مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سید عباس عراقچی نے آج صبح (اتوار 15 جون 2025ء) تہران میں تعینات غیر ملکی سفیروں کے ساتھ ملاقات میں کہا: آپ سب نے غزہ میں دیکھا کہ ءیہاں نہ صرف بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کیا گیا بلکہ انسانی حقوق، انسان دوستانہ حقوق، بین الاقوامی قوانین اور تمام بین الاقوامی معیارات کی بھی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی جارحیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس بار صیہونی ناجائز حکومت نے بین الاقوامی قانون میں ایک اور نئی سرخ لکیر کو عبور کیا، جو کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ تھا، جو بین الاقوامی قوانین کی رو سے نہایت سنگین خلاف ورزی اور جرم تصور کیا جاتا ہے اور کسی بھی حالت میں اس کی ممانعت ہے۔ بدقسمتی سے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس کی طرف بالکل توجہ نہیں دی گئی ۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اسرائیل کی جارحیت کےسلسلے میں مذمتی بیان جاری کرنے والے ممالک کے سربراہان بالاخص خطے کے ممالک کے سربراہان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ایران کے حق میں اسرائیلی جارحیت کی بھرپور انداز میں مذمت کی ۔عراقچی نے مزید کہا: البتہ ایسے ممالک بھی تھے جو یورپ کو مہذب اور بین الاقوامی قوانین کے پاسدار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن انہوں نے اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے ایران کو مورد الزام ٹھہرایا کہ کیوں ایران اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوا!
عراقچی نے زور دے کر کہا: ایران نے اسرائیلی جارحیت کا جواب دیااور یہ ردعمل اپنے دفاع کے اصول پر مبنی ہے جوبین الاقوامی تعلقات میں ایک مسلمہ اصول کے مطابق ہے۔ ہر ملک کو جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کا جائز حق حاصل ہے اور یہ وہی ہے جو ایرانی مسلح افواج نے دو رات پہلے شروع کیا تھا، اور کل رات آپ نے اس کی نئی جہتوں کا مشاہدہ کیا، البتہ دشمن کا دانت کھٹے کرنے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
عراقچی نے مزید کہا: ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں فوجی تنصیبات اور اقتصادی مراکز پر میزائل حملے کرنے کا مقصد صرف اپنے دفاع اور جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے، ایران نے اسرائیل کی جانب سے کی گئی جارحیت کی پہلی رات صرف فوجی اہداف پر غور کیا، لیکن چونکہ اسرائیلی حکومت نے کل ایران کے اقتصادی مراکز پر حملہ کیا اور تہران کی ریفائنری مرکز اور عسلویہ کے بعض علاقوں کو نشانہ بنایا اس لیے اسرائیل کے اقتصادی اور ریفائنری مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا: کل (مورخہ 14 جون 2025ء) ایران کے علاقہ عسلویہ پر ہونے والا حملہ ایک صریح جارحیت اور انتہائی خطرناک عمل تھا۔ تنازعات کےدائرہ کار کوخلیج فارس کے علاقے تک لانا ایک بڑی سٹریٹجک غلطی ہے جس کا شاید جان بوجھ کر اور مکمل ارادے کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے اور اس کا مقصد جنگ کو ایرانی سرزمین سے باہر لے جانا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: خلیج فارس کا علاقہ ایک انتہائی حساس اور پیچیدہ خطہ ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی جنگی صورت حال پورے منطقے بلکہ پوری دنیا کو متاثر کر سکتی ہے اور یہ وہ اقدام ہے جس کا آغاز صیہونی حکومت نے کل(14 جون) کیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ عالمی برادری ان جرائم اور جارحیت کو روکنے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرے گی۔
عراقچی نے صراحت کے ساتھ کہا کہ جمہوریہ اسلامی ایران اپنی طاقت کے ساتھ اپنے جائز دفاع کو جاری رکھے گا نیز ایرانی مسلح افواج مقتدرانہ طور پرمیں اپنے فرائض کو انجام دیں گی۔
وزیر خارجہ نےکہا: یایران کے نطنز ایٹمی تنصیبات پر حملے کے بارے میں ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل سے اس معاملے پر ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کرنے کی درخواست کی ہے، جو پیر(16 جون) کو منعقد ہوگا، امید کرتے ہیں کہ بورڈ آف گورنرز بین الاقوامی قوانین کی اس سنگین خلاف ورزی اور جوہری تنصیبات پر حملے پر صیہونی حکومت کی سخت مذمت کرے گا۔
سید عباس عراقچی نے کہا: میں ان معزز سفیروں سے درخواست کرتا ہوں جن کے ممالک بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کے رکن ہیں، اپنے دارالحکومت کو یہ پیغام دیں کہ جمہوریہ اسلامی ایران اور عالمی برادری یہ توقع رکھتے ہیں اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی شدید مذمت کریں اور صیہونی حکومت کو اس جارحیت کی سزا دی جانے کا مطالبہ کریں ۔ اس دفعہ اسرائیل ریڈلائن کراس کرنے میں کچھ حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے اگر عالمی برادری اس سے لاتعلق رہے تو یقیناً دیگر تمام ممالک کوبھی اس کے نتائج بھگتنے ہونگے۔
عراقچی نے اپنے بیان کہا: ہماری رائے کے مطابق جمہوریہ اسلامی ایران کے خلاف اسرائیلی حکومت کی جارحیت امریکہ کی موافقت اور اس کی حمایت کے بغیر کبھی نہیں ہو سکتی تھی۔ ایران کے پاس امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کو امریکی افواج کی حمایت اورخطے میں امریکی اڈوں کی موجودگی کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
عراقچی نے مزید کہا: ایران نے پہلے بھی بغور مشاہدہ کیا ہے اور مشاہدہ کرتا آیا ہے کہ بہت سے شواہد موجود ہیں کہ امریکی افواج نے صیہونی حکومت کی کس طرح مدد کی لیکن ہمارے ثبوتوں سے زیادہ اہم امریکی صدر کے بیانات ہیں جنہوں نے کل اپنے ٹویٹس اور انٹرویوز میں واضح طور پر اسرائیل کو اپنی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ امریکی سازوسامان کے بغیر ممکن نہیں تھا اور واضح طور پر کہا کہ یہ حملے مزید مراحل میں داخل ہونے والے ہیں۔ ان تمام باتوں کے تناظر میں جمہوری اسلامی ایران کی نظر میں امریکہ اس جارحیت میں برابر کے شریک ہے اور اسے اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا البتہ صیہونی حکومت کے حملوں کے جواب میں ہم نے اپنی توجہ صیہونی حکومت کے اندر کے اہداف پر مرکوز کی۔ ہم نہیں چاہتے کہ جنگ دوسرے ممالک یا خطے میں پھیلے۔ لیکن اگر ایران پر جنگ مسلط کی گئی تو جواب ضرور دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا: "ایران اصولی طور پر کسی ملک کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا تھا، بلکہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے سفارت کاری میں مصروف تھا، لیکن یہ جارحیت ایران پر مسلط کی گئی، لہذا ہم اپنا دفاع کررہے ہیں جو کہ ایک مکمل طور پر جائز دفاع ہے اور ہم اختیار کے ساتھ دفاع کررہے ہیں، اور یہ دفاع جارحیت کے جواب میں ہے، اس لیے اگر جارحیت رک جاتی ہے، تو یہ فطری بات ہے کہ ہمارا رد عمل بھی رک جائے گا۔
عراقچی نے کہا: آج(15 جون 2025ء) ایران مسقط میں جوہری مذاکرات کے چھٹے دور میں شرکت کرنا تھا۔ جیسا کہ میں بارہا کہہ چکا ہوں ہمیں یقین ہے کہ ہمارا جوہری پروگرام پرامن ہے اور ہمیں پوری دنیا کو یہ اعتماد ظاہر کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ ہم نے سنہ 2015 ء کے جوہری معاہدے میں کیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا: ایران کسی بھی ایسے معاہدے کے لیے تیار ہے جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے سے روکنا ہو کیونکہ یہ ہمارا نظریہ اور عقیدہ ہے جو جوہری ہتھیاروں کی حرمت پر مبنی ہے۔ البتہ اگر معاہدے کا مقصد ایران کو اس کے جوہری حقوق سے محروم کرنا ہے تو یہ فطری بات ہے کہ ہم ایسے معاہدے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسی منطق کے ساتھ ہم نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کیے اور مذاکرات کے پانچ دور مکمل کیے اور چھٹے دور میں ہمیں ممکنہ معاہدے کے لیے اپنا منصوبہ امریکی فریق کے سامنے پیش کرنا تھا۔
عراقچی نے مختلف ممالک کے سفیروں کو متوجہ کراتے ہوئے کہا: آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ اسرائیل نے ہمیشہ قتل و غارت گری ، تخریب کاری اورمختلف کارروائیوں کے ذریعے جوہری مذاکرات کوسبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔مجھے یاد ہے کہ سنہ 2022ء میں جب ہم ویانا میں جوہری مذاکرات پر دوبارہ بات چیت کر رہے تھے؛ مذاکرات کے وسط میں، اسرائیل نے ایران کے نطنز تنصیبات پر حملہ کیا اور اس کے پاور پلانٹ کو اڑا دیا گیا۔ بجلی کی بندش کی وجہ سے اس وقت سینٹری فیوجز کی ایک بڑی تعداد کے سلسلے میں مسائل پید اہوئے۔ اس نوعیت کے حملوں سے اسرائیل کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ اس مذموم عمل کے ذریعے مذاکرات کو روکا جائے۔
عراقچی نے مزید کہا: اس دوران ایران نے اعلان کیا تھا کہ ہم اپنی جوہری افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھا دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری اسلامی ایران نے 60 فیصد کی سطح پر افزودگی شروع کی تھی، نطنز میں اس حکومت کی تخریب کاری کی کارروائی کے جواب میں اور اس کے بعد نطنز میں تمام تباہ شدہ سینٹری فیوجز کو زیادہ طاقتور سینٹری فیوجز سے بدل دیا گیا۔
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا: اب جو کچھ کیا گیا ہے وہ بالکل سفارتی اور مذاکرات کو تباہ کرنے کے لیے ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ اس کارروائی میں امریکی حکومت نے بھی ساتھ دیا ہے۔ ہمیں گزشتہ دو دنوں کے دوران مختلف ذرائع سے امریکی پیغام موصول ہوا کہ امریکہ اس حملے میں ملوث نہیں ہے اور نہیں ہو گا، لیکن ہم اس امریکی دعوے پر یقین نہیں کرسکتے ہیں؛ اسرائیلی جارحیت میں امریکی مشاورت اور حمایت کے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں۔اس کا واضح اور عوامی طور پر اعلان کرنے کے لیے امریکی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کا واضح طور پر اعلان کرے اور جوہری تنصیبات پر ہونے والے حملے کی بین الاقوامی قانون کی رو سے مذمت کی جائے اور ہمیں توقع ہے کہ امریکی حکومت جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے اپنی خیر سگالی کے تحت اس حملے کی مذمت کرے اور خود کو اس جارحیت سے دستبردار ہونے کا اعلان کرے۔
عراقچی نے کہا: مجھے امید ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے پر خاطر خواہ توجہ دے گی اور اسرائیل کے جرائم اور جارحیت اور اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کے تمام اصولوں اور بنیادوں کی خلاف ورزیوں کے خلاف کھڑی ہوگی اور اس سے نمٹے گی،کیونکہ عالمی برادری کا یہ اقدام خطے بلکہ پور دنیا میں امن قائم کرنے کا واحد اور بہترین راستہ ہوگا۔
آپ کا تبصرہ