترک صحافی و مبصر کی مہر نیوز سے خصوصی گفتگو؛

حج کو فلسطین کے ساتھ عمومی یکجہتی کا اجتماع بنانے میں سعودی عرب بڑی رکاوٹ ہے

حج کو فلسطین کے ساتھ عمومی یکجہتی کا اجتماع بنانے میں سعودی عرب بڑی رکاوٹ ہے

ترک مبصر نے کہا ہے کہ حج کے ایام میں غزہ کے حق میں آواز بلند کرنے سے امریکہ اور اسرائیل ناراض ہوتے ہیں اس لئے سعودی عرب احتجاج کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ میں فلسطینی عوام پر مظالم اور ظلم و ستم کی وجہ سے گذشتہ چند مہینوں کے دوران صہیونی حکومت کے خلاف عالمی سطح پر مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ امریکہ سے یورپ اور مشرقی ایشیا تک مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

ان ایام میں لاکھوں عازمین حج مکہ اور مدینہ میں موجود ہیں۔ صہیونی حکومت کے مظالم کی وجہ سے حج کے دوران مسلمانوں کا اسرائیل کے خلاف بڑا اجتماع وجود میں آسکتا ہے گویا اس سال حج کے موقع پر غزہ کے ساتھ یکجہتی اور صہیونی حکومت کے خلاف وجود احتجاجی مظاہرہ ہوسکتا ہے۔

اس حوالے سے ترکی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مبصر رمضان بورسا نے مہر نیوز سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔

رمضان بورسا نے حج کو فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اہم موقع قرار دیا اور کہا کہ پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ امریکی طلباء نے یونیورسٹیوں میں اچھی روایت قائم کی ہے۔ فلسطین نے مغربی عوام کو بیدار کیا ہے۔ لوگوں نے زبان، رنگ، نسل اور مذہب کے دائرے سے باہر نکل کر غزہ کی حمایت کی ہے۔ اس سال کا حج بھی صہیونی حکومت مخالف اجتماع بن سکتا ہے۔ پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان میدان عرفات اور دوسرے مقامات پر جمع ہوتے ہیں جہاں مسلمان کے درمیان ایک ذہنی ہمدردی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ حج ایک لحاظ سے سیاسی عبادت ہے لہذا اس موقع پر عالمی سطح پر مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے بہترین پلیٹ فارم وجود میں آسکتا ہے۔

غزہ کی حمایت ایک دینی فریضہ

بورسا نے کہا کہ غزہ کی حمایت کرنا ایک سیاسی نہیں بلکہ مذہبی فریضہ ہے۔ اس سب سے بڑے اجتماعی عبادت کے دوران غزہ کی حمایت کرنا بھی واجب ہے۔ مشکل یہ ہے کہ سعودی عرب اندرونی طور پر ڈرتا ہے۔ پوری دنیا میں گذشتہ 8 مہینوں کے دوران اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں لیکن سعودی عرب سمیت خلیج فارس کے کنارے واقع عرب ممالک میں کہیں بھی کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا وہاں کے عوام کے دل میں فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے؟ ایسی بات نہیں ہے۔ عرب ممالک کے مسلمان بھی غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ وہاں حاکم طبقہ فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کی اجازت نہیں دیتا ہے کیونکہ عرب حکمران سمجھتے ہیں کہ آج فلسطین کے حق میں سڑکوں پر نکلنے کی اجازت دی جائے تو کل یہی لوگ ان عرب حکمرانوں کے خلاف بھی احتجاج کریں گے۔

حج کے ایام میں غزہ کا مسئلہ اٹھائیں تو امریکہ ناراض ہوتا ہے

ترک صحافی نے کہا کہ حج کے ایام میں غزہ کا مسئلہ اٹھایا جائے تو تاریخی قدم ہوگا جس سے امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی ممالک ناراض ہوں گے۔ سعودی عرب حج کے ایام میں غزہ کی بات کرکے امریکہ اور اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس سال غزہ کے حق میں احتجاج کیا جائے تو گرفتار ہونے کا زیادہ احتمال ہے۔ چنانچہ ترکی سے تعلق رکھنے والا ہمارا ایک دوست اسی جرم میں جیل میں ڈالا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب حج کے ایام میں کچھ قوانین نافذ کرتا ہے جن کی خلاف ورزی پر آئندہ حج اور عمرے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ کوئی بھی مسلمان مکہ اور مدینہ سے دوری برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ سرزمین وحی جاکر بیت اللہ اور روضہ رسول کی زیارت ہر مسلمان کی تمنا ہوتی ہے۔ سعودی عرب کے ان قوانین کی وجہ سے اس سال حج کے دوران غزہ کے حق میں کوئی مظاہرہ یا احتجاج کا پروگرام بنانا ممکن نہیں ہے۔

بورسا نے کہا کہ میں نے سالوں تک بیرونی ممالک میں زندگی گزاری ہے۔ کوئی بھی شخص غیر ممالک کے قوانین اور سیاسی حالات پر مکمل خبر نہیں رکھتا ہے لہذا ہمیشہ احتیاط کے ساتھ رہتا ہے۔ خود کو اجنبی سمجھتا ہے۔ غیر یقینی حالات میں ایک مہینے کی مختصر مدت کے دوران بڑا احتجاجی پروگرام رکھنا بہت مشکل ہے۔ اگر حج کے ایام مکہ اور مدینہ میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوجائیں تو تمام مسلم ممالک میں یہ سلسلہ شروع ہوجائے گا لیکن سعودی حکام کا رویہ سب کو معلوم ہے لہذا انتہائی احتیاط کے ساتھ رہنا پڑے گا۔

News ID 1924582

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha