مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے اہلبیت ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ آن لائن بین الاقوامی بیت المقدس کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرس کے دیگر شرکاء میں برطانیہ سے پادری فرینک گَیلی، ایران سے پروفیسر فواد ایزدی، پاکستان سے تجزیہ نگار مظہر برلاس، فلسطین سے محترم ڈاکٹر خالد قدومی و بیرسٹر بلیغ جبارا، پرتگال سے مفتی شیخ منیر اور پولینڈ سے سوشل ایکٹوسٹ سنڈریلا ملازی شامل تھیں۔
علامہ امین شہیدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین اور قدس کے موضوع کا تعلق کسی خاص معاشرہ، قومیت، زبان اور نظریہ سے نہیں بلکہ فلسطین انسانی موضوع ہے۔ بالکل اسی طرح، جس طرح مسجد اقصیٰ پر صہیونیوں کا قبضہ ایک انسانی موضوع ہے۔ ستر سال قبل جب صہیونی حکومت نے تشکیل پائی، تب سے لے کر اب تک فلسطین کی سرزمین سے مظلوم فلسطینیوں کو در بدر کر کے پوری دنیا میں منتشر کر دیا گیا۔ برطانیہ اور یورپ نے فلسطینیوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے صہیونی قبضہ کے ذریعہ اس سرزمین کو ان کے مرکز کے طور پر منتخب کیا، جس کے نتیجہ میں آج بھی لاکھوں فلسطینی شام، اردن، افریقی اور یورپی ممالک میں دربدر ہیں۔ اس کے باوجود جذبہ حریت نے فلسطینی قوم کو اب تک اپنے ہدف اور زمین کے ساتھ وابستہ رکھا ہوا ہے اور ہر روز بہنے والے خون کے باوجود ان کے حوصلہ اور ہمت میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ اس قوم کا چھوٹا سا بچہ بھی پوری طاقت اور قدرت کے ساتھ غلیل لے کر ٹینک، مشین گن، کلاشنکوف اور اسرائیلی فوجیوں کے سامنے پوری طاقت اور جذبہ ایمانی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
فلسطینیوں کی سب سے بڑی مظلومیت یہ ہے کہ ان کے بہتے ہوئے خون پر اقوام متحدہ میں موجود اقوام خاموش تماشائی نظر آتی ہیں جب کہ یورپ میں کوئی کتا بھی مارا جائے تو عالمی میڈیا اس پر خوب شور مچاتا ہے۔ فلسطین میں آئے دن صہیونی درندوں کے ہاتھوں انسانی خون بہتا ہے، ہر روز وہ گھروں کو مسمار اور نہتی آبادیوں پر حملہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یورپ، امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے کوئی رد عمل یا بیان نہیں آتا۔ عرب ممالک اور دیگر اقوام پر بھی بے حسی طاری ہے۔ ایک زمانہ تھا جب مسئلہ فلسطین کو عرب اسرائیل مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا اور عرب دنیا کسی نہ کسی طرح جنبش اور حرکت میں دکھائی دیتی تھی، لیکن آج وہ جذبہ بھی مفقود نظر آتا ہے۔ عجیب صورت حال ہے کہ بظاہر اسرائیل کو اپنا دشمن ماننے والی ریاستیں رفتہ رفتہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکی ہیں، چند ممالک میں اسرائیل کا سفارت خانہ بھی کھل چکا ہے۔ گویا انہوں نے اسرائیل کے فلسطین پر قبضہ اور صہیونیت کی غاصب حکومت کو قانونی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ وہ خواب جو امریکہ اور برطانیہ نے بورنیو معاہدہ کے نتیجہ میں دیکھا تھا، ہمیں اس کی عملی تعبیر آل سعود، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت کی پالیسیوں کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ لہذا ایسی صورتحال میں کون فلسطینیوں کی حمایت اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کی بات کرے گا؟ اور کون مسجد اقصیٰ کی حرمت کی پامالی پر لب کشائی کرے گا؟ حکومتیں تو یہ کام نہیں کریں گی کیونکہ ان میں اتنی ہمت نہیں ہے اور ان کی پالیسیز بھی عالمی اور اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی سے ہم آہنگ ہی۔ لہذا ایسے موقع پر لب کشائی مسلم عوام ہی کر سکتی ہے۔ ہر وہ قوم جس کے سینہ میں انسانیت کے لئے درد موجود ہے، بغیر تفریقِ مذہب، مسلک، دین اور جغرافیائی حدود کے فلسطینیوں کی مدد کرے۔
علامہ محمد امین شہیدی نے کہا کہ عالمی یومِ قدس کے موقع پر میں امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ہزاروں سلام عرض کرتا ہوں، جنہوں نے فلسطین کے موضوع میں نئی روح پھونکتے ہوئے رمضان المبارک کے آخری یومِ جمعہ کو فلسطینیوں اور بیت المقدس سے مخصوص قرار دیا۔ اِس روز پوری دنیا میں مظلوموں کی حمایت کا جذبہ رکھنے والے انسان چاہے وہ عیسائی ہوں، یہودی ہوں یا مسلمان، سب کے سب گھروں سے نکل آتے ہیں۔ ظلم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کرنا انسانی فطرت ہے۔ اس حوالہ سے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہر مسلمان فلسطین کی حمایت میں زبان و قلم سے لب کشائی کرے۔ اس حوالہ سے یہ آن لائن کانفرنس انتہائی خوبصورت اور انسان دوستانہ قدم ہے۔ اس طرح کی کانفرنسز انسانوں کو بیدار کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ گزشتہ ایام میں صہیونی فورسز نے مسجد اقصیٰ میں جوتوں سمیت داخل ہوکر اس کی حرمت کو پامال کیا، چھوٹی چھوٹی بچیوں پر رحم نہ کیا، نہتے روزہ داروں اور نمازیوں پر گولیاں چلائیں حتی کہ نمازیوں کو نماز کی حالت میں دھکے دے کر نکالا اور مسجد میں تالا لگانے کی کوشش کی.یہ سب بنیادی ترین انسانی حقوق سے انحراف اور ان کی بدترین پامالی ہے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارہ کا خاموش رہنا قابلِ مذمت ہ۔ اگر وہاں فلسطینیوں کی حمایت اوراسرائیلی اقدامات کے خلاف قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی جائے تو امریکیوں کا فوری طور پر اس قرارداد کو روک دینا اور یورپ و برطانیہ کا اس اقدام کی حمایت کرنا ظلم میں شریک ہونے کے مصداق ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ایسی حکومتوں، عالمی اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کے پیچھے چھپے ہوئے درندوں کے بھیانک چہروں کو بے نقاب کیا جائے.
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ تمام امتیازات (خواہ وہ جغرافیائی، دینی، نظریاتی یا رنگ و نسل کی بنیاد پر ہوں) سے بالاتر ہوکر فلسطینیوں کی حمایت، مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لئے مظلوم کا ساتھ دینا انسانیت کی خدمت اور ان سے یک جہتی کے اظہار کا بہترین طریقہ ہے. ہماری سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ایسے موقع پر ہم زندہ ہونے کا ثبوت دیں۔ صرف ٹی وی اسکرین پر مظالم کو دیکھ کر کفِ افسوس ملنا کافی نہیں بلکہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا، سوئے ہوئے لوگوں کی غیرت کو بیدار اور ظالم سے نفرت کا احساس پیدا کرنا اور مظلوم کی حمایت کے لیے انسانوں کو ذہنی طور پر آمادہ کرنا ہماری انسانی اور نظریاتی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم خاموش رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں اور جنگل کے جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہماری فکر اور ضمیر کو آزاد ہونا چاہیے اور آزاد فکری کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں انسان پر ظلم ہو تو اس کے عقیدہ، رنگ اور نسل سے بالاتر ہو کر آواز بلند کرنی چاہیے۔ ہم سب کو ہم آواز ہو کر یوم القدس پر بیت المقدس کی آزادی کے عالمی ایجنڈہ کا حصہ بننا چاہیے اور یہ بھی چاہیے کہ فلسطینیوں اور مسجد اقصیٰ سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہم بیدار انسان ہونے کا ثبوت دیں۔
آپ کا تبصرہ