مہر نامہ نگار کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے شامی ہم منصب "بسام الصباغ" کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہمارے درمیان بہت اچھے اور نتیجہ خیز مذاکرات ہوئے ہیں، ہم نے غزہ، لبنان اور خطے کے بارے میں بات کی اور ہم عالمی برادری سے موجودہ بے عملی کے خاتمے اور ان جرائم کی روک تھام کی توقع رکھتے ہیں۔
عراقچی نے کہا کہ ہم لبنانی اور شامی پناہ گزینوں کی میزبانی میں شامی حکومت اور خود بشار اسد کے انسانی ہمدردی کے موقف کو سراہتے ہیں۔ شام کو جن اقتصادی مسائل کا سامنا ہے، اس کے باوجود یہ تقریباً ۵۰۰,۰۰۰ لبنانی پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عرب ممالک کے ساتھ شام کے تعلقات کی توسیع کی حمایت کرتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ شام اور ترکی کے درمیان تنازعات کا حل پرامن طریقے سے ہونا چاہیے اور شام کی ارضی سالمیت کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ہم خطے میں استحکام کے لیے شام اور ترکی کے درمیان تعلقات کی توسیع کی حمایت کرتے ہیں۔
اس دوران شام کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے کے لیے بہت اچھے مذاکرات کیے یہ مذاکرات دونوں ملکوں کے گہرے تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی بھی قبضے اور تسلط کا مقابلہ کریں گے اور ہم کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے ایران کے حق کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ ہم دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ اکے لیے تعاون پر زور دیتے ہیں جو خطے کی فوری ضرورت ہے۔
شام کے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت کے جرائم کی وجہ سے خطے کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے کہ جو فلسطین کے خلاف شروع ہوئے اور لبنان تک پھیل گئے اور ہم نے دیکھا کہ شام میں بھی صیہونی حکومت کے جرائم جاری ہیں۔ جس میں شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ بھی شامل ہے۔
الصباغ نے کہا کہ ہم نے کہا کہ سب سے پہلے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکا جائے اور پھر انسانی امداد کے مسئلے کو دیکھا جائے جب کہ صیہونی حکومت کو ان جرائم پر سزا ملنی چاہیے۔
شام کے وزیر خارجہ نے کہا: گولان پر صیہونیوں کا قبضہ ختم ہونا چاہیے، بعض ممالک ہماری خودمختاری کے خلاف تباہ کن اقدامات کر رہے ہیں اور ہمیں مزید ہم آہنگی کی امید ہے۔
شام کے وزیر خارجہ نے امریکہ کی طرف سے دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کے بارے میں کہا: ہمارے علاقے میں اسرائیلی کشیدگی میں اضافہ ایک پرانے منصوبے کے دائرہ کار میں ہوتا ہے یہ وہی امریکی صیہونی منصوبہ ہے جس کا مقصد خطے میں سرحدوں کو دوبارہ کھینچنا ہے۔
انھوں نے کہا: ہمیں ۲۰۱۱ سے ان دہشت گرد ٹولوں کا سامنا ہے، اور ہم ان گروہوں کو نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوئے، لیکن ان میں سے کچھ شمالی شام میں سرگرم ہیں، جن سے ہم نمٹ رہے ہیں۔
اس دوران ایرانی وزیر خارجہ نے کہا: دونوں ممالک کے درمیان ۱۰۰ سے زیادہ اقتصادی وفود کا تبادلہ ہوتا ہے۔ انشاء اللہ جلد مشترکہ کمیشن کا اجلاس ہو گا۔ میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ایران شام اور مزاحمت کے ساتھ کھڑا رہے گا اور کسی کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
شام کے وزیر خارجہ نے تہران اور دمشق کے درمیان ہونے والے معاہدوں کے بارے میں کہا: ہمارا ایک مشترکہ ہائی کمیشن اور اقتصادی کمیشن بھی ہے جو جلد ہی دمشق میں اپنے اجلاس شروع کرے گا۔ یہ دونوں کمیشن دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے تمام طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم نتائج سے کافی مطمئن ہیں لیکن ہمیں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے خلاف پابندیوں کے حوالے سے ہم نے اس مسئلے پر بات کی۔ ہمیں پابندیوں کے مضر اثرات کو کم کرنے کے لیے میکانزم بنانا چاہیے۔
اس موقع پر عراقچی نے واضح کیا کہ آیا ہم ایسے نتائج دیکھ رہے ہیں جو غاصب حکومت کو اپنے جرائم کرنے سے روکیں گے: حکومت کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری سیاسی کوششیں جاری ہیں۔
انہوں نے تاکید کی کہ غاص رجیم پر دباؤ بڑھانے کے لیے خطے اور عالم اسلام میں ایک توانا آواز پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ دباؤ کافی حد تک کارگر رہے ہیں لیکن وہ جرائم کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ افسوس کی بات ہے کہ سلامتی کونسل اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتی۔ اسی طرح دیگر بین الاقوامی اداروں میں امریکہ کی طرف سے موئثر فیصلوں کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ از وقت میدان فیصلہ کن موڑ پر ہے اور یہ مزاحمت ہے جسے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیسے لڑے گی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا: آج حزب اللہ نے اپنی افواج کو از سر نو منظم کیا ہے اور ہر روز رجیم کو مزید جانی نقصان پہنچا رہی ہے۔ فتح کا راز مزاحمت میں پوشیدہ ہے۔
یقیناً خطے میں ایک توانا آواز پیدا کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اسرائیلی حکومت کے خلاف ایران کے اقدامات کے بارے میں کہا: ایران نے صیہونی حکومت اور ہر اس شخص کے سامنے اپنی حکمت عملی کو بہت واضح طور پر ثابت کر دیا ہے، ہم کسی بھی حملے کو بلا جواب نہیں چھوڑیں گے۔ ہم نے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کی جارحیت ایک نئی جارحیت ہے اور ایران خود کو اس جارحیت کا جواب دینے کا حقدار سمجھتا ہے اور یہ ہماری دفاعی پالیسی کا حصہ ہے تاہم کیسے اور کب جواب دینا ہے یہ فیصلہ ہم وقت پر کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ تدبر کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے، ہم جلدی میں نہیں ہیں اور مقررہ وقت پر مکمل جواب دیں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہم کبھی بھی دباؤ کی زبان میں جواب نہیں دیں گے، یہ بالکل واضح ہے۔" جب امریکہ نے زیادہ سے زیادہ دباؤ لیا تو ہم نے بھی زیادہ سے زیادہ مزاحمت کی۔ اگر وہ دوبارہ ناکام سیاست کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ دوبارہ ناکام ہوں گے اور ہم نے اس بات پر زور دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ معقولیت کا انتخاب کریں۔
آپ کا تبصرہ