مہر خبررساں ایجنسی- بین الاقوامی ڈیسک: یمن کی تحریک انصار اللہ کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی نے یمنی مسلح افواج کی جانب سے بحیرہ احمر اور باب المندب میں اسرائیلی بحری جہازوں کی کڑی نگرانی کی دھمکی دی تھی۔ جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے گزشتہ روز بحیرہ احمر میں صیہونی جہاز کو ضبط کیا گیا تھا، اس جرات مندانہ اقدام نے یمن کی بہادر قوم کی غیرت، ہمت اور ایمانداری کی مثالی ثبوت پیش کیا ہے۔
یمن اگرچہ برسوں سے جارحیت پسندوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتا آرہا ہے لیکن پھر بھی مزاحمتی گروہوں اور فلسطینی کاز کے محافظوں میں سب سے آگے دکھائی دیتا ہے۔
اس حوالے سے مہر خبررساں ایجنسی نے صنعاء میں خواتین کے امور کی سیاسی کونسل کی مشیر ڈاکٹر نجیبہ مطہر کا انٹرویو کیا، جس کا متن درج ذیل ہے:
مہر نیوز: آپ عبدالملک الحوثی کی حالیہ تقریر، ان کے عملی موقف اور میزائل اور ڈرون حملوں کے درمیان موجود تعلق کو اس عظیم اور بہادر لیڈر کی کارکردگی کے تناظر میں کیسے دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر نجیبہ: خدائے بزرگ و برتر ہمیشہ کسی قوم سے ایسے آدمیوں کو اٹھاتا ہے جو خدا کی طرف سے ان پر عائد ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں۔
ان قوموں میں سے ایک یمن ہے جس نے باضابطہ طور پر مزاحمت کے محور میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ مسئلہ فلسطین ان کی ترجیحات میں ہے اور صہیونی دشمن کے ساتھ اس تاریخی جنگ میں فلسطینی بھائی تنہا نہیں ہیں۔ یمن کا اس جنگ میں شامل ہونا پوری دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ فلسطین اب تنہا نہیں رہا بلکہ اس کے ایسے برادران ایمانی موجود ہیں جو صہیونی دشمن کو بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
یمنی قوم نے ہمیشہ خدا پر بھروسہ کیا ہے اور وہ صہیونی دشمن پر حملے کی راہ میں جو اقدامات کرتے ہیں وہ اس قوم کے خدا پر ایمان اور غزہ کے مظلوموں کی مدد کے مذہبی فریضے اور ایمان کی تکمیل کے جذبے تحت ہے۔ لہٰذا جناب عبدالملک الحوثی کے الفاظ ان کا عملی موقف اور اقدامات اس حقیقت پر مبنی ہیں کہ لیڈر قوموں کے نمائندے ہوتے ہیں۔
اگرچہ امت اسلامیہ ایک مضبوط اور مستحکم امت ہے لیکن اس امت کے حکمران یا تو کمزور، محتاج اور بزدل ہیں یا وہ امریکہ اور اسرائیل کے جھنڈے تلے ہیں۔ البتہ ان میں سے بعض حق کے جھنڈے تلے اور محور مقاومت کے ساتھ ہیں اور امت کے مرکزی نصب العین کے طور پر فلسطین کاز کا دفاع کر رہے ہیں۔ موجودہ واقعات (غزہ جنگ) نے بہت سی حکومتوں اور ممالک کی اصلیت سے پردہ ہٹا دیا جو اپنے آپ کو عرب اور مسلمان سمجھتے تھے۔ اب ان کے لیے صرف عربیت اور اسلام کا نام باقی رہ گیا تھا، کیونکہ صیہونیوں کا اصرار ہے کہ ان ممالک کے رہنما کمزور اور بزدل رہیں تاکہ اسرائیل کو جرائم کے ارتکاب کی کھلی چھوٹ مل جائے۔
یمن ان مزاحمتی ممالک میں سے ایک ہے جو محاذ اور دشمن کو ایک ہی سمجھتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسلام کے خلاف سازش کرنے والے ایک ہی ہیں اور آج غزہ میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ 2015 سے یمن میں ہوتا آ رہا ہے۔ چنانچہ سید عبدالمالک بدر الدین الحوثی نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں یمنی قوم کی مکمل نمائندگی حاصل ہے اور وہ قوم کی مرضی کے عملدار ہیں۔ الحوثی کا بیان عرب اور اسلامی سربراہی اجلاس میں ہونے والے بزدلانہ موقف کا ردعمل تھا جس نے صیہونیوں، امریکیوں اور یورپیوں کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ اس دباو کی سب سے اہم مثال ایک حساس مسئلے یعنی سمندری سفر کے حوالے سے ان کے بیانات تھے جو کہ ایسی حالت میں اٹھائے گئے تھے کہ عرب ملکوں کا کوئی بھی رہنما غزہ میں صیہونی دشمن اور اس کی جارحیت کے خلاف کھڑا نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی ان جرائم اور جارحیت کی مذمت کر سکتا تھا۔ لیکن سید الحوثی نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا کہ وہ ایک باوقار اور جرأت مندانہ مقام رکھتے ہیں۔
