مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے درمیان گولیوں کے تبادلے کے بعد کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ سوڈان کے عوام ملک کی دو بڑی فوجی قوتوں کے درمیان جنگ کی وجہ سے خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
فوجی تنازعات کیسے شروع ہوئے اس بارے میں متضاد اطلاعات ہیں اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کے مشورے کے بعد دونوں فریق ایک دوسرے پر جنگ شروع کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
اس حوالے سے سیکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ فوج اور پیرا ملٹری فورسز نے دو ماہ قبل جنگی تیاریوں میں تیزی لاتے ہوئے مختلف ریاستوں سے اپنے ہتھیار اور فوجی دستے خرطوم لائے تھے۔
ذرائع کے مطابق خود مختاری کونسل کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر عبدالفتاح البرہان اور ان کے نائب، پیرا ملٹری فورسز کے کمانڈر محمد حمدان دغلو کے درمیان اعتماد کی کمی کی وجہ سے ثالثی کے اقدامات بھی ناکام ہوئے۔ دونوں رہنما ایک دوسرے کے خلاف جنگ شروع کرنے کے لئے بضد تھے.
خرطوم میں فوجی دستوں اور پیرا ملٹری فورسز کی تعییناتی نے ایک کشیدہ ماحول پیدا کیا اور ان کے درمیان فوجی تصادم کا انحصار پہلی گولی چلانے پر تھا۔
البرہان اور حمیدتی کے درمیان لڑائی
فوج کے کمانڈر عبدالفتاح البرہان نے عسکری تصادم کے آغاز کا ذمہ دار پیرا ملٹری فورسز کو ٹھہرایا جنہوں نے خرطوم کے جنوب میں کھیلوں کے شہر تادی کے قریب صبح 9:00 بجے فوجی دستوں اور ان کی رہائش گاہ پر حملہ کیا، جو دارالحکومت کے وسط میں واقع آرمی ہیڈکوارٹر ہے۔
البرہان نے ایک بیان میں کہاکہ "فوج نے نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے دانشمدانہ فیصلہ کیا اور پیرا ملٹری فورسز سے کہا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو فوری طور پر خرطوم سے ان ریاستوں میں واپس لے جائیں جہاں سے وہ آئے ہیں لیکن ریپڈ سپورٹ فورسز نے حج اور عمرہ ہال کے راستے خرطوم ایئرپورٹ میں گھس کر ایئرپورٹ پر کھڑے طیاروں کو جلا دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حالات قابو میں ہیں اور اگر لڑائی جاری رہی تو ان کے پاس خرطوم کے باہر اڈے تیار ہیں۔
دوسری جانب پیرا ملٹری فورسز کے کمانڈر محمد حمدان داغلو (حمیداتی) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوج نے خرطوم کے جنوب میں "سوبا" کے علاقے میں پیرا ملٹری فورسز کو گھیرے میں لے کر جنگ کا آغاز کیا۔
حمیدتی نے البرہان کو فوجی تنازع شروع کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے "دھوکہ باز اور جھوٹا" قرار دیا اور کہا کہ " پیرا ملٹری فورسز کے پاس فوج کے ہیڈ کوارٹر، صدارتی محل اور گیسٹ ہاؤس کا کنٹرول ہے۔ جہاں البرہان کا گھر ہے۔" انہوں نے دعوی کیا کہ شمالی کردوفان ریاست میں خرطوم، ماروی اور العبیز ہوائی اڈوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیاہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیرا ملٹری فورسز نے فضائیہ کے جوانوں کو شکست دی اور تقریباً 100 افسران اور ایک ہزار سے زائد فوجیوں کو گرفتار کر لیا۔
حمیدتی نے مزید کہا کہ وہ اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گا جب تک کہ وہ فوج کے تمام ہیڈکوارٹرز اور اڈوں کو اپنے کنٹرول میں نہ لے اور البرہان کو بھی انصاف کے کٹھرے میں کھڑا نہ کرے۔
سیاسی راہ حل
خرطوم میں افریقی سفارتی ذرائع نے تصدیق کی کہ انھوں نے امن اور جنگ بندی کے لیے البرہان اور حمیدتی سے رابطہ کیا اور فوج نے انھیں آگاہ کیا کہ خرطوم سے پیراملٹری فورسز کے تیزی سے انخلاء اور فوج میں ان کے انضمام سے ہی امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب حمیدتی نے افریقی ثالثوں کو مطلع کیا ہے کہ وہ باہمی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے البرہان کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتے اور انہوں نے آرمی کمانڈر کے استعفیٰ اور سابق صدر کی حکومت (عمر البشیر) کے عناصر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
افریقی سفارتی ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریق اس مرحلے پر فوجی حل کو ترجیح دیتے ہیں، البرہان اور حمدتی سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ دونوں رہنما ایک دوسرے پر ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگاتے ہیں۔
سیاسی عمل کا مستقبل
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فوجی تنازعات کے خاتمے تک سیاسی راہ حل کا امکان نہیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار عمر الطیب کہتے ہیں کہ موجودہ تنازعات نے سیاسی عمل کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کے جلد دوبارہ شروع ہونے کا امکان نہیں ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ البرہان ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے سویلین وزیر اعظم کے ساتھ ایک عبوری حکومت تشکیل دیں گے اور اسے زیادہ سے زیادہ 18 ماہ کے اندر انتخابات کرانے کا پابند کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "آزادی اور تبدیلی پارٹی" جیسی بعض مرکزی جماعتیں البرہان کے اقدام کو مسترد کرتی ہیں جبکہ بعض دیگر سیاسی جماعتیں اس کی حمایت کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم کی وجہ سے بھی سوڈان میں کشیدگی اور عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔
اس تناظر میں، سیکورٹی ماہر سلیم عزالدین نے کہا کہ فوج اپنی فوجی برتری کی وجہ سے خرطوم کی جنگ جیت لے گی، جس کے نتیجے میں ریپڈ سپورٹ فورسز کو تیزی سے دارفور منتقل کیا جائے گا، جہاں ہزاروں جنگجو موجود ہیں، تاکہ لیبیا کے ساتھ ملک کی مغربی سرحدوں کا احاطہ کیا جا سکے۔ چاڈ اور وسطی افریقہ فوجی سرگرمیوں میں مشغول ہیں، خاص طور پر چونکہ وہ خطے کے ممالک اور روس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
عزالدین نے مزید کہا کہ دارفور کے علاقے میں برسرپیکار قوتیں حکومتی افواج کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں گی جو خطے کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیں گی اور خرطوم پر ان کے ساتھ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالیں گی۔ انہوں نے اس حقیقت کو رد نہیں کیا کہ موجودہ تنازعہ البرہان اور حمیدتی پر بین الاقوامی دباؤ میں شدت اور امن کے دوبارہ قیام کا باعث بن سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