مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے دارالحکومت تہران میں اس ہفتے کی نماز جمعہ کے خطبوں سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام محمد جواد حاج علی اکبری نے عورت کے تصور کو ایک نیا شعور دلانے کے لیے اسلامی انقلاب کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے تین مہینوں کی فتنہ انگیزیوں کی کہانی میں معاشرے کو جتنے مادی اور روحانی نقصانات پہنچے ان میں سب سے اہم اور نمایاں نقصان مقدسات کو پامال کرنا اور خواتین کے مقام کی بے حرمتی بالخصوص عفت و حجاب کی حرمت کو پامال کرنا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور بین الاقوامی صہیونیت کی سرکردگی میں جدید جاہلیت قدیم جاہلیت کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے جو خواتین پر ظلم و جبر اور عورتوں کی شناخت کو زندہ دفن کرنے میں ماہر اور استادِ کل ہے۔
تہران کی نماز جمعہ کے خطبیب نے کہا کہ تاہم اس بار وہ خواتین کی آزادی، حقوق نسواں کے دفاع اور شیطانی چالوں کے جھنڈے خود خواتین کے تھما کر میدان میں اترے۔ اس کا پہلا شکار خود مغرب کی عورت تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ مغرب والوں نے اس تباہ کن سیلاب کو دوسرے ملکوں کی جانب دھکیلا اور لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے کچھ حصوں میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا سوائے ان جگہوں کے جہاں مقامی ثقافتوں نے مزاحمت کی بالخصوص اسلامی علاقوں میں۔
حجۃ الاسلام علی اکبری نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی برکت سے ایران میں خواتین کے تشخص کی وہ لہر جو ظالم ﴿شاہ کے دور﴾ کے دور میں شروع ہوئی تھی اور اس کے سرکاری پروگراموں میں شامل تھی، رک گئی اور ایرانی قوم نے خالص محمدی اسلام کا پرچم بلند کر کے فاطمی تشخص کی طرف واپس پلٹنے کو اپنا نصب العین بنایا لیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی انقلاب نے اس حوالے سے انسانیت سامنے ایک نئی تعبیر، ایک نیا اور انقلاب آفریں نظریہ رکھا۔ اس نئے نظریے نے ایرانی مسلمان خاتون کے ماڈل کی شکل میں حقیقت کا روپ دھارا اور مشرقی اور مغربی ماڈلز کے مقابلے میں عورت کے لئے تیسرا ماڈل پیش کیا۔
تہران کے امام جمعہ نے زور دے کر کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ایرانی مسلمان خاتون کے بارے میں خوبصورت تعبیر نے دنیا کی خواتین کے لیے ایک نئی تاریخ کا دورازہ کھول دیا اور ثابت کیا کہ عورت رہ کر، پاکدامن رہ کر، باوقار اور شریف رہ کر در عین حال معاشرے کے متن اور مرکز میں موجود رہنا ممکن ہے۔ خاندان کے مورچے کو پاکیزہ رکھا جاسکتا ہے اور سیاسی و سماجی میدان میں نئے مورچے بنائے جاسکتے ہیں اور عظیم و شاندار فتوحات سمیٹی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ہمیں اس عظیم اور شاندار تیسرے ماڈل کو مکمل طور پر حقیقت کا روپ دینے اور ایرانی ثقافت کو مغربی ثقافت کے شکوک و شبہات سے پاک کرنے کے لئے بہت طویل سفر طے کرنا ہے تاہم گزشتہ چار دہائیوں میں جو کچھ کیا گیا ہے وہ خواتین کے تشخص کو اونچا کرنے اور ان کی شخصیت کو نکھارنے میں ایک عظیم اقدام اور بہت بڑا کام ہے اور یہی مقدار اہل مغرب کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا، جو دیکھ رہے کہ خواتین کے بارے میں ان کی منطق اسلامی انقلاب اور فاطمی انقلاب کی منطق کی درخشانی اور چمک سے باطل ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس چمکتے ہوئے ماڈل نے خواتین کے بارے میں غالب مغربی منطق کو چیلنج کیا اور دنیا، خاص طور پر مشرق اور مغرب میں دنیا کے دور دراز حصوں میں تعلیم یافتہ خواتین کی اپنی جانب توجہ مبذول کرائی جو مغربی استعمار اور خواتین کے استحصال کے خلاف صف آراء ہوچکی ہیں۔
