مہر خبررساں ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک: 2 جنوری 2016 کو کئی سالوں کی قید و بند اور اذیتوں کے بعد آل سعود کی حکومت نے بالآخر ممتاز شیعہ عالم شیخ "نمر باقر النمر" کی سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا، تاکہ سعودی تاریخ میں یہ سیاہ دھبہ ہمیشہ کے لئے ثبت ہوجائے۔
شیخ نمر کو پہلی بار 2006 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب وہ بحرین میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے واپس آئے تھے اور ان کی گرفتاری کی وجہ بھی سعودی حکومت کو قبرستانِ جنت البقیع کی بحالی اور شیعہ مذہب کو رسمی طور پر تسلیم کرنے کی درخواست پیش کرنا تھی۔ انہیں 2008 اور 2009 میں بھی آل سعود حکومت پر تنقید کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور یقیناً یہ ان کی آخری گرفتاری نہیں تھی۔
2012 میں آل سعود حکومت کے ایک رکن پر تنقید کے بعد وہ حکومتی افواج کے مسلح حملے میں زخمی ہوئے اور پھر گرفتار کرلیے گئے یہاں تک کہ 2016 میں آل سعود کے جلادوں کے ہاتھوں 56 سال کی عمر میں شہید کر دیئے گئے۔
پھانسی کس گناہ کی پاداش میں؟
شیخ نمر کی سیاسی زندگی منظم قبائلی امتیازی پالیسیوں -خاص طور پر الاحساء اور القطیف کے دو خطوں میں- کے خلاف مسلسل مزاحمت، شاہی تخت و تاج میں موروثیت کے رواج اور آل سعود کی جانب سے بلاچون و چرا برطانوی اور امریکی پالیسیوں کی پیروی کی کھلی مخالفت اور دیگر متعدد مسائل اور مطالبات کے حصول کے لئے مستعد جدو جہد اور انتھک کوششوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ آل خلیفہ اور خلیج فارس کی پٹی کے عرب ملکوں کے دیگر حکمرانوں کو امریکہ کے کٹھ پتلی اور ایجنٹ قرار دیتے اور کہتے تھے کہ خلیج کے تمام عرب ممالک بلا استثناء امریکہ کی چھتری تلے رہتے ہیں۔ خطے میں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا بحرین اور دیگر عرب ممالک کے تیل کے کنوؤں کو لوٹنے کے لیے آیا ہوا ہے۔
دوسری جانب شیخ نمر نے ہمیشہ آل سعود کے سیاسی نظام کی بدعنوانیوں، استبداد اور آمریت پر کھل کر تنقید کی اور سب کو اصلاح، آزادی اور اقتدار کی منتقلی کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے قیام پر اتفاق کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ انہوں نے سعودی شہریوں بالخصوص شیعہ شہریوں کی عزت نفس اور کرامت کو مجروح کرنے کے حوالے سے خصوصی حساسیت کا مظاہرہ کیا۔ ان کی نظر میں سعودی حکومت شیعوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے اور انہیں شہریت کے ہر قسم کے حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ سعودی شیعہ شہریوں کے وقار اور حقوق کی حمایت کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ ہمیشہ اپنی تقاریر میں سیاسی تبدیلیاں پیدا کرنے، عوامی آزادیوں کو تسلیم کرنے، اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم کرنے اور سعودی عرب میں قبائلی امتیاز کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔
مجموعی طور پر سعودی حکومت کی طرف سے اس سعودی شیعہ عالم کی پھانسی کے بعد ایران، عراق، پاکستان، بحرین، یمن، لبنان وغیرہ سمیت مختلف ممالک میں بڑے پیمانے پر احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شیخ نمر کی سزائے موت کی بارہا مذمت کی گئی اور سعودی عرب سے کہا گیا کہ وہ اس سزا پر عمل درآمد نہ کرے۔ اس سلسلے میں 12 عرب ملکوں کی 114 تنظیموں نے شیخ نمر کی پھانسی اور اس ملک میں سیاسی کارکنوں کے خلاف سعودی عرب کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں پھانسی دینے میں سعودی حکومت کی سیاسی زیادتیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
ان کی پھانسی سے یہاں تک کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ یہ سعودی جرم اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات سبب بنے کہ سعودی عرب نے مشہد اور تہران میں متعدد مظاہرین کی طرف سے ان کے سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملے کے بہانے ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ ایک ایسا مسئلہ جس کی وجہ سے شیعوں پر اس قسم کے منظم ریاستی جبر کا خاتمہ نہیں ہوا۔
شیعوں کے حقوق کی پامالی اور ان پر منظم ریاستی جبر
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ شیعہ اکثریت سعودی عرب کے شمالی علاقوں جیسے القطیف اور الاحساء میں رہتی ہے اور آل سعود ہمیشہ انہیں اپنی حکومت کی بقا کے لیے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔ سعودی خاندان کے خلاف سعودی عرب کی پوری تاریخ میں زیادہ تر احتجاجی تحریکیں اور سرگرمیاں انہی قبائل نے تشکیل دی ہیں۔ فرقہ وارانہ سیاسی نقطہ نظر رکھنے والے آل سعود سعودی شیعوں کو "دوسرے درجے کے شہری" کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ شیعہ سعودی عرب میں سب سے زیادہ مظلوم اقلیت کے طور پر ملک کی آبادی کا تقریباً 15 سے 20 فیصد ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی جانب سے ستمبر 2005 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں "سعودی عرب میں شیعہ مسئلہ" کے عنوان سے عوامی عہدوں پر شیعوں کی نمائندگی نہ ہونے کو امتیازی سلوک کے ایک مظہر کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ نہ صرف کوئی شیعہ فرد وزیر یا بادشاہی نظام کا رکن منتخب نہیں ہوتا بلکہ مسلح افواج، محافظ دستوں، سیکیورٹی اداروں، فضائی کمپنیوں اور تیل کی کمپنیوں میں انتظامی عہدوں جیسی ملازمتوں میں بھی شیعوں کی بھرتی ممنوع ہے۔
سعودی شیعہ انہیں درپیش متعدد پابندیوں اور محدویتیوں کے علاوہ ہمیشہ سعودی حکام کے منظم ریاستی جبر کا نشانہ بنتے ہیں اور آل سعود حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے شیعوں جن میں علماء سرفہرست ہیں، کا قلع قمع کرنے کے لیے وسیع مہمات شروع کرتی ہے۔ شیعہ علماء کی گرفتاری اور پھانسی اس معاملے اور ریاستی جبر کو دبانے کے لیے سعودی حکومت کا ایک عام طریقہ ہے جسے ہمیشہ بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی کا سامنا رہا ہے۔
شیخ "توفیق العامر" سعودی عرب