مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیرخارجہ امیر عبداللہیان فلسطین میں جاری کشیدگی کے بارے میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لئے نیویارک پہنچ گئے ہیں۔ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر اقوام متحدہ میں ایرانی مندوب سعید ایروانی نے ان کا استقبال کیا۔
نیویارک پہنچنے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ میں صہیونی حکومت بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے۔ امریکہ اور بعض مغربی ممالک صہیونی حکومت کی پشت پناہی کررہے ہیں اسی وجہ سے خطے کے حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ کسی بھی وقت کنڑول سے باہر ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا منگل کے روز ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران برازیلی وزیرخارجہ کی دعوت پر نیویارک آیا ہوں تاہم تہران میں قفقاز کے علاقائی ممالک کے اجلاس کی وجہ سے بروقت اجلاس میں شریک نہ ہوسکا۔ جمعرات کو اقوام متحدہ میں فلسطین کے بارے میں ایرانی موقف پیش کروں گا۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سربراہ سے بھی فلسطین کے موضوع پر گفتگو ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مسئلے کے بارے میں امریکہ، روس اور برازیل نے قراردادیں پیش کیں تاہم امریکہ اور روس کی پیش کردہ قرار دادیں منظور نہیں ہوسکیں اب برازیل کی قرارداد پر بحث کی جائے گی۔ ایران کی بروقت فعالیت کی وجہ سے روس اور چین نے امریکی قرارداد کو ویٹو کردیا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ تہران میں روسی ہم منصب کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے اسی طرح چین کے ساتھ بھی گفتگو ہوئی تھی تاہم نیویارک میں ہمارے نمائندے نے اس حوالے سے زیادہ کوشش کی تاکہ امریکی یکطرفہ قرارداد مسترد ہوجائے۔
انہوں نے غزہ میں جنگ بندی اور امدادی سامان کی فراہمی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی اولین ترجیح فلسطین میں جنگ بندی اور امداد کے محتاج فلسطینیوں تک امداد رسانی ہے۔ غزہ سے فلسطینی کی جبری مہاجرت کے خلاف اقدامات ہر قرارداد کا حصہ ہونا چاہئے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم واضح کرتے ہیں کہ حماس فلسطین کی آزادی کی ایک تحریک ہے جو غاصب صہیونی حکومت کے مقابلے میں وجود میں آئی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق ہر ملک کو حق ہے کہ بیرونی غاصب طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرے۔ حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کا مقصد غاصب اسرائیل سے اپنے علاقوں کو چھڑانا ہے لہذا ان کے اس عمل کو بین الاقوامی قانون کی حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ غزہ میں بے گناہ اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حماس کے ذرائع کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد صہیونی حکومت ہر روز 33 تن گولہ بارود غزہ پر پھینک رہی ہے۔ فلسطینی مقاومتی تنظمیں تل ابیب پر جوابی میزائل حملے کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیار کی فراہمی کے بعد خطے کے دوسرے ممالک میں بھی مقاومتی تنظیموں نے امریکی اہداف پر حملہ شروع کیا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق عراق اور شام میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر درجنوں مرتبہ میزائل حملے ہوئے ہیں۔
عبداللہیان نے منگل کی رات اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ ولکر ٹورک کو ایک خط کے ذریعے فلسطین میں صہیونی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا تھا۔ خط میں انہوں نے تاکید کی تھی کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی جانب سے صہیونی حکومت کے جنگی جرائم کے خلاف اقدامات کرنا چاہئے اور صہیونی حکام سے جنگی جرائم پر جواب طلبی کی جائے۔
انہوں نے صہیونی حکومت کے حملوں میں غزہ کے شہریوں کی شہادت اور عوامی املاک کو ہونے والے نقصانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکام کے حالیہ بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اسرائیلی حملوں میں تیزی اس کی واضح علامت ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ کو تاکید کی کہ صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کو مہاجرت پر مجبور کرنا بین الاقوامی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
آپ کا تبصرہ