مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ایران کی جانب سے قم، اصفہان اور نطنز میں پر امن ایٹمی تنصیبات پر حملے کے جواب میں ایران نے قطر میں خطے میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے پر چند میزائل داغے؛ اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو ختم کرنے یا ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی بے تکی بات کی تھی، اپنے فوجی اڈے پر حملہ کے بعد ٹرمپ نے فوری طور پر اپنا لہجہ بدلا اور خطے میں جنگ بندی اور کشیدگی کے خاتمے کی ضرورت پر بات کی۔
اسی اثنا میں ٹرمپ کے بیانات کی اچانک اور پے در پے تبدیلیاں بین الاقوامی حلقوں میں طنز کا باعث بنے، اس نے تل ابیب اور تہران کے مابین جنگ بندی کی خواہش کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ 24 جون کی صبح سات بجے جنگ بندی ہوگی۔ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی صیہونی حکومت نے ایک اور غلط اندازے کے ساتھ سوچا کہ جنگ بندی سے پہلے آخری گھنٹوں میں حملوں کی بوچھاڑ کرکے جنگ میں فتح اپنے نام کر ے گی۔
جنگ بندی کے آخری گھنٹوں میں ہونے والے حملوں کے بعد، اسلامی جمہوری کی مسلح افواج کا آپریشن وعدہ صادق 3 کا آخری مرحلہ جنگ بندی سے دو گھنٹے قبل شروع ہوا اور آخری لمحات تک جاری رہا، جس کے ساتھ مقبوضہ علاقے میں غیر معمولی جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے۔
مقبوضہ علاقوں میں داخلی طور پر لاچاری کی فضا قائم ہوئی
اگرچہ نتن یاہو نے اپنی کابینہ کو جنگ بندی کے بارے میں کسی بھی قسم کا بیان جاری کرنے سے منع کیا تھا، صیہونیوں کے غلط اندازے نے ان کے لیے معاملات کو اس حد تک پیچیدہ کر دیا کہ صیہونی حکومت کی کئی سابقہ اعلیٰ شخصیات اور بین الاقوامی مبصرین نے جنگ کے خاتمے کو ایک انتہائی تلخ واقعہ اور نتن یاہو اور اسرائیل کے لیے ایک افسوسناک سانحہ قرار دیا۔
اسرائیل کے سابق وزیر اور "اسرائیل ہمارا گھر" نامی تنظیم کے سربراہ ایویگڈور لائبرمین نے ایک بیان میں کہا کہ کسی خاص معاہدے کے بغیر جنگ بندی ہمیں اگلے دو یا تین سالوں کے لیے ایک اور جنگ کی طرف لے جائے گی جس میں بہت زیادہ خراب حالات میں ہوسکتے ہیں۔ لائبرمین نے مزید کہا کہ ایران یورینیم افزودگی اور میزائیل بنانے کے عمل کو نہیں روکے گا۔
اسرائیلی ٹی وی کے چینل 12 نے بھی یہ خبر شائع کی کہ اسرائیل میں لگائے گئے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے ابھی تک اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اور خطرناک ہتھیار استعمال نہیں کیے ہیں۔ بھاری میزائل جو ایک ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد لے جاسکتے ہیں اور کروز میزائل جن کو ٹریک کرنا اور روکنا مشکل ہوتا ہے۔
صہیونی اخبار معاریو نے بھی اعتراف کیا: ایران اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر جنگ سے نکل رہا ہے
اسرائیلی فوج کی ریزرو فورسز کے ایک جنرل ٹام سامیہ نے بھی کہا: یہ ایران تھا جس نے صورتحال پر قابو پالیا اور جنگ بندی کا وقت مقرر کیا۔ انہوں نے مزید کہا: ہم نے صرف چند سال کا امن خریدا وہ بھی بہت گراں قیمت پر اور آنے والی نسلوں کے لیے بڑی تکلیف میں مبتلا کرکے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ 12 دنوں سے جاری جنگ کی صورت حال ایسی نہیں تھی جیسا کہ صیہونیوں نے منصوبہ بنایا تھا۔ تل ابیب کا خیال تھا کہ اس کی ابتدائی فوجی کارروائی سے وہ ایران کے اندرونی حالات کو تبدیل کردے گا اور چند ہی دنوں میں اسلامی جمہوری حکومت بیرونی حملوں پر قابو پانے میں ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی حالات پر بھی اپنا کنٹرول کھو بیٹھی گی اور تباہی کے قریب پہنچ جائے گی۔ایران کے مختلف علاقوں پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں اور تہران اور ایران کے دیگر شہروں میں موجودہ حالات کی مخالفت میں عوامی اتحاد اور عوامی اتفاق ایک ایسا مسئلہ تھا جس کا صیہونی تجزیہ نگار صحیح اندازہ لگانے سے قاصر تھے۔ جو ہوا اس کے بالکل برعکس ہوا اور ایران نے ابتدائی دھچکا لگنے کے بعد 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے میں اپنا فوجی آپریشن شروع کر دیا۔