حجۃ الاسلام علی اکبری نے کہا کہ حالیہ واقعات میں ہم نے خواتین کے مسئلے میں انقلاب اسلامی کی منطق پر حملہ کرنے کی وسیع پیمانے پر کوشش دیکھی۔ البتہ انقلاب کے آغاز سے ہی ہم نے انحطاط پذیر مغربی ثقافت اور اس کی جانشین یعنی بین الاقوامی صہیونیت کے ساتھ اس تصادم کا مشاہدہ کیا اور ان حالیہ مہم جوئیوں اور فتنوں میں آپ نے دیکھا کہ انہوں نے تمام شیاطین کو متحرک کیا اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور اپنے خودفروختہ عناصر کو میدان میں لے کر آئے تاکہ اسلامی انقلاب کی منطق کے خلاف صف آرائی کر سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ انہوں نے ایران کے عظیم معاشرے اور ہماری خواتین کی طرف سے ایک بڑا "نہ" سنا۔ تاہم ڈھانچوں کی کمزوریوں خاص طور پر تعلیم و تربیت، رسمی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں، نیز بصری اور صوتی میڈیا کے شعبوں میں ہمیں جو مشکلات درپیش ہیں اور ورچوئل اسپیس میں جو بل بنائے گئے تھے اور ہیں ان کی وجہ سے اس شعبے میں نمایاں نقصان ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے حالات میں اب بھی ہماری امیدیں صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا (س) سے وابستہ ہیں۔
خطیب جمعہ نے زور دے کر کہا اس سال ایام فاطمیہ میں تمام خواتین اپنے اصلی اور فاطمی تشخص کی طرف لوٹ آئیں گی اور معصومیت، پاکیزگی اور حیاء کے مرکز کے ساتھ تجدید عہد کریں گی اور صرف حضرت صدیقہ طاہرہ ﴿س﴾ کا درخشاں نور ہی ہے جس کے ذریعے جدید جہالت کے اندھیرے مٹ جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا نقصان جو ہمارے معاشرے کو حالیہ فسادات میں پہنچا وہ ہمارے معاشرے میں جذباتی خلفشار اور احساسات کی ٹوٹ پھوٹ کا تھا۔
حجۃ الاسلام علی اکبری نے زور دے کر کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آج ہم ایک خطرناک فتنہ سے صابر ایرانی قوم کے فاتحانہ عبور کرنے کے ساتھ ساتھ استکبار اور منافقین کی ذلت آمیز شکست کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان بیچارے رسوائی کا منہ دیکھنے والوں نے کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا؟
انہوں نے مزید کہا کہ یہ خطرناک فتنہ جو شوم مغربی، عربی اور عبرنی تکون کی ریشہ دوانیوں اور ایک مکمل جنگ کے لبادے میں ہماری قوم سے مقابلے کے لئے آیا تھا تا کہ ہماری ترقی کے پہیے کو سست کرسکیں، خدا کے فضل سے پہلے کی طرح اسے شکست ہوئی، اگرچہ انہوں نے ہمیں بہت سے نقصانات بی پہنچائے۔
نماز جمعہ تہران کے عبوری خطیب نے مزید کہا کہ ان کے شیطانی تھنک ٹینکس سے خبریں آرہی ہیں کہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں شکست ہوچکی ہے اور ان کے ایجنٹوں نے انہیں اندر سے دھوکہ دیا جبکہ انہوں نے کتنے ڈالر خرچ کیے اور کتنی سہولیات فراہم کیں لیکن وہ ناکام ہوئے اور ہماری قوم جیت گئی۔
حجۃ الاسلام علی اکبری نے کہا کہ اب جبکہ فتنوں کا غبار بیٹھ چکا ہے ہمیں مسائل کو مزید گہرائی سے دیکھنا ہوگا اور نقصانات کا زیادہ درست اندازہ لگانا ہوگا، کمزور نکات کا جائزہ لینا ہوگا اور اندرونی مسائل کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ اب ان تحقیقات اور چھان بین کا وقت ہے جسے حکام، دانشوروں اور عوام کے ذریعے انجام پانا چاہئے اور ہمیں اپنی چوکسی بڑھانا ہوگی اور زخم کھائے ہوئے دشمنوں کی نئی سازشوں پر نظر رکھنی رکھنی ہوگی۔
آپ کا تبصرہ