مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی رہ کی بصیرت بھری قیادت میں امریکہ، صیہونی حکومت اور مغربی ممالک نے ایران کے خلاف متعدد سازشیں کیں، جن میں اقتصادی پابندیاں، حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش، جنگ اور ایرانی سیاسی حکام و سائنسی شخصیات کے قتل شامل تھے، تاکہ اسلامی نظام کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کمزور کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گرد گروہوں کو استعمال کیا اور اپنے شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ منافقین خلق (مجاہدین خلق) نے ایرانی شہریوں اور حکومتی عہدیداروں کے خلاف دہشت گردانہ مہم کی قیادت کی۔ دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں 17 ہزار سے زائد شہری شہید ہوگئے۔
صدارتی محل میں بم دھماکہ
1979 سے 1982 تک اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے سب سے خونریز سال رہے، کیونکہ ان سالوں میں سیاسی رہنما، نظریہ ساز اور علماء کے قتل کی سب سے زیادہ وارداتیں ہوئیں۔
29 اگست 1981 کو ایران مخالف دہشت گرد منافقین خلق نے تہران کے وسطی علاقے میں واقع وزیر اعظم محمد جواد باہنر کے دفتر میں بم دھماکہ کردیا۔ اس دھماکے میں سینئر ایرانی حکام شہید ہوئے، جن میں وزیر اعظم باہنر، صدر محمد علی رجائی، اور دیگر اہم حکام شامل تھے۔ دھماکے کے نتیجے عمارت کی پہلی منزلہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ شدید جلنے کے باعث لاشوں کی شناخت آسان نہیں تھی۔ صدر محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر کی شناخت ان کے دانتوں کے ذریعے ممکن ہوئی۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کشمیری نامی شخص منافقین خلق کا کارکن تھا، جس نے وزیر اعظم کے دفتر میں داخل ہونے کے لیے خود کو ریاستی حفاظتی اہلکار کے روپ میں پیش کیا تھا۔
اس دہشت گرد حملے سے دو ماہ پہلے 28 جون 1981 کو تہران میں اسلامی جمہوری پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں ایک اور بڑا اور مہلک بم دھماکہ ہوا، جسے ہفتِ تیر بم دھماکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس حملے میں ستر سے زائد سینئر ایرانی حکام شہید ہوئے، جن میں ملک کے چیف جسٹس محمد بہشتی بھی شامل تھے۔ اس دھماکے کا ذمہ دار بھی منافقین خلق کو ٹھہرایا گیا۔
ایران میں 29 اگست کو انسدادِ دہشت گردی کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اور اس ہفتے کو ایرانی کیلنڈر میں ہفتۂ حکومت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
منافقین خلق اور دہشت گردانہ مہم کی قیادت
مجاہدین خلق کو عالمی سطح پر اکثر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد اس دہشت گرد تنظیم نے ایران میں تخریبی کاری شروع کی اور ایرانی شہریوں اور حکومتی اہلکاروں کے قتل سمیت دہشت گردانہ سرگرمیوں میں حصہ لیا، جس کے نتیجے میں 17 ہزار سے زائد ایرانی شہید ہوئے۔
1986 میں ان کے ارکان ایران سے فرار ہو کر عراق پہنچ گئے، جہاں تنظیم کی سربراہ مریم رجوی اور مسعود رجوی سابق عراقی آمر صدام حسین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ گروہ بعثی فوج کے ساتھ مل کر اپنے ہم وطن ایرانیوں کے خلاف لڑا اور ان کے ایجنٹوں نے 1980 سے 1988 تک صدام کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران متعدد ایرانی شہریوں اور حکومتی اہلکاروں کے قتل کیے۔
صدام کی ایران کے خلاف جنگ میں منافقین خلق کے ارکان نے عراق کو خفیہ معلومات فراہم کیں اور اپنی ایک فوج کے ساتھ ایران پر عسکری حملے بھی کیے۔
