مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ پاکستانی سیئنر سیاستدان سینیٹر مشاہد حسین سید کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نون سے ہے۔ 2018 میں پارٹی نے ان کو سینیٹ کا رکن منتخب کیا۔ آپ صحافی بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست اور صحافت میں ان کو معتدل اور متوازن شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔
تہران میں انٹرنیشنل فلسطین کانفرنس میں شرکت کے موقع پر مہر نیوز نے ان سے گفتگو کی جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
مہر نیوز؛ سب سے پہلے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں ٹائم دیا، یہ بتائیں کہ پاکستان اور ایران کو اپنے روابط کو مزید مستحکم کرنے کے لئے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
سینیٹر مشاہد حسین؛ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے پاکستان اور ایران کے درمیان مفادات، سوچ اور مقاصد کے حوالے سے کوئی بنیادی تنازع، مسئلہ یا تضاد نہیں ہے۔ تو ایک بنیاد ہے پختہ قربت کی جو کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ ایران پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کو تسلیم کیا۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے 1979 میں امام خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کو تسلیم کیا۔ تو ایک بنیاد ہے۔ میرے خیال میں ہمیں تین چیزیں کرنی چاہئیں جس سے ہمارے باہمی تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا۔
پہلا تو یہ کہ اس سال صدر رئیسی اور پاکستانی وزیراعظم نے جس بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا تھا۔ ان بارڈر مارکیٹس کو مزید وسیع کرنا چاہئے تاکہ ہماری تجارت ہو اور تجارت ریال اور روپے میں ہو یہ بہت ضروری ہے اور اس کو کھول دے اور زیادہ آسانی پیدا کرے۔
دوسرا یہ کہ بارڈر پر کبھی کبھی دہشت گردی ہوتی ہے کبھی پاکستان کی طرف سے کچھ دہشت گرد جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں، فری لانس دہشت گرد حملے کرتے ہیں کبھی ایران کی طرف سے کچھ گمراہ بھائی کاروائی کرتے ہیں تو یہ چپقلش کبھی کبھی ہوتی رہتی ہے اور اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور جو بارڈر منیجمنٹ ہے اس کو فول پروف بنانے کی ضرورت ہے اور جو دہشت گرد پاکستان میں ہیں ایران کی حکومت کے خلاف اور جو دہشت گرد ایران میں ہیں پاکستان کی حکومت کے خلاف میرے خیال میں تعاون کرکے ان دونوں کا صفایا کردینا چاہئے یا ان کو قانون کے تحت ڈیل کرنا چاہئے۔
اور تیسرا اہم ایشو ہے ایران پاکستان پائپ لائن معاہدہ کچھ دس سال پہلے صدر زرداری کے دور میں ہوا تھا۔ ایران نے وہ پائپ لائن بنادی ہے 900 کلومیٹر۔ اب پاکستان معاہدے کے تحت پابند ہے کہ ہم بھی پائپ لائن مکمل کریں تو ہمیں چاہئے کہ پائپ لائن جس سے پاکستان کی معیشت اور عوام کو بہت فائدہ پہنچے گا، اس کو شروع کریں اور اس خوف سے نکلیں کہ پابندیاں لگیں گی۔ اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے اقدام کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے ہمارے عوام کو فائدہ ہے۔ ملکی اور قومی مفاد ہے؛ علاقائی مفاد ہے اور عوام کا بھی بہترین مفاد ہے تو یہ تین چیزیں ضروری ہیں۔
مہر نیوز؛ جس کانفرنس میں شرکت کے لئے آپ آئے تھے اس کے کیا مقاصد تھے؟ اس کانفرنس کے ذریعے کیا غزہ میں جاری صہیونی جارحیت کو روکنے میں کوئی مدد مل سکتی ہے؟
