مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، امریکہ کی جانب سے نئی اقتصادی پابندیاں عائد کی جانے کے بعد ایران نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مذاکراتی عمل متاثر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے دونوں ملکوں کے درمیان جاری بالواسطہ مذاکرات کے دوران امریکہ کی جانب سے نئی پابندیاں عائد کیے جانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کے اشتعال انگیز اقدامات سے واشنگٹن کی مذاکرات میں سنجیدگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔
کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ مذاکرات کے دوران امریکی پابندیوں سے منفی پیغام ملتا ہے اور ایران کے لیے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا امریکہ واقعی مذاکرات میں سنجیدہ ہے یا نہیں؟ اشتعال انگیز اقدامات کی وجہ سے فریق مخالف کی سنجیدگی پر شک ہونا فطری ہے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ امریکہ میں اندرونی اختلافات اور مختلف لابیز کی سرگرمیاں جاری ہیں، جنہیں ایران بغور مانیٹر کر رہا ہے اور انہی کی روشنی میں فیصلے کیے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان آئندہ دور کے مذاکرات روم، اٹلی میں ہوں گے، جس کی میزبانی عمان کرے گا۔ البتہ مذاکرات کی جگہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی، اصل مقصد مفاہمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا کوئی مقررہ شیڈول نہیں ہے۔ ہم وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے اور محسوس کرتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی سنجیدہ ہے۔
عراقچی نے تین یورپی ممالک کے کردار کو محدود قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی غلط پالیسیوں کے باعث وہ عمل میں پیچھے رہ گئے ہیں، تاہم ایران ان کی موجودگی میں سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ان ممالک کے ساتھ اگلا اجلاس جمعہ کو روم میں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کا کردار صرف تصدیق تک محدود ہوگا، فی الحال مذاکرات میں ادارے کا کوئی براہ راست کردار نہیں ہے۔
آپ کا تبصرہ