مہر خبررساں ایجنسی نے المنار ٹی وی چینل کے حوالے سے خبر دی ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے بیروت کے نواحی علاقے میں شہید کمانڈروں کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہا کہ اگر آج شہداء ہمارے درمیان ہوتے یقینا ان کا موقف یہ ہوگا کہ وہ فلسطین کی حمایت اور صہیونی دشمن کا مقابلہ کریں اور وہ دشمن کو اس کے مذموم مقاصد کے حصول سے روکنے کے ساتھ خطے کے مظلوموں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی مجاہدین اور غیرت مند لوگ کبھی سستی اور کمزوری کا شکار نہیں ہوتے اور اپنے راستے، اہداف کی صداقت میں شک نہیں کرتے اور اپنے راستے پر چلتے ہوئے مزاحمت کو برقرار رکھنے کے بنیادی اصول کی پاسداری کرتے ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ مزاحمتی تحریکوں کی قوت عارضی رد عمل کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ بصیرت، بیداری اور اہداف کو جاننے سے حاصل ہوتی ہے۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے کمانڈروں اور مجاہدین کو قتل کر کے یا ہمارے گھروں کو تباہ کر کے وہ ہمیں کمزور یا پسپائی پر مجبور کر سکتا ہے۔ لیکن یہ اس کی بھول ہے۔
حس نصر اللہ نے جنوبی لبنان میں عام شہریوں کے خلاف صیہونیوں کے قتل عام کا حوالہ دیتے ہوئے اسے دانستہ جارحیت قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک حقیقی معرکے میں ہیں اور مجاہدین کی شہادت اس جنگ کا ایک حصہ ہے، لیکن جب بات عام شہریوں کی ہو تو معاملہ حساس ہو جاتا ہے، اور یہ مزاحمت کے آغاز کے بعد سے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔
فروری 1992 میں مزاحمت نے شہریوں کے تحفظ کے لیے معاہدہ کیا اور 1993 میں اس کی توثیق کی۔ ہم عام شہریوں پر حملے کے معاملے پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ شہریوں کو قتل کرنے میں دشمن کا مقصد مزاحمت پر اپنے حملے روکنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔
7 اکتوبر سے غزہ کی حمایت میں جنوبی لبنان کا محاذ نہ کھولنے کے لئے ہم پر بین الاقوامی دباؤ ہے۔
حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی کی طرف سے عام شہریوں کے قتل عام کے جواب میں مزاحمت میں تسلسل اور اضافہ ہونا چاہیے۔ یہ اعمال ہمیں مزید پرعزم اور ہمارے ایمان کو مضبوط بناتے ہیں۔ کل ہم نے پہلے ردعمل کے طور پر دسیوں کاتیوشا راکٹوں اور فلق راکٹوں سے کریات شمعون کو نشانہ بنایا۔ صیہونی دشمن نبیطیہ، السوانہ اور دیگر علاقوں میں ہماری عورتوں اور بچوں کے خون کی قیمت چکائے گا۔
دوست اور دشمن یکساں جان لیں گے کہ اس خون کا جواب خون سے دیا جائے گا نہ کہ دشمن کے جاسوسی مراکز اور آلات کو نشانہ بنا کر۔
لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکیوں اور صیہونیوں کو جان لینا چاہیے کہ فلسطین کے میدان جنگ سے بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
مزاحمت کے پاس ایک مضبوط اور درست نشانے کی صلاحیت رکھنے والی میزائل پاور ہے جو اسے کریات شمعون سے ایلات تک کے تمام مقبوضہ علاقوں کو نشانہ بنانے کے قابل بناتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یمن کے بھائیوں نے آج تک امریکی اور برطانوی جہازوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن اصل جنگ غزہ میں جاری ہے۔
لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کک خطے میں امریکی اور اسرائیلی منصوبے کے خلاف ہمارے پاس دو راستے ہیں: مزاحمت یا ہتھیار ڈالنا۔
ہتھیار ڈالنے کی قیمت زیادہ، خطرناک اور بہت بھاری ہے۔ لبنان میں ہتھیار ڈالنے کی قیمت ہمارے ملک کے خلاف اسرائیل کا سیاسی اور اقتصادی تسلط ہے۔
فلسطینی قوم ہتھیار ڈال دیتی تو غزہ، مغربی کنارے اور یہاں تک کہ 1948 کی اراضی کے مکینوں کو بے دخل کر دیا جاتا۔ فلسطین میں مزاحمت نے صیہونی رجیم کے وجود کو خطر میں ڈالا ہے جس کا نقطہ عروج طوفان الاقصیٰ طوفان تھا۔
آپ کا تبصرہ