صدام کے بعثی حکومت نے انہیں دیالی صوبے میں ایک کیمپ فراہم کیا، جہاں انہیں تربیت دی جاتی اور دہشت گردانہ منصوبے بنائے جاتے تھے، جن میں نہ صرف عراقی بلکہ اپنے ہم وطن ایرانیوں کے خلاف کارروائیاں بھی شامل تھیں۔
2003 میں امریکی حملے کے بعد جب صدام کی حکومت ختم ہویی تو تنظیم کے باقی ماندہ ارکان کو عراق میں مقامی آبادی کی شدید نفرت کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہ سابق صدام حکومت کے ساتھ تعاون کرتے رہے تھے۔ اس لیے ان کے امریکی اور یورپی حامیوں نے انہیں مستقبل میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کے لیے البانیہ میں ایک نئے کیمپ میں منتقل کردیا۔
مغربی ممالک منافقین خلق کے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ
2012 میں امریکی محکمہ خارجہ نے منافقین خلق کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا، جو سعودی عرب اور دیگر ایران مخالف حکومتوں کے زیر اثر شدید لابی کے نتیجے میں ہوا۔ گذشتہ چند سالوں میں امریکہ اور فرانس نے علانیہ طور پر اس دہشت گرد تنظیم کی حمایت کی ہے۔
اپنے شوہر کی مشکوک اور غیر متوقع موت کے بعد تنظیم کی قیادت سنبھالنے والی تنظیم کی موجودہ رہنما مریم رجوی نے امریکہ کے اعلی حکام بشمول سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں۔ انہوں نے فرانس میں بھی اجلاس منعقد کیے، جن میں امریکہ کے اعلی حکام نے شرکت کی۔
اس دہشت گرد تنظیم کے کئی ارکان اور رہنما اب فرانس میں رہائش پذیر ہیں اور آزادانہ طور پر اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
اب یہ ارکان مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور فرانس کی سرپرستی میں اپنے وطن ایران کے خلاف منصوبہ بندی اور کارروائیاں کررہے ہیں۔
مغربی دہشت گردی اور ایرانی سائنسدانوں کی شہادت
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں، بڑے ایرانی جوہری سائنسدان CIA اور موساد کی زیر سرپرستی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔
2010 سے 2012 کے درمیان چار اہم ایرانی جوہری سائنسدان مسعود علی محمدی، مجید شهریاری، داریوش رضائینژاد، اور مصطفی احمدی روشن بے رحمانہ طور پر شہید کیے گئے، جبکہ ایک اور سائنسدان فریدون عباسی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔
27 نومبر 2020 کو ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر محسن فخری زادہ، تہران کے مشرقی مضافات میں شہید کردیے گئے۔ دہشت گردوں نے ڈاکٹر فخری زادہ کے قافلے پر حملہ کرنے کے لیے جدید ہتھیار اور پیچیدہ طریقے استعمال کیے۔
ایران کے خلاف دہشت گردانہ حملوں نے نہ صرف ملک کے نظم و نسق کو چیلنج کیا بلکہ اسلامی انقلاب کی بقا کے لیے بھی سخت مشکلات ایجاد کیں۔ خاص طور پر مغربی حمایت یافتہ منافقین خلق نے ایران کی سلامتی اور ترقی کے لیے خطرہ پیدا کیا۔
ان تمام مشکلات اور دشمنانہ کارروائیوں کے باوجود ایران میں اسلامی انقلاب مضبوطی سے برقرار رہا اور ملک کی ترقی اور خودکفالت کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ دشمن کے اقدامات نہ صرف عوام میں خوف پیدا کرنے میں ناکام رہے بلکہ ان اقدامات نے قومی اتحاد اور اجتماعی عزم کو مزید مستحکم کیا۔ ہر حملے کے بعد ایرانی قیادت اور انقلاب پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا، جس نے یہ واضح کر دیا کہ بیرونی دباؤ اور دہشت گردانہ کارروائیاں قوم کے حوصلے کو نہیں توڑسکتیں۔
خطرات کے باوجود قوم کی عزم و حوصلے نے ملک کو مضبوط، انقلاب کو مستحکم اور اسلامی نظام کو ناقابل تسخیر بنایا ہے۔ یوں دشمن کی سازشیں عوامی یکجہتی، اعتماد اور انقلاب کے استحکام کے لیے غیر ارادی طور پر محرک ثابت ہوئی ہیں۔
آپ کا تبصرہ