مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی ڈیسک: پانچ جمادی الاول کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت ہے۔ آپ حضرت علیؑ و حضرت زھراؑ کی بیٹی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نواسی ہیں۔
آپ کی ولادت کے موقع پر پورے ایران میں محافل اور جشن کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف شہروں اور قصبوں میں لوگ عید منارہے ہیں۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں نماز کے بعد حضرت زینب علیہا السلام کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے ہیں اور مقررین آپ کی سیرت پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
حضرت زینب علیہا السلام کی ولادت کا دن ایران میں نرسوں کے قومی دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے اور نرسوں کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا میں عاشورا کے بعد امام چہارم حضرت زین العابدینؑ کا بہادری کے ساتھ دفاع کیا۔ آپ نے اپنے بھائی حضرت امام حسینؑ اور بیٹوں کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ آپ نے شہداء کربلا کا پیغام دنیا تک پہنچایا۔
کوفہ اور شام کے درباروں میں اپنے خطبوں کے ذریعے کربلا کے پیغام کو بنی امیہ کے ہاتھوں مسخ اور تحریف ہونے سے بچایا۔ تاریخ میں آپ کے وہ خطبے معروف ہیں جو آپ نے ابن زیاد اور یزید کے دربار میں دیے۔
آپ کے خطبوں کا مطالعہ کرنے سے اسلام میں خواتین کی طاقت اور ان کو حاصل آزادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ اسیروں کے قافلے کے ساتھ اس کوفہ میں داخل ہوئیں جہاں آپ کے والد گرامی نے کئی سال حکومت کی تھی اور کوفہ ہی آپ کے والد گرامی کی حکومت کا مرکز تھا لیکن اس مرتبہ حالات بدل چکے تھے۔ بنی امیہ اور ابن زیاد کے مظالم کی وجہ سے لوگ خوف و ہراس کا شکار تھے۔
دشمنوں نے اسراء آل محمد کا کاروان دیکھ کر خوشی منانا شروع کیا لیکن آپ نے کسی قسم کے خوف میں مبتلا ہونے کے بجائے حالات کا بہادری سے سامنا کیا۔ دشمنوں کے سامنے آپ کی ثابت قدمی اور جرائت مثالی بن گئی۔
حضرت زینب علیہا السلام نے دربار میں خطبہ دیتے ہوئے بنی امییہ کے برے کردار سے پردہ اٹھایا اور خود کو خاندان نبوت کی تربیت شدہ خاتون ثابت کیا۔
زندان شام سے رہائی کے بعد آپ نے اپنے بھتیجے حضرت امام زین العابدینؑ کے ذریعے یزید سے ایک گھر خالی کروایا تاکہ اپنے بھائی پر ماتم کرسکیں۔ اس طرح آپ نے شام میں سات دن فرش عزا بچھا کر شہداء کربلا کا ماتم برپا کیا۔
شام سے واپسی کے بعد جب تک زندہ رہیں، پیغام کربلا پہنچانے میں کوشاں رہیں۔ آپ نے اپنے بھائی حضرت امام حسینؑ کی قربانی کو رائیگاں جانے سے بچایا۔
آپ کا تبصرہ