سینیٹر مشاہد حسین؛ یہ بڑی اہم کانفرنس تھی جس میں تقریبا 70 ممالک شامل تھے اور مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ پاکستانی وفد کی قیادت کررہا تھا اور پاکستان کی ریاست، حکومت اور پارلیمنٹ کی نمائندگی کررہا تھا اور میں نے تقریر بھی کی۔ صدر رئیسی اور وزیرخارجہ امیرعبداللہیان اور دیگر دوستوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ بنیادی طور پر پاکستان اور ایران کا فلسطین کے مسئلے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح شروع دن سے اسرائیل، اس کی توسیع پسندی، جارحیت اور فلسطین پر اس کے قبضے کے مخالف تھے۔ بانی اسلامی انقلاب امام خمینیؒ ان کا بھی شروع دن سے یہی موقف رہا ہے تو ہماری ایک ہماہنگی ہے فلسطین کے مسئلے پر چاہے ایران کی حکومت ہو یا عوام یا پاکستان کی حکومت ہو یا عوام، اس کو آگے لے جانا ہمارا فرض ہے۔ اس کانفرنس سے یکجہتی کا ایک بنیادی پیغام گیا ہے۔ اور یہ بھی پیغام گیا کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست جس کا دارالخلافہ القدس الشریف ہو، کوئی پائیدار امن مشرق وسطی میں قائم نہیں ہوسکتا اور اس حوالے سے یہ بھی ہوا کہ اسرائیل کے لئے ایک پیغام گیا کہ یہ دنیا کی اور بین الاقوامی رائے عامہ مسلمان ہو یا غیر مسلم اس میں مسیحی برادری کے لوگ بھی تھے، یہودی برادری کے بھی تھے جن کو اہل کتاب کہتے ہیں۔ اس سے عالمی یکجہتی کا پیغام گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ 7 اکتوبر کو طوفان الاقصی برپا ہونے کے بعد یہ سب سے اہم بین الاقوامی کانفرنس تھی۔ میں داد دیتا ہوں ایرانی وزارت خارجہ کو اور خاص طور پر میرے دوست ہیں امیر عبداللہیان جو وزیرخارجہ ہیں اور پارلمینٹ میں خارجہ امور کے سربراہ تھے۔ انہوں نے کم عرصے میں جب 23 تاریخ کو کانفرنس ہے اور 25 کرسمس ہوتی ہے اور لوگ مصروف ہوتے ہیں لیکن انہوں نے ماریطانیہ سے ملائشیا، شام سے سری لنکا، آئرلینڈ سے انڈونیشیا تک، پوری دنیا سے لوگ بلایا۔ لوگ آئے اور بات کی میں ان کو مبارک باد دیتا ہوں یہ بہت کامیاب اور اہم کانفرنس تھی۔ میں نے تجویز بھی دی ہے کہ آئندہ کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے اور اس تجویز میں دو تین چیزیں ہیں؛ ایک یہ کہ بین الاقوامی برادری مسلمان ہو یا غیر مسلم ان کو چاہئے کہ اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔ فلسطینی عوام پر ظلم اور انسانیت کے خلاف جنایت کی ہے اس کا حساب لینا چاہئے اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لے جانا چاہئے، دوسرا یہ کہ میڈیا کے حوالے سے فلسطین کے بارے میں ہمیں مشترکہ بیانیہ اور تعاون کی ضرورت ہے۔ اور تیسرا یہ کہ ہمارا ایک ہی ہدف ہونا چاہئے یعنی نسل کشی کا خاتمہ، اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کا خاتمہ اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام جس کا دارالخلافہ القدس الشریف ہو۔
مہر نیوز؛ کچھ دنوں پہلے نگران وزیراعظم کا بیان آیا کہ قائداعظم کا موقف وحی تو نہیں ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
سینیٹر مشاہد حسین؛ میں کسی اور کے بیان پر بات نہیں کرتا بلکہ قائداعظم کی بات کرتا ہوں۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں جس کا بانی قائداعظم محمد علی جناح ہیں۔ ان کا قول، کردار اور پالیسی ہمارے لئے مقدم اور مقدس ہے اس سے کوئی انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ انحراف پاکستانی عوام کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ بڑی سادہ بات ہے کیونکہ ان کا جو قول ہے انہوں نے کشمیر کے بارے کہا تھا کہ پاکستان کا شہہ رگ ہے انہوں نے فلسطین کے بارے میں اور فسلطینی ریاست کے حوالے ناجائز ریاست اسرائیل کو مسترد کیا تھا۔ یہ دونوں ہمارے لئے مقدم ہیں اور میرے خیال میں کوئی بھی پاکستانی ان سے انحراف کا سوچ نہیں سکتا کیونکہ عوام کی خواہشات اور جذبات کے منافی اور پاکستان کے بنیادی قومی مفادات اور قومی سوچ کے خلاف ہوگا اور یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ فلسطین تو پاکستانی عوام کے ڈی این اے میں ہے۔ فلسطین اور کشمیر ہمارے دل کی دھڑکن ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔
آپ کا تبصرہ