مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 ویں سالانہ اجلاس کی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے کرتے ہوئے کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ اقتصادی شعبوں میں شنگھائی تنظیم کے اراکین کا تعاون دنیا کی اقوام کے سامنے ایک منصفانہ علاقائی نظام کا واضح نمونہ رکھ سکتا ہے۔
آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ گذشتہ دہائیوں کے تجربے سے یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ مغرب کی عسکریت پسندی کے ساتھ ساتھ ڈالر کے غلبے نے مغرب کے استبدای نظام کو بیناد فراہم کی ہے۔ اسی لیے ایک منصفانہ بین الاقوامی نظام کی تشکیل کے لئے خطے کے باہمی داخلی معامالات میں تسلط کے اس ہتھیار(ڈالر) کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ کے ایران صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے نویں بنیادی رکن کی حیثیت سے اس اہم علاقائی تنظیم کے رہنماؤں کے تئیسویں اجلاس میں اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ اتحاد اور صلح کے لیے رکن ممالک کی سب سے بڑی صلاحیت ان کی تہذیبی صلاحیت ہے اور آج جب یہ قدیم براعظم پھر سے انگڑائی لے چکا ہے تواسے اخلاقیات، روحانیت، انصاف، عقلیت اور انسانی وقار کے احترام کی تہذیب کا نمونہ بن جانا چاہئے۔
شنگھائی تعاون تنظیم، تہذیبوں کے اس عظیم خاندان کی علامت کے طور پراب ایک ایسی پوزیشن میں کھڑی ہے جو علاقائی ہم آہنگی اور سلامتی کی تعمیر میں تعاون کے نئے افق قائم کر سکتی ہے۔ صدر رئیسی نے تاکید کی: قوموں کی اقدار اور مقدسات کا احترام ایک وحدت بخش اصول ہے اور اقدار کی کسی قسم کی توہین بالخصوص بعض یورپی ممالک کی طرف سے قرآن کریم کی توہین ان کے اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتی ہے اور نفرت اورنا امنی کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے، لہذا مہذب قوموں کو اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس غیر مہذب روئے کا خاتمہ کرنا چاہیے۔
ہندوستان کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 23ویں سربراہی اجلاس سے ایران کے صدر رئیسی کے خطاب کا متن حسب ذیل ہے:
﷽
الحمدلله رب العالمین و صلی الله علی سیدنا و نبینا محمد و آلہ الطاهرین و صحبه المنتجبین
محترم جناب نریندر مودی، وزیر اعظم ہندوستان
شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل جناب ژانگ منگ
محترم صدورصاحبان
خواتین و حضرات
سب سے پہلے، میں اس اہم کانفرنس کی میزبانی پر ہندوستان کے معزز وزیر اعظم اور دیگر لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس موقع کو غنمیت جانتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کی قوم اور حکومت کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے نویں باضابطہ رکن کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے باضابطہ الحاق پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتا ہوں اور اس سلسلے میں تنظیم کے سیکرٹریٹ اور معزز اراکین کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم، اہم خصوصیات اور صلاحیتوں کے ساتھ ایک ابھرتے ادارے کے طور پر، سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یقیناً شنگھائی تعاون تنظیم میں اسلامی جمہوریہ ایران کی رسمی رکنیت کے ثمرات جاویداں تاریخی حقیقت کے طور پرثبت رہیں گے۔
امید کرتا ہوں کہ اس اہم اور بااثر تنظیم میں ایران کی موجودگی اجتماعی سلامتی فراہم کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گی، جس سے پائیدار ترقی، روابط اور مواصلات کو وسعت اور اتحاد کو تقویت ملے گی، ممالک کی خودمختاری کے احترام میں اضافہ ہوگا، اور ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے ہم آہنگی پیدا ہوگی۔
اب میں ان چھ شعبوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار سے متعلق چند نکات کو مختصراً بیان کرنا چاہتا ہوں:
سیکورٹی کے حوالے سے؛
پچھلی دو دہائیوں میں مختلف اقوام کے تجربے نے پہلے سے کہیں زیادہ یہ ثابت کیا ہے کہ سلامتی ایک مربوط داخلی معاملہ اور اجتماعی کامیابی ہے۔ پائیدار امن و استحکام تب ممکن ہے جب خطے کی قومیں اپنی ثقافت اور تہذیب سے پیدا ہونے والے مشترکہ نظریات پر بھروسہ کریں اور تعاون کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کریں۔ علاقائی سلامتی اقوام کی مرضی سے شروع، حکومتوں کی مرضی سے مضبوط اور تسلط پسند طاقتوں کی مداخلت سے دوری سے میسرآتی ہے۔ لہذا اس نقطہ نظر کی بنیاد پر، اسلامی جمہوریہ ایران نے "ہمسائیگی اور ہم آہنگی" کے اصول کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیا ہے اور اسے علاقائی امن و استحکام کے حصول کا بہترین ذریعہ سمجھتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کامیابی سے لڑنے کے دو دہائیوں سے زیادہ کے تجربے کے ساتھ، اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے میں سلامتی کو یقینی بنانے اور تسلط پسندی سے لڑنے کے اپنے عزم کو ثابت کیا ہے اور شنگھائی تعاون کے فریم ورک کے اندر اپنے تجربات اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے تیار ہے تا کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے پاک خطے کی طرف بڑھنے کے عمل میں تیزی لائی جا سکے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کہ جس نے افغانستان کی ستم دیدہ قوم کے پناہ گزینوں کی اپنے منصفانہ حصہ سے بھی زیادہ میزبانی کی ہے، اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس ملک میں پائیدار امن کا واحد حل تمام گروہوں، نسلوں، سیاسی جماعتوں اورمسالک کی ایک جامع حکومت کے قیام میں مضمر ہے۔
ہم شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے سائبر کرائمز، منشیات کے منظم جرائم سمیت نئے خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی تعاون کے لیے تیار ہیں۔
معیشت کے حوالے سے؛
شنگھائی تعاون تنظیم یوریشین خطے کے 60% سے زیادہ اور دنیا کی 40% سے زیادہ آبادی کا احاطہ کرتی ہے۔ اس قابل قدر صلاحیت نے اس تنظیم کو تجارت کو فروغ دینے اور مختلف شکلوں میں اقتصادی تعاون کو گہرا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ "عالمی ترقی کا لائحہ عمل" جیسے تعمیری اقدامات کی حمایت کرتے ہوئے توانائی، ٹیکنالوجی، صنعت، زراعت، تجارت اور تجارت کے شعبوں میں اس کے اراکین کے تعاون سے اقوام عالم کے لئے ایک منصفانہ علاقائی نظام کا واضح نمونہ وجود مین لاسکتا ہے۔ اس وقت ایسے اقدام کی ضرورت ہے کہ جب مغربی تسلط پسند طاقتوں نے معاشی جبر اور پابندیوں کا سہارا لے کر دنیا کی سلامتی، اقتصادی خوشحالی اور منصفانہ تجارت کے اصولوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
پچھلی دہائیوں کے تجربے سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مغرب کی عسکریت پسندی کے ساتھ ساتھ جو چیز اس کے تسلط کی بنیاد بنی ہے وہ ڈالر کا غلبہ ہے اور اس لیے علاقائی تعلقات میں تسلط کے اس مغربی ہتھیار کو ختم کرنے کے لئے ایک منصفانہ بین الاقوامی نظام کی تشکیل کے لئے کوشش بہت ضروری ہے۔
اس تنظیم کے اراکین اور ان کے کاروباری شراکت داروں کے درمیان بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی تبادلوں میں قومی کرنسیوں کے استعمال کو بڑھانے کے لیے زیادہ سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اراکین اور کاروباری شراکت داروں کے درمیان خاص طور پر کثیر الجہتی فریم ورک میں مالیاتی تبادلے کو آسان بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مالیاتی ادائیگی کا نظام متعارف کرانے کے کسی بھی اقدام کا خیر مقدم کرتا ہے، ۔ ماہر انسانی وسائل اور جدید ٹیکنالوجی اور جدید علوم کے میدان میں نمایاں کامیابیاں اسلامی جمہوریہ ایران کی خصوصی صلاحیتوں میں سے ایک ہے جس سے کثیرالجہتی اقتصادی تعاون کو تقویت مل سکتی ہے۔
ملت ایران، اپنی ملکی طاقت اور مقامی دانش پر بھروسہ کرتے ہوئے، سائنسی پیداوار، ٹیکنالوجی، بائیو ٹیکنالوجی، میڈیکل، نینو، انجینئرنگ، الیکٹرانکس، دفاع جیسے بہت سے میدانوں میں اعلیٰ درجے کے حصول میں کامیاب ہوئی ہے اور بہت سے ممالک کی طرف سےایران سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ سائنسی اورتکنیکی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے اپنے تجربات اور کامیابیوں کو شیئر کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔
تعلقات کو مضبوط بنانے کے حوالے سے؛
عمومی اقتصادی ترقی کے لیے خطے میں ٹرانزٹ اور ٹرانسپورٹ کے راستوں کی توسیع کی ضرورت ہے۔ ان روابط کو وسعت دینے سے ہی ممالک کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے اقتصادی ہم آہنگی کا بلند مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال، یوریشین سطح پر بہت ہی قابل قدر اقدامات جاری ہیں، جو رکن ممالک کو آپس میں جوڑنے اور خطے کی اقوام کے درمیان تجارت کی توسیع کے لیے بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ موجودہ میگا پراجیکٹس جیسے نارتھ ساؤتھ کراسنگ اور بیلٹ روڈ منصوبے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے اور اسے اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔
چابہار سمندری بندرگاہ اور چابہار-سرخس کراسنگ وسطی ایشیا کے خشکی میں گھرے ممالک کو بحیرہ عمان اور بحر ہند سے جوڑنے میں ایک ناقابل تلافی کردار ادا کرتے ہیں اور ہم اس راہداری روٹ کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ایرانی ماہرین کی کوششوں اور مشترکہ تعاون سے ایران اور روس کے ریلوے روٹ کی تکمیل شمالی جنوبی کوریڈور پر عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس مواصلاتی شاہراہ کے استعمال سے عالمی سپلائی چین کو بہتر اور مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور خطے کی قوموں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں، ہم اشیاء اور مسافروں کی نقل و حمل کو منظم کرنے، عالمی منڈیوں تک رکن ملکون کی رسائی بڑھانے اور نقل و حمل کی پالیسیوں کو مربوط کرنے کے لیے ضروری تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ نیز، توانائی کی ترسیل کو بڑھانے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کے سیکورٹی اور بنیادی ڈھانچے کی خدمات شنگھائی کے معزز اراکین کو اعلی کارکردگی کی ضمانتوں کے ساتھ مشترکہ اقتصادی منصوبوں کے نفاذ کے لیے فراہم کی جا سکتی ہیں۔
اتحاد کے حوالے سے؛
شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان تاریخی اور ثقافتی تعلقات، مشترکہ نظریات، اہداف اورمفادات ہمیں سلامتی اور ترقی کی مشترکہ تعریف پر اکھٹے کرچکے ہیں۔ اتحاد کو مضبوط کرنے میں سب سے اہم قدم مقامی ترقی پسند اصولوں کی حفاظت کرنا، ان اصولوں پر مبنی حکمرانی، اور مغربی ضابطوں کو رائج ہونے سے روکنا ہے تاکہ تعاون پر مبنی تصورات اپنے حقیقی معنی سے خالی نہ ہوں۔ اتحاد اور صلح کے لیے رکن ممالک کی سب سے بڑی صلاحیت ان کی تہذیبی صلاحیت ہے اور آج جب یہ قدیم براعظم پھر سے انگڑائی لے چکا ہے تواسے اخلاقیات، روحانیت، انصاف، عقلیت اور انسانی وقار کے احترام کی تہذیب کا نمونہ بن جانا چاہئے۔
