17 اپریل، 2023، 8:51 AM

ترک صدارتی امیدوار کی مہر نیوز سے گفتگو؛

شام کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز کریں گے

شام کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز کریں گے

ترکی میں رواں سال 24 مئی کو عام انتخابات ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق صدر اردگان سمیت چار امیدوار انتخابی دوڑ میں حصہ لیں گے۔ قومی پارٹی کے سربراہ محرم اینجہ صدر اردوغان کے بڑے حریف ثابت ہوسکتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی،انٹرنیشنل ڈیسک_آذر مهدوان: ترکی کی سپریم الیکشن کونسل کے اعلان کے مطابق موجودہ صدر اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے سربراہ رجب طیب اردگان، قومی پارٹی کے سربراہ محرم اینجہ، پیپلز ریپبلک پارٹی کے رہنما کمال کلیک دار اوغلو، اور اتحادی عطا کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر سنان اوگن آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ملکی جماعت کے سربراہ «محرم اینجہ» دوسری بار رجب طیب اردگان کے حریف بن گئے ہیں اور ان کی باتوں سے جس چیز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تجربہ کار سیاستدان اردگان کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ 2018 کے صدارتی انتخابات میں، جہاں 6 امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔

«محرم اینجہ» رجب طیب اردگان کے 56 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں 26 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ انجیہ، فزکس اور کیمسٹری کے سابق سیکرٹری، جن کی عمر اب 59 سال ہے، اور اپنے سیاسی کیرئیر میں وہ پیپلز ریپبلک پارٹی کے پارلیمنٹ کے نمائندہ تھے۔

ترک انتخابات کے حوالے سے مہر خبررساں ایجنسی نے "محرم اینجہ" سے گفتگو کی جس کی تفصیل ذیل میں ہے۔ 

مہر نیوز: جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے دور میں ترکی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں آپ کا کیا کہتے ہے؟

محرم اینجہ: جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی 20 سال سے خارجہ پالیسی قومی پالیسی (قومی مفادات کے مطابق) نہیں رہی۔ ترکی کی خارجہ پالیسی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ذاتی مفادات کے مطابق بنائی گئی ہے، ہم نے اردگان کو امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین کی حمایت کرتے دیکھا ہے۔ اب ایک اردگان ہے جس نے خود کو یورپی یونین اور اس کی جمہوری اقدار سے دور کر لیا ہے۔ ترکی کی سیاست میں اردگان ہیں جنہوں نے 2009 میں ڈیووس اجلاس میں "ایک منٹ" کہہ کر فلسطین کی حمایت کی تھی اور پھر وہ کہتا ہے کہ اس کا ردعمل اس میٹنگ کے ناظم کی طرف تھا۔ یہ شام میں میرے بھائی اسد (بشار الاسد) کا لقب بدل کر میرے دشمن اسد کر دیتا ہے۔ اس نے ایک بار مصری صدر السیسی کو بغاوت کا منصوبہ ساز بھی کہا تھا لیکن اب وہ کہتے ہیں "میرا دوست سیسی" اور ترک عوام ان کی غلطیوں اور رعایتوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔ اس لیے اردگان صرف ذاتی مفادات کے لئے ایک متضاد اور ناقابل اعتبار پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

مہر نیوز: ان دنوں ترکی میں مہنگائی سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ آپ اس مہنگائی کی وجوہات کے بارے میں کیا کہتے ہیں اور مہنگائی کی صورتحال سے نکلنے کے لیے آپ کے ذہن میں کیا حل ہیں؟

محرم اینجہ: میں ایک عرصے سے ترک عوام کو زرعی پیداوار بڑھانے کی ضرورت کے بارے میں خبردار کر رہا ہوں۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمارا مسئلہ صرف دکانوں کا نہیں بلکہ زرعی اور جانوروں کی افزائش والی زمینوں کا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ اگر پیداوار کا مسئلہ حل نہ ہوا اور زراعت کے شعبے کو سپورٹ نہ کیا گیا تو روٹی، گوشت، ڈیری مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی اور مہنگائی کا مسئلہ جاری رہے گا۔ بدقسمتی سے، زلزلے اور معاشی مسائل کے بارے میں میری پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ ہماری جماعت نے زرعی پیداوار کے حل پر ایک رپورٹ تیار کی تھی۔کاش وہ اس رپورٹ پر توجہ دیتے۔ حکمران جماعت ملکی پیداوار کی بجائے درآمدات پر توجہ دیتی ہے۔ ترکی میں مہنگائی کو کم کرنے کے لیے کیے گئے معاشی اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی اداروں پر اعتماد بحال کیا جائے، خاص طور پر قانون پر اعتماد۔ کوئی بھی ایسے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرتا جہاں تمام فیصلے ایک شخص کرتا ہے کیونکہ وہ خود کو اور اپنی سرمایہ کاری کے بارے میں محفوظ محسوس نہیں کرتا۔

مہر نیوز: ایران کے ساتھ تعلقات کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ ایران کے قریب ہونے کے لیے آپ کن اجزاء کو کارآمد سمجھتے ہیں؟

محرم اینجہ: 1639 میں قصر شیرین کے معاہدے کے بعد سے ہمسایہ ملک کے طور پر ایران کے ساتھ ہماری سرحدیں غیر تبدیل شدہ ہیں۔ ترکی اور روس کی طرح ایران بھی اہم علاقائی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ مشرق وسطیٰ اور قفقاز کے مسائل کے حل کے لیے علاقائی تعاون کا قیام ضروری ہے۔ اتاترک نے ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ انہوں نے علاقائی استحکام اور سرحدی سلامتی کے لیے سعد آباد معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے۔ دنیا اور مشرق وسطیٰ کی ترقی اور علاقائی عدم استحکام ایک جیسے تعلقات کے قیام کا متقاضی ہے۔ اس کے علاوہ، ہم ایران کی سماجی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔

مہر نیوز: آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کشیدگی ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئی ہے جو علاقائی بحران کا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔ آپ کے خیال میں اس کشیدگی کا حل کیا ہے؟

محرم اینجہ:آرمینیا، جس نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آزادی حاصل کی، ہمارا سرحدی پڑوسی ہے جس کی آبادی تقریباً 30 لاکھ ہے۔ ترکی اور آرمینیا کے درمیان تعلقات معمول پر آنے سے اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی جو آرمینیا کے مفاد میں ہے۔ تاہم، دوسری کاراباخ جنگ کے بعد شروع ہونے والے معمول کے عمل کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ آرمینیا ترکی اور آذربائیجان کی جغرافیائی سالمیت کا احترام کرے۔ آرمینیا کو یورپ میں موجود آرمینیائی باشندوں کے اثر و رسوخ سے آزاد ہوکر پڑوسی ممالک کے تئیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیے۔ آذربائیجان اور ترکی دو ریاستیں اور ایک قوم ہیں۔

مہر نیوز: شام کے بارے میں آپ کا کیا منصوبہ ہے؟ کیا آپ اب بھی شام میں اپنی موجودگی جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں یا ترکی میں فوجی موجودگی میں کمی سے اس ملک کے بحران کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے؟

محرم اینجہ: ہم شام کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے۔ جب تک شمالی شام میں حکومتی عمل درامد کا خلا اور ترکی کے خلاف دہشت گردی کا خطرہ برقرار رہے گا، وہاں ہماری افواج شام میں رہیں گی۔ پہلے مرحلے میں ہم شامی مہاجرین کی واپسی، انسانی امداد، دہشت گردی کے مسئلے کے حل، پانی کے مسئلے اور دمشق حکومت کے ساتھ علاقائی تجارت جیسے معاملات پر بات کریں گے۔ جب تک دمشق حکومت علاقائی مسائل کے حل میں شریک ہے، مجھے جنیوا اور آستانہ کے عمل کو جاری رکھنے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ تاہم، ان ملاقاتوں میں ترکی کے تحفظات اور دلائل کو زیادہ اٹھایا جانا چاہیے، شام کی علاقائی سالمیت کو محفوظ رکھنا چاہیے، اور PYD جیسے عناصر، جنہیں دمشق حکومت منظور نہیں کرتی، کو مذاکرات میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔

مہر نیوز: ترکی کی حکمران طاقت روایتی طور پر کئی سال پہلے سے ترکی کی مذہبی برادری کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، ان دنوں سجادہ تنازعہ بھی حکمران جماعت کے پروپیگنڈے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ مذہبی طبقے کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا منصوبہ ہے؟

محرم اینجہ: ہماری جماعت کسی مخصوص گروہ کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر سکتی۔ ہم معقول اکثریتی جماعت ہیں۔ ہم نسلی، مذہبی اور صنفی امتیاز کے خلاف ہیں۔ ہم مذہب اور رائے کی آزادی، سوچنے اور اظہار رائے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک سیکولر اور جمہوری حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے۔ اسی لیے ہم طریقت اور اجتماعی گروہوں کو اجازت نہیں دیتے جو فتح اللہ گولن کی تنظیم سے ملتا جلتا ڈھانچہ رکھتے ہوں کہ وہ حکومتی ادارے میں دراندازی کریں۔ اس لیے ہم اپنے ملک کے سچے مومنین کے طرز زندگی اور عقائد کو محفوظ رکھیں گے۔

News ID 1915947

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha