مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک- آذر مهدوان: گذشتہ ہفتوں کے دوران شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہوگئی۔ دمشق میں حکومت اور حکمران بدلنے کے بعد ایران اور ترکی کے تعلقات کے حوالے سے بھی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ بعض مبصرین شام کے حالات اور واقعات کو تہران اور انقرہ کے درمیان کشیدگی کا باعث قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض کے مطابق شام کے بحران سے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور اعتماد کا رشتہ مزید گہرا ہوسکتا ہے۔
شام کے سیاسی منظرنامے پر چھائے گہرے بادل کی وجہ سے کئی عناصر اور ممالک اپنے مفادات کے مطابق حالات کا رخ موڑنا چاہتے ہیں۔ شام پر ترکی کی برتری کی وجہ سے عرب ممالک کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں۔
مہر نیوز نے شام کے تازہ ترین حالات کے بارے میں انقرہ میں ایران کے سابق سفیر محمد فرازمند سے گفتگو کی ہے جس کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
مہر نیوز: شام کا مسئلہ وہ اہم موضوع ہے جس پر ایران اور ترکی کے درمیان گہرے نظریاتی اختلافات رہے ہیں لیکن تمام تر تضادات کے باوجود دونوں ممالک نے اپنے اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ دونوں ممالک نے اختلافات کو باہمی تعلقات خراب ہونے کا باعث نہیں بنایا حتی کہ ان اختلافات کے باوجود شام کے مسئلے پر تعاون کی طرف بھی قدم بڑھائے۔ چنانچہ اعلان آستانہ شام کے مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی علامت اور نشانی تھا لیکن اب شام کی صورت حال بدل چکی ہے۔ اس تناظر میں آپ کے خیال میں آگے چل کر انقرہ اور تہران کے تعلقات میں کیا تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں؟
محمد فرازمند: جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ ایران اور ترکی کے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ خطے میں سب سے پرانے سفارتی تعلقات ایران اور ترکی کے درمیان ہیں۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ترکوں کی اناطولیہ میں آمد ایران کے ذریعے ممکن ہوئی۔ سلجوقیوں نے ایران سے آ کر اناطولیہ میں سلجوقی روم سلطنت قائم کی۔ یہ تعلقات تقریباً ایک ہزار سال پرانے ہیں اور کبھی منقطع نہیں ہوئے۔ نشیب و فراز کے باوجود ایران اور ترکی کا ہمیشہ ایک دوسرے سے رابطہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ جدید دور کی سفارت کاری کے آغاز جو انیسویں صدی کے وسط میں ہوا، ایران اور ترکیہ ان ابتدائی ممالک میں شامل تھے جنہوں نے سفارت خانے قائم کیے۔
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ انیسویں صدی سے پہلے بھی دونوں ممالک کے سیاسی ایلچی موجود تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امیرکبیر، ایران اور عثمانی حکومت کے درمیان سرحدی مذاکرات کے دوران ایرانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کے طور پر تقریبا تین سال ارزروم میں موجود رہے۔ ایران کی مغربی سرحدیں ان مذاکرات کے نتیجے میں طے ہوئیں، جنہیں "ارزنة الروم" مذاکرات کہا جاتا ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد بھی ایران اور ترکیہ کے تعلقات، تہران کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ رہے ہیں، اور ان میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں آیا۔ 2011 کے بعد شام کے مسئلے اور اس سے متعلق دونوں ممالک کے اختلافات نے ایران اور ترکی کے تعلقات پر اثر ڈالا۔ لیکن شام کی ترکی کے لیے بطور ہمسایہ ملک اور ایران کے لیے بطور محورِ مقاومت کی بنیاد کی حیثیت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک نے اپنے اختلافات کے باوجود روس کے ساتھ شام کے بحران کے حوالے سے سب سے اہم اور مؤثر طریقہ کار تشکیل دیا۔ دراصل خطے میں دیگر مکانیزم بھی عرب اور مغربی ممالک کی جانب سے تشکیل دیے گئے لیکن ان میں سے کوئی بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔
"اعلان آستانہ" ایران، روس، اور ترکی کے تعاون سے شام میں کشیدگی کم کرنے والے علاقے بنانے میں کامیاب ہوا، جو بڑی حد تک جنگ، تشدد، اور خونریزی میں اضافے کو روکنے میں مددگار ثابت ہوا۔ البتہ شام میں جنگ مکمل طور پر ختم نہ ہو سکی اور کچھ حد تک وہاں جنگ جاری رہی۔ یہ سلسلہ 18 دسمبر تک جاری رہا اور بالآخر دمشق مسلح گروہوں کے قبضے میں چلا گیا۔
ماہرین کے مطابق یہ امکان ہے کہ شام کا مسئلہ ایک بار پھر ایران اور ترکی کے اختلافات کا باعث بنے لیکن میری رائے میں ایران اور ترکی دونوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ شام کے مسئلے کو باہمی تعلقات پر اثرانداز نہ ہونے دیں۔ میرے خیال میں شام ان ممالک کے درمیان تعاون کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ 18 دسمبر کے بعد ایران اور ترکیہ کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی اور سیاسی رابطے بحال ہوئے۔ صدر پزشکیان نے قاہرہ میں "ڈی-8" کے اجلاس کے موقع پر صدر اردوغان سے ملاقات کی۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی کمیشن کا اجلاس بھی منعقد ہوا۔ میرے خیال میں دونوں ممالک شام کے مسئلے کی وجہ سے اپنے تعلقات کو منقطع کرنا نہیں چاہتے۔ شام میں حکومت سازی اور مسائل کے حل کا معاملہ بھی دونوں ممالک کے مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہوسکتا ہے۔
کچھ لوگ توقع کررہے ہیں کہ کیا شام کے مسئلے پر ایران اور ترکی کے درمیان رابطے بحال ہوں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رابطے شروع ہوچکے ہیں۔ شام میں موجودہ صورتحال کسی بڑے بحران کی نشاندہی نہیں کرتی لیکن یہ بھی واضح ہے کہ مقدس مقامات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور کسی بھی اقلیت کی نسل کشی نہیں کی گئی ہے۔
مہر نیوز: اگر دونوں ممالک کے عہدیداروں کی ملاقاتوں اور ان کے بیانات کی نوعیت کا جائزہ لیں تو ایسا ظاہر ہوتا ہے دونوں ممالک شام کے مسئلے پر دوبارہ کسی کشیدہ عمل میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ کیا موجودہ حالات 2011 کے حالات سے بہت مختلف ہیں؟
محمد فرازمند: بہر حال 2011 کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہے کہ شام میں جو کچھ ہوا، وہ کہانی کی صرف شروعات ہے۔ دمشق کی حکومت گر گئی اور بشار الاسد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ مخالف گروہ درحقیقت کسی عسکری تصادم کے بغیر دمشق میں داخل ہوئے۔ جو لوگ شام کے مسئلے کو ایران اور ترکی کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ پہلی بار ہوا کہ کسی عرب ملک میں سقوط کے باوجود اندھی نسل کشی، انتقام یا تباہی نہیں ہوئی۔ ترکی کی سیاسی تاریخ اور اس کی تیزرفتار سفارتی حکمت عملی مختلف سمتوں میں اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ایران اور ترکی کے درمیان رابطوں پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔
مہر نیوز: ترکیہ کے کردار کو ہیئت تحریر الشام کی کامیابی میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟
محمد فرازمند: فی الحال شام کے منظرنامے پر کوئی اور بڑا کردار نظر نہیں آتا۔ دمشق میں جو کچھ ہوا وہ ایک الگ معاملہ ہے اور آئندہ یہاں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی، یہ ایک اور مسئلہ ہے۔ بشار الاسد کی حکومت میں ہونے والی اس سیکیورٹی اور انٹیلیجنس کی ناکامی شاید ترکی کے لیے بھی حیران کن تھی۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ ترکی، اسرائیل، اور امریکہ کے اتحاد کو اس صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اسرائیل نے شام کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا اور اس کے سرحدی راستے بند کر دیے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ سب کسی مکمل ہم آہنگی کے تحت ہوا ہو؛ یہ بغیر کسی ہم آہنگی کے بھی ہو سکتا ہے۔
زیادہ تر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ترکی کا خیال تھا کہ صرف حلب دہشت گرد تکفیریوں کے کنٹرول میں جائے گا۔ اگر بشار الاسد کے زوال کے حوالے سے کسی کو مورد الزام ٹھہرانا ہے تو میرے خیال میں ترکی سے پہلے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرانا چاہیے۔ بہر حال شامی انٹیلیجنس اور سیکیورٹی کی ناکامی اور شام کو مقاومت کے بلاک سے باہر کرنا اسرائیل کے اقدامات کی وجہ سے ہوا۔
تکفیری دہشت گرد پچھلے 13 سال سے شام میں موجود تھے اور انٹیلیجنس اور سیکیورٹی کے خلا کو محسوس کر چکے تھے۔ یہ بھی بعید نہیں کہ ایک عملیت پسند ملک جیسے ترکی اس موقع سے فائدہ اٹھائے کیونکہ ترک حکام 13 سال سے اس لمحے کے منتظر تھے۔ یہ سوچ 1923 کے "معاہدہ لوزان" کے بعد سے موجود ہے۔ اگرچہ اس معاہدے نے ترکی کی موجودہ سرحدوں اور آزادی کو تسلیم کیا، اور اسے ایک کامیابی سمجھا جاتا ہے، لیکن ترکی ہمیشہ اپنی جنوبی سرحدوں کے حوالے سے ناپسندیدگی ظاہر کرتا رہا ہے۔ یہ کہنا درست یا غلط ہے، اس پر بحث سے قطع نظر، بین الاقوامی سرحدوں اور ممالک کی خودمختاری کو تاریخ کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم تاریخی مسائل کو دیکھیں تو مشرق وسطی کی موجودہ سرحدوں میں سے کوئی بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں رہی ہے۔
بہر حال یہ رائے بھی عام طور پر پائی جاتی ہے کہ اس وقت ترکی شام میں ہونے والی تبدیلیوں میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن یہ کردار صرف مواقع نہیں بلکہ ذمہ داری بھی ہے۔ نئی شامی حکومت اور اس کے حامی ملک یعنی ترکی کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس قبضے اور شام کی جغرافیائی سالمیت کو نقصان پہنچانے پر خاموش نہ رہیں۔ سیاسی موقف ضرور اختیار کیا گیا ہے لیکن محض سیاسی موقف سے جغرافیائی سالمیت کا تحفظ ممکن نہیں۔
مہر نیوز: اگر شام کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے تو کرد گروہوں کی طاقت میں نمایاں اضافہ ہوگا؛ چنانچہ آپ جانتے ہیں کہ ترکیہ ان گروہوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے؟
محمد فرازمند: جی ہاں، حالیہ برسوں میں مسلح ہونے والے تقریبا تمام کرد گروہ ترکی کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کرد گروہوں کو اس جامع حکومت میں کس طرح شامل کیا جائے گا جس کے قیام میں ترکی دلچسپی ظاہر کر رہا ہے۔ کیا عراق کا ماڈل شام میں نافذ کیا جائے گا؟ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ علاوہ ازین دیگر علاقائی حکومتوں کا کردار کیا ہوگا؟
بہر حال ایران، مصر، امارات، اور دیگر علاقائی و عرب ممالک شام کی تبدیلیوں کے بارے میں فکرمند ہیں۔ عرب ممالک شام کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں شامل ہو چکے ہیں، یہاں تک کہ شام کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کیا گیا۔ البتہ قطر کسی حد تک ترکی کے ساتھ ہم خیال ہے۔
بین الاقوامی برادری بھی شام کی تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں ہے اور ان کے اپنے نقطہ نظر ہیں۔ امریکی بھی شام میں موجود ہے اور شام کی صورتحال کے بارے میں اپنی مخصوص پالیسی رکھتا ہے۔
یہ تمام مسائل شام میں نظام سازی کے چیلنجز ہیں۔ میرے خیال میں ترکی کی روایتی سفارت کاری ترک حکام کو اس نتیجے پر پہنچائے گی کہ شام کے مسائل کو اکیلے حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم سب سے پہلے شام کے عوام کو اپنے ملک کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ لیکن اس تقسیم کے عمل میں علاقائی کردار ادا کرنے والے ممالک کو بھی مدد فراہم کرنی چاہیے تاکہ شام کی جغرافیائی سالمیت برقرار رہے؛ شام کے عوام اپنے فیصلے خود کر سکیں اور نئے نظام کو عوام کی خواہشات کے مطابق بنایا جا سکے۔ نئے نظام کو پہلے مرحلے میں عوام کی ضروریات اور توقعات کا جواب دینا ہوگا۔
مہر نیوز: جتنا ترکی شام میں مؤثر، سنجیدہ اور گہرا کردار ادا کرے گا، وہ عرب ممالک کے لیے اتنا ہی بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ کیا عرب ممالک ترکی کی بالادستی کو قبول کریں گے؟
محمد فرازمند: میں عرب ممالک کی جانب سے رائے نہیں دے سکتا ہوں لیکن عمومی طور پر عرب دنیا میں شام کے مسئلے پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ 2011 کے عرب بہار کے دوران ترکی نے ایک نمایاں کردار ادا کیا اور ہم نے بعض عرب ممالک کی جانب سے مختلف ردعمل دیکھے۔ آج بھی کچھ عرب حلقوں اور میڈیا میں یہ تشویش موجود ہے کہ شام میں ہونے والی تبدیلیاں عرب بہار کا تسلسل ہو سکتی ہیں۔
مہر نیوز: ترکی کا شام میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ بعض لوگ ایران کے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ کیا ایران کو ترکی کے دیگر خطوں خاص طور پر قفقاز میں کردار پر فکر مند ہونا چاہیے؟
محمد فرازمند: جب شام جیسی تبدیلیاں ہوتی ہیں اور ایک کھلاڑی دوسرے کھلاڑیوں کی جگہ لے لیتا ہے تو عوامی رائے اور میڈیا میں اس طرح کے تجزیے اور خدشات پیدا ہونا غیر معمولی بات نہیں۔ لیکن یہ درست نہیں کہ ہر چیز کو ثبوت کے بغیر آپس میں جوڑ دیا جائے۔
قفقاز یا وسطی ایشیا ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ شام ہر قسم کے ممکنہ منظرناموں کے لیے کھلا ہے۔ نہ تو کسی منظرنامے کو یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے مکمل طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے۔ ایک ممکنہ منظر یہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ شام کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھائیں اور نئی حکومت پر کوئی معاہدہ یا امن معاہدہ مسلط کریں۔ لیکن یہ محض ایک قیاس ہے۔
مغربی ایشیا کے حالات میں یہ عام ہے کہ کسی مسئلے پر دو ممالک کے مفادات یکساں ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے معاملات میں بھی ان کے مفادات یکساں ہوں۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے معاملے میں ترکی مغربی ممالک کے ساتھ ہم خیال تھا لیکن کردوں یا دیگر معاملات پر ترکی کی پالیسی مغربی ممالک سے مختلف ہے۔ شام کے شطرنج کے کھیل میں تمام علاقائی اور عالمی طاقتیں اپنی اپنی سطح پر اپنے مفادات کے پیچھے ہیں۔ یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اگر کسی ملک میں عوام فیصلہ کریں اور ان کی خواہش کے مطابق ایک جامع حکومت بنے تو ایران اسے اپنے مفادات کے خلاف نہیں سمجھتا۔
عراق میں ہمارا یہی مؤقف ہے اور شام میں بھی ہمارا یہی نقطہ نظر ہے۔ ایران نے بشار الاسد کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے سیاسی نظام کو جامع بنائیں لیکن بدقسمتی سے اسد نے ایران کی تجاویز کو نظرانداز کیا۔
ہماری رائے یہ ہے کہ شام میں حکومت جامع ہونی چاہیے اور عوام کو فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ اگر ترکی اس مقصد کے حصول میں مدد دے سکتا ہے تو ایران بھی اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