دوسری جانب امریکی اور صیہونی حلقوں کے مطابق ایران کے میزائل ہتھیاروں کی صلاحیت امریکہ اور صیہونی حکومت کے تصور سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ ایسے وقت میں تھا کہ جب امریکی اور صیہونی فضائی دفاع کا چرچا تھا ۔جن کا دعوا ان کے عسکری حکام نے بھی کیا تھا، اس کے باوجود وہ ایران کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہے۔
صیہونیوں کی ایک اور تشویش ایرانی میزائلوں کی بڑی مقدار اور تعداد تھی، جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ جنگ کی طوالت ایران کے عسکری ساختار کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرے گی۔ یہ امر امریکی میڈیا کی ان رپورٹوں کے برعکس تھا جس میں صیہونی حکومت کے فضائی دفاعی نظام کو میزائلوں کی شدید کمی کا سامنا تھا۔
ایرانی میزائلوں کا درست نشانہ پر لگنا اور رفتار میں اضافہ اور صیہونی اہداف کو نشانہ بنانے کی تیز رفتاری نے جو جنگ کے آغاز کے بعد سے گزشتہ چند دنوں سے بڑھ رہی تھی، صیہونیوں کے لیے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا، یہاں تک کہ اس حکومت کے وجود کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی سنسر شپ نافذ کی گئی تاکہ اسرائیل میں آپریشن وعدہ صادق3 کی تباہ کاریوں کی نشریات کو روکا جا سکے۔
مذکورہ تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران جنگ کو بڑھانے کے لیے پوری طرح تیار تھا، لیکن امریکی میڈیا کی رپورٹس نے جنگ میں شدت لانے کے لیے عوام اور صیہونی حکومت کے رہنماؤں کی لچک کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ بدلتی ہوئی صورت حال نے نتن یاہو کو ایک بند گلی میں ڈال دیا، جس سے نکلنے کا واحد راستہ امریکہ کے لیے براہ راست جنگ میں داخل ہونا تھا۔ تاہم گزشتہ چند مہینوں کی پیش رفت، خاص طور پر یمن کی جنگ سے امریکہ کے اچانک اور یکطرفہ انخلاء سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایسی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا جس سے خطے میں اس کے فوجی اہلکاروں کی جانوں کو خطرہ ہو۔
ایران کی پر امن ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے میں امریکیوں کے غلط اندازے کے مطابق ان کا خیال تھا کہ ایران اس حملے سے ہتھیار ڈال دے گا اور صیہونی حکومت کی مسلسل جارحیت اور یورینیم افزودگی کو روکنے کی روشنی میں مذاکرات جاری رکھنے پر راضی ہو جائے گا۔ لیکن اس طرح کی خام خیالیاں صرف قیاس آرائیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطر میں امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے کے فوراً بعد ٹرمپ کا لہجہ بدل گیا اور انہوں نے فوری جنگ بندی کا معاملہ اٹھایا۔
جنگ کے خاتمے کا تعین ایران کرے گا
صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا تھا، صیہونیوں کی ایک "غلطی" سے شروع ہوئی، لیکن اس جنگ کے خاتمے کا تعین ایرانی مسلح افواج کرے گی۔ ابھی بھی امریکی اور صیہونی دشمن کی کسی بھی نئی سٹریٹیجک غلطی کا اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آئے گا اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اس جنگ کا جاری رہنا نتن یاہو اور ٹرمپ کے لیے بہت زیادہ خوفناک اور تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ اسلامی جمہوری ایران کی جیت یقینی ہے۔
آپ کا تبصرہ