27 جون، 2025، 3:42 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ، اسرائیل کی دفاعی ناکامی نے امریکہ کو میدان میں اترنے پر مجبور کردیا

ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ، اسرائیل کی دفاعی ناکامی نے امریکہ کو میدان میں اترنے پر مجبور کردیا

ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ میں صہیونی حکومت کی ناکامی اور ایران کے شدید میزائل حملوں کے بعد امریکہ کو میدان میں اترنا پڑا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ شدید جنگ کے بعد اگرچہ جنگ تھم چکی ہے، لیکن بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے لیے یہ سوال اب بھی اہم ہے کہ امریکہ نے اس جنگ میں براہِ راست مداخلت کا فیصلہ کیوں کیا؟

تجزیاتی رپورٹس کے مطابق، امریکی مداخلت صرف اسرائیل کی روایتی حمایت تک محدود نہیں تھی، بلکہ اس کی بنیاد تل ابیب کی دفاعی کمزوری، طویل جنگ کے خدشے اور خطے میں طاقت کے توازن کی ایران کے حق میں تبدیلی کے خوف پر تھی۔

اسرائیلی دفاعی افسانے کا خاتمہ

اسرائیل نے دہائیوں تک خود کو ناقابل تسخیر دفاعی طاقت کے طور پر پیش کیا، جس کی بنیاد آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ اور ایرو جیسے جدید دفاعی نظاموں پر تھی۔ لیکن ایران کے ہمہ جہت حملوں نے ان تمام نظاموں کو مفلوج کردیا جن میں کروز، بیلسٹک میزائل، ڈرونز اور خلیج فارس سے بحری حملے شامل تھے۔

جنگ کے تیسرے دن ہی تل ابیب، حیفا، عسقلان اور ڈیمونا جیسے اہم شہروں پر ایرانی میزائلوں نے براہ راست حملے کیے، جن سے بجلی کی ترسیل، ایندھن کے ذخائر، صنعتی تنصیبات اور فوجی اڈے شدید متاثر ہوئے۔ بن گوریان ایئرپورٹ کی بندش اور حیفا میں بجلی کی مکمل بندش نے اسرائیلی عوام اور مغربی حامیوں کو ذہنی صدمے سے دوچار کردیا۔

اگرچہ اسرائیلی حکام نے اعداد و شمار کو کم ظاہر کیا، لیکن وزارت صحت کے مطابق 28 افراد ہلاک، 1600 سے زائد زخمی اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق، 7 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا، جس میں ٹیلی کمیونیکیشن، دفاعی صنعت، پاور پلانٹس اور دیگر بنیادی ڈھانچے شامل ہیں۔

 موساد کی ناکامی اور عوامی ردعمل

امریکی انٹیلیجنس کی مدد کے باوجود موساد اور دیگر اسرائیلی ادارے حملوں کی شدت، دقت اور ہم آہنگی کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اسرائیلی کابینہ نے دفاعی ناکامی پر عوامی سطح پر ہنگامی اجلاس بلایا۔ عوامی سطح پر بھی شدید ردعمل سامنے آیا اور تل ابیب، رامات گن اور بیرشوا میں مظاہرے ہوئے جن میں نعرے لگائے گئے کہ ہمیں جھوٹ بولا گیا، ہم محفوظ نہیں ہیں۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ نے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی اسرائیل کی دفاعی اور اسٹریٹیجک کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا۔ برسوں سے خود کو ایک خودکفیل اور ناقابل تسخیر طاقت کے طور پر پیش کرنے والا اسرائیل، اس جنگ میں امریکہ کی مکمل تکنیکی، انٹیلیجنس اور آپریشنل مدد کے بغیر بے بس نظر آیا۔

جنگ کے ابتدائی 48 گھنٹوں میں اسرائیلی فوج نے جارحانہ بیانات اور میڈیا پر طاقت کے مظاہروں کے ذریعے عوامی رائے کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی، لیکن ایران کے مربوط، دقیق اور کثیرالجہتی حملوں نے تل ابیب کے تمام اندازے غلط ثابت کر دیے۔ نقب کے دو اہم فوجی اڈوں اور حیفا کے پاور پلانٹ پر ایرانی میزائل اور ڈرون حملوں نے اسرائیلی فوج کو کئی اہم علاقوں میں عملی طور پر مفلوج کردیا۔