لہٰذا صنعاء کا موقف جو سید بدر الدین الحوثی نے پیش کیا تھا ایک غیر معمولی موقف تھا جس نے عرب ممالک کے موقف کا رخ بدل دیا کہ صنعاء واحد عرب دارالحکومت ہے جو فلسطینی قوم کی حمایت میں اخلاقی اور مذہبی ذمہ داریاں رکھتا ہے جنہیں س نے اپنے میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے غاصب صیہونی حکومت پر حملہ کرکے نبھایا ہے۔
یمن کی انقلابی قیادت اور سپریم پولیٹیکل کونسل کا موقف 7 اکتوبر سے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جاری ہے اور آج یہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ یہ ملک منفرد ہتھیاروں کے ذریعے ان تنازعات میں براہ راست شامل ہو گیا ہے اور مقبوضہ علاقوں میں صیہونی اہداف کے خلاف کارروائیوں اور بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز حملوں کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈال رہا ہے اور فلسطین میں اسلامی مزاحمت اور شمالی محاذ میم حزب اللہ سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس نے تل ابیب کو خوف زدہ کر رکھا ہے۔
مہر نیوز: بحیرہ احمر کو تنازعات کی مساوات میں لانے میں عبدالملک الحوثی کے اقدام کا وزن کیا ہے اور کیا یہ اقدام کشیدگی کے نئے محاذ کھول سکتا ہے؟
ڈاکٹر نجیبہ: اس جنگ نے جمود کی صورت حال کو توڑ دیا اور مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر عالمی ترجیحات میں سرفہرست کر دیا جب کہ 2011 سے امریکی حکومت کی طرف سے فلسطین کے کاز کو ختم کرنے کی کوششوں اور عرب ممالک کو عرب بہار کے نام سے جانے والی پیش رفت میں شامل کرنے کا عمل تیزی پکڑ چکا تھا۔
یہ صیہونی حکومت اور خطے کی بعض حکومتوں کے درمیان معمول پر آنے کے معاہدوں کے بعد فلسطینی کاز کو نظر انداز کرتے ہوئے فلسطینی قوم کی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے جائز حقوق کو فراموش کر دیا گیا۔
عرب اور اسرائیلی تنازعات کی تاریخ میں اس جنگ کی بہت زیادہ اہمیت کے باوجود اور عرب حکومتوں اور اقوام کے لیے اس کینسر کی رسولی سے چھٹکارا پانے کا ایک اچھا موقع سمجھا ہے لیکن ان حکومتوں کا موقف اور پالیسیاں ان کے مغربی آقاؤں کے ایما پر اب بھی مایوس کن ہیں اور وہ اس کمزوری، جمود اور نارملائزیشن کے ذلت آمیز راہ پر ہیں۔
ایسے میں سید عبدالمالک الحوثی بحیرہ احمر کو جنگی مساوات میں لے آئے ہیں جس کی مختلف جہتوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے:
اول: حالات کی دگرگونی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ چوکس رہے ہیں، کیونکہ سید نے بحیرہ احمر، باب المندب اور یمن کے علاقائی پانیوں میں اسرائیلی جہازوں کی مسلسل نگرانی اور تلاشی کا بھی ذکر کیا۔
دوسرا: ہم اپنی علاقائی سالمیت کے دفاع کا حق ہر صورت استعمال کریں گے جو اب تک ہم چھین لیا گیا ہے۔
تیسرا: عالمی تجارت کا ایک تہائی حصہ اسی راستے سے ہوتا ہے۔
چوتھا: یہ وہ بحری جہاز ہیں جو بڑی بڑی حکومتوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بحیرہ احمر میں بھیجے ہیں۔
دنیا کو جان لینا چاہیے کہ ہم بچوں، عورتوں اور مردوں کے قتل اور غزہ کی تباہی پر خاموش نہیں رہیں گے اور ہم اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یمن کے پاس اب بھی طاقت کے بہت سے آپشنز ہیں جو اس نے استعمال نہیں کئے اور جب یمن اس جنگ میں داخل ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اگر اسرائیل کے جرائم جاری رہے تو دوسری قومیں بھی اس میں داخل ہوں گی۔
یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ انشورنس کمپنیوں نے سید عبدالملک الحوثی کی تقریر کے بعد جہازوں کی بیمہ کرنے کے اخراجات میں اضافہ کر دیا تھا۔
پانچواں: یمنی میزائل بحیرہ احمر میں کارآمد ہیں اور اس کی مرکزی بندرگاہ اور اس میں سیاحت کو بند کر سکتے ہیں، جس طرح تیل کے جہازوں کی سرگرمیوں کو متاثر کر سکتے ہیں اور یہ مسئلہ تمام بڑی حکومتوں اور جنگ کے فیصلہ سازوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
غزہ میں ہم اس جنگ میں امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کے خلاف ہیں اور یہ ایک سٹریٹجک فیصلہ ہے جو رائیگاں نہیں گیا۔
