مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ میں بلاول بھٹو اور ایرانی وزیرِ خارجہ نے معاہدے پر دستخط کیے۔
اس حوالے سے ہونے والی تقریب میں وفاقی وزراء ایاز صادق اور نوید قمر بھی موجود تھے۔
بعدازاں پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی۔
اس موقع پر بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے کم و بیش 15 مہینے قبل حکومت سنبھالی،جون میں ایران کا پہلا دورہ کیا تھا، ایران کے ساتھ برادرانہ اور تاریخی تعلقات ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ گوادر میں بجلی کی فراہمی میں ایران نے بہترین کردار ادا کیا، ایران کے ساتھ مختلف شعبوں میں مزید تعاون مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اسٹریٹجک تعلقات ہیں، ایرانی ہم منصب کے ساتھ مختلف معاملات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ تجارت، معیشت، انرجی و آرٹ میں باہمی تعاون کے فروغ کے لیے متعدد تجاویز زیر غور ہیں، ہم نے 2023 سے 2028 تک کے لیے باہمی تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دی ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ہمارے آج کے اقدامات اگلے کئی سالوں تک ہمارے عوام کے لیے فائدہ مند ہوں گے، ہمارے اس معاہدے سے باہمی تجارت 5 ارب ڈالرز تک بڑھے گی۔
قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرنے کا فیصلہ
بلاول بھٹو نے کہا کہ مذاکرات میں دونوں ملکوں میں قید افراد کے مسائل بھی زیر بحث آئے اور سزا یافتہ ایرانی قیدیوں کو معاہدے کے تحت ایران کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام مچھیروں پر عائد جرمانے ختم کر کے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، دونوں ممالک نے یہ طے کیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا جائے، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سرحد پر امن و سلامتی کی صورتحال قائم رہے۔
اسلاموفوبیا اور مسئلہ کشمیر پر بات چیت
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایرانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے درپش چیلنجز پر بھی بات چیت کی اور کشمیر میں ہونے والے مظالم کا بھی ذکر کیا، ہم نے اس بات پر زور دیا کہ ای سی او کے پلیٹ فارم سے وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔
اس موقع پر ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ گیس پائپ لائن منصوبہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں مزید وسعت چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بارڈر پر مارکیٹوں کے قیام سے تجارت میں آسانی ہو رہی ہے۔ ایران، چین اور پاکستان کے درمیان مشترکہ سرمایہ کاری منصوبہ ہونا چاہیے۔
آپ کا تبصرہ