مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے پیر کی رات ایران کے قومی ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو میں مغربی سفارت کاری کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے 2015 کے ایٹمی معاہدے کو 2018 میں یکطرفہ طور پر ختم کر کے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔ اس کے بعد یورپی ممالک نے بھی امریکہ کی پیروی کی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس معاہدے کی ناکامی کا ذمہ دار ایران ہے۔
لاوروف نے زور دیا کہ ایران نے کبھی بھی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی، لیکن مغرب نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے دھوکہ دہی کا سہارا لیا۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے اگست میں سنیپ بیک میکانزم کے ذریعے پابندیاں بحال کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ دھوکہ دہی کے ذریعے ایران پر پابندیاں بحال کرنے کا فیصلہ یورپی سفارت کاری پر ایک بدنما داغ ہے۔ شریف اور ایماندار سفارت کار ایسے کام نہیں کرتے، یہ رویہ جعل سازوں اور چوروں کا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا روس کسی بڑے فوجی تنازع کی صورت میں ایران کا ساتھ دے گا، تو لاوروف نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہمارا ایران کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کا معاہدہ ہے اور ہم تہران اور اس کے قانونی حقوق کی حمایت جاری رکھیں گے۔
انہوں نے روس کی جانب سے ایران اور عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے درمیان مسائل حل کرانے میں مدد کی پیشکش بھی کی۔
لاوروف نے انکشاف کیا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے متعدد بار ایرانی صدر مسعود پزشکیان کو یقین دلایا ہے کہ روس بین الاقوامی فورمز پر وہی موقف اپنائے گا جو رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے چنا جائے گا اور جو ایرانی عوام کے بہترین مفاد میں ہوگا۔
آپ کا تبصرہ