شنگھائی تعاون تنظیم، تہذیبوں کے اس عظیم خاندان کی علامت کے طور پراب ایک ایسی پوزیشن میں کھڑی ہے جو علاقائی ہم آہنگی اور سلامتی کی تعمیر میں تعاون کے نئے افق قائم کر سکتی ہے۔ صدر رئیسی نے تاکید کی کہ قوموں کی اقدار اور مقدسات کا احترام ایک وحدت بخش اصول ہے اور اقدار کی کسی قسم کی توہین بالخصوص بعض یورپی ممالک کی طرف سے قرآن کریم کی توہین ان کے اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتی ہے اور نفرت اورنا امنی کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے، لہذا مہذب قوموں کو اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس غیر مہذب روئے کا خاتمہ کرنا چاہیے۔
قوموں کی خودمختاری کے احترام کے حوالے سے؛
عصری دنیا میں کثیرالجہتی کا مطلب مشترکہ کاوشیں اور مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے آزاد ممالک کی ہم آہنگی ہے۔ کثیرالجہتی کا ایسا تصور دوسرے ممالک کے ساتھ تشدد اور دشمنی کو فروغ دینے کے سیکورٹی اتحادوں سے متصادم ہے۔ حقیقی کثیرالجہتی قوموں کے فائدے کے لیے ہے بڑی طاقتوں کے مفادات کے لئے نہیں۔ ممالک کی خودمختاری کے احترام اور باہمی فائدہ مند تعاون پر انحصار کرتے ہوئے سلامتی اور پائیدار ترقی کے بلند اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
وہ (غاصب) حکومت جو آج 4 جولائی کو اپنی آزادی کی سالگرہ منا رہی ہے جو بہت سے ممالک کی آزادی کی خلاف ورزی کرچکی ہے اور قوموں بالخصوص ملت فلسطین کے حق خودارادیت سے انکار کر چکی ہے۔
کوئی بھی انسان یا قوم اس وقت تک آزاد اور مہذب نہیں ہے جب تک کہ اس کا دل فلسطین اور اس مظلوم قوم کی آزادی کے لئے نہ دھڑکتا ہو۔ جنین کیمپ میں صیہونی حکومت کے آج کے جرائم 1948 میں فلسطین پر قبضے کے دردناک جرائم کی یاد تازہ کراتے ہیں۔ صیہونی حکومت اقوام کی خودمختاری پر تجاوز کی ایک شرمناک علامت ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران تمام آزاد اقوام کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے ملکوں کے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی مذمت کرتا ہے اور قومی خودمختاری کی مضبوطی کو عدم تحفظ اور دہشت گردی سے نمٹنے کا بنیادی حل سمجھتا ہے۔
ماحولیات کے حوالے سے: موجودہ دور میں عالمی برادری کو جو سب سے اہم خطرات لاحق ہیں وہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی جغرافیائی سیاسی تناؤ میں تبدیل ہونے کا امکان رکھتی ہے جس کا سامنا پیچیدہ سیکورٹی بحرانوں سے دوچار ممالک کو ہے۔ ہمارا خطہ بھی آبی وسائل کی کمی، حدت اور مٹی کا کٹاؤ جیسے مختلف ماحولیاتی خطرات کا سامنا کر رہا ہے ۔ ان خطرات کی نوعیت ایسی ہے کہ ان سے نمٹنے کے لئے کثیر الجہتی تعاون، طویل مدتی ممکنہ نقصانات کو سمجھنے اور علاقائی تنظیموں کے فریم ورک میں اصول و ضوابط طے کرنے کے کی ضرورت ہے۔
جناب صدر اور عزیز ساتھیو،
آخر میں، اس اہم کانفرنس کے کامیاب انعقاد کی میزبانی کرنے اور اس میں شامل دیگر لوگوں کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے، میں جمہوریہ قازقستان کو تنظیم کی نئی ممبرشپ پر مبارکباد دیتا ہوں اور اس قابل قدر اجلاس کے عظیم مقاصد کامیابی کی خواہش کرتا ہوں۔.
آپکی توجہ کا شکریہ
آپ کا تبصرہ