مہر نیوز: اسرائیلی بحری جہاز اپنے ریڈار کو چھپانے اور بند کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی دشمن یمنی خطرے کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت رکھتا ہے؟
ڈاکٹر نجیبہ: جی ہاں؛ یمن نے فوجی اور اسٹریٹیجک کارروائیوں اور صیہونی فوجی اہداف پر حملے کے سرکاری اعلان کے ذریعے ایلات کی بندرگاہ، ام الرشرش، صحرائے نیگیو اور صیہونی حکومت کے دیگر اسٹریٹیجک اہداف پر حملہ کرنے کے سرکاری اعلان کے ذریعے دشمن کے ساتھ جنگ کی براہ راست لائن میں داخل ہو گیا ہے۔ مقبوضہ علاقے یمن اور اس کی مسلح افواج کے اس بہادرانہ اقدام نے فلسطینی قوم کو یہ احساس دلایا ہے کہ تعلقات کو معمول پر لانے والی حکومتیوں کی دغا بازی کے باوجود مسلم قوم میں فلسطین کی پشت پناہی اب بھی موجود ہے۔
مہر نیوز: موجودہ جنگ کی مساوات میں آبنائے باب المندب کے سٹریٹجک پیغامات کیا ہیں اور بحیرہ احمر میں اس کے امریکی فوج کی موجودگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور صیہونی دشمن کے ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کے معاشی نتائج کیا ہوں گے؟
ڈاکٹر نجیبہ: چونکہ یہ تزویراتی مساوات فلسطین کاز اور خاص طور پر غزہ کی صورت حال کے حوالے سے یمنیوں کے پختہ موقف پر مبنی ہے، اس لیے یہ ثابت کرتا ہے کہ اس ملک کے پاس اپنے مخصوص وقت میں درست سمتیں ہیں، یمن کے پاس کئی آپشنز ہیں جنہیں وہ صہیونی دشمن اور اس کے حامیوں اور حامیوں اور غداروں کے خلاف جو اس دشمن کے ساتھ موجود ہیں، دباؤ کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس اور جنگ بندی معاہدے کا دعویٰ بحیرہ احمر میں ہونے والی اشتعال انگیزی کو کم کرنے کی صرف ایک کوشش ہے کیونکہ اگر جنگ بحیرہ احمر میں بھڑکتی ہے تو یہ بحیرہ روم اور بحیرہ عرب میں بھی بھڑک اٹھے گی اور خطے میں امریکی فوج کی موجودگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ یہ وہ چیز ہے جس سے بین الاقوامی فیصلہ ساز واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ اگر صورتحال ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور آبنائے باب المندب، جس کے ذریعے عالمی تجارت کا ایک تہائی حصہ ہوتا ہے، بند ہو جاتی ہے تو ان کے لیے مشکل ہو گی۔
اگر صہیونی دشمن کے جرائم اور جارحیت جاری رہی تو مستقبل قریب میں یمنی قوم اس آبنائے کو بند کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور اس طرح ایک عالمی جنگ چھڑ جائے گی جس کو برداشت کرنے کی طاقت نہ بائیڈن، نیتن یاہو میں ہے اور نہ ہی کسی اور میں ہے۔
مہر نیوز: یمنی اور فلسطینی قوموں کے درمیان مشترکہ درد اور تکلیف کے پہلو اور بنیادیں کیا ہیں جن کے بارے میں جناب الحوثی نے یمن اور فلسطین کے تعلقات سبب کے طور پر بات کی ہے؟
ڈاکٹر نجیبہ: یمن پہلے ہی غزہ کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کر چکا ہے اور یمنی عوام اسے ایک مقدس جنگ سمجھتے ہیں اور اس ملک کا سرکاری اور مقبول موقف وہی تھا جو صنعاء کی دانشمندانہ قیادت واضح طور پر اور کھل کر یمنی قوم کے ساتھ کھڑی رہی۔ طوفان الاقصیٰ نے اعلان کیا کہ یہ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے کے دوران تھا، جنہوں نے اس بہادرانہ آپریشن کی حمایت کی اور انہیں مبارکباد دی۔
یہ فلسطینی کاز کے تئیں یمنی قوم کا ثابت قدم اور باوقار موقف ہے
ہم فلسطینی قوم اور اس کی مزاحمت کی مدد اور حمایت میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہچکچاتے، خاص طور پر جب کہ ہمارے قائد نے یمنی قوم کی جانب سے کھلے عام اعلان بھی کیا ہے کہ ہم اس کا حصہ ہیں ہم مزاحمت کے محور کے ساتھ ہیں اور فلسطین سے جغرافیائی فاصلہ ہمیں اپنا فرض ادا کرنے سے نہیں روکتا اور ہم فلسطینی قوم کی مدد کے لیے اپنی تمام تر قوتیں استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں فلسطین کی حمایت میں زبردست عوامی مظاہرے کیے گئے اور یمن کے عوام عرب حکومتوں کے برخلاف مالی امداد اور ہتھیار فراہم کرکے فلسطین کی مدد کو پہنچ گئے اور عرب حکومتوں پر حجت تمام کردی ہے۔
آپ کا تبصرہ