جیسے جیسے حملے جاری رہے، آئرن ڈوم اور دیگر دفاعی نظاموں کے ذخائر ختم ہونے لگے، تو اسرائیلی حکام نے پینٹاگون سے فوری اسلحہ اور انٹیلیجنس مدد کی درخواست کی۔ چوتھے دن، اسرائیلی اخبار ہاآرٹز نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوج اور امریکی سینٹکام کے ایک ہنگامی اجلاس میں درجنوں دفاعی نظام، اینٹی ڈرون سسٹمز، تامیر میزائل اور دفاعی ڈرونز کی فوری فراہمی کی درخواست کی گئی۔ چند گھنٹوں بعد امریکی فوجی طیارے جرمنی کے رامشٹائن اڈے سے جدید سازوسامان لے کر اسرائیل پہنچے۔ یہ لمحہ اسرائیل کی دفاعی خودمختاری کے خاتمے کی علامت بن گیا۔

علاوہ ازیں آزاد انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق ایران کے میزائلوں کی 70 فیصد شناخت اور روک تھام امریکی جاسوسی سیٹلائٹس کی مدد سے کی گئی۔ سیاسی اور نفسیاتی سطح پر بھی اسرائیل کے اندرونی انحصار کا بحران شدت اختیار کرگیا۔ جنگی کابینہ نے بارہا اپنے بیانات میں امریکہ کی غیر متزلزل حمایت کا ذکر کیا، لیکن عوام بخوبی سمجھ چکے تھے کہ اسرائیل امریکہ کے بغیر جنگ جاری رکھنے کے قابل نہیں۔ فرانسیسی اخبار لوموند میں شائع ہونے والا ایک کارٹون، جس میں ایک اسرائیلی فوجی امریکی ڈھال کے پیچھے چھپا ہوا دکھایا گیا، اس عالمی ادراک کی عکاسی کرتا ہے۔

آخرکار، یہ جنگ صرف ایک فوجی مدد کی درخواست نہیں تھی، بلکہ اسرائیل کی اسٹریٹیجک بقا کی مکمل امریکی انحصار پر مہر تصدیق تھی۔

امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف جنگ میں براہ راست مداخلت کا فیصلہ دراصل ایک طویل، فرسایشی اور غیرقابل کنٹرول جنگ میں دھنسنے کے خوف کا نتیجہ تھا۔ واشنگٹن بخوبی جانتا تھا کہ ایران کے ساتھ جنگ، غیر ریاستی عناصر کے خلاف مختصر جھڑپوں کے برعکس، ایک مہینوں پر محیط بحران میں تبدیل ہو سکتی ہے جس کے علاقائی اور عالمی اثرات ہوں گے۔

ایران نہ صرف اپنی سرزمین پر وسیع فوجی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ خطے میں اتحادیوں کے ایک فعال نیٹ ورک کے ذریعے ایسی جنگ کو طول دینے کی غیر متوقع صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ پانچویں روز سے ہی جنگ کے طویل ہونے کے آثار نمایاں ہو گئے تھے۔ 

ایران کے دقیق میزائلوں کی مسلسل بارش، جنوبی لبنان میں الرٹ، عراق سے امریکی اڈوں پر راکٹ حملے، یمن کی انصاراللہ کی جانب سے باب‌المندب بند کرنے کی دھمکی اور اسرائیلی فوج کی تھکن، لاجسٹک دباؤ اور دفاعی نظام کی حد سے زیادہ مشغولیت کی وجہ سے پینٹاگون کی آٹھویں روز کی رپورٹ میں واضح طور پر خبردار کیا گیا کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو اسرائیل کی دفاعی صلاحیت دو ہفتوں میں تحلیل ہو جائے گی۔

امریکہ کی اسٹریٹیجک یادداشت میں افغانستان، عراق اور لیبیا کی مثالیں تازہ تھیں، جہاں چند روزہ مداخلتیں سالوں پر محیط بحرانوں میں بدل گئیں۔ اب یہی منظرنامہ مشرق وسطی کے قلب میں دہرانے کا خطرہ تھا، فرق صرف یہ تھا کہ اس بار مقابل ایک طاقتور ریاست تھی جس کے پاس میزائل اور ڈرون کی صلاحیت بھی تھی۔

بین الاقوامی اقتصادی اداروں نے بھی خبردار کیا کہ اگر یہ جنگ جاری رہی تو عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور حساس اشیاء کی سپلائی چین میں تعطل پیدا ہو سکتا ہے جسے واشنگٹن برداشت نہیں کر سکتا۔

میڈیا کے محاذ پر بھی اسرائیل کی مظلومیت کا بیانیہ ٹوٹ چکا تھا۔ اب وہ ایک ناکام اور کمزور حملہ آور کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جس نے امریکہ کو بھی سفارتی اور ابلاغیاتی دفاع میں کمزور کردیا۔

News ID 1933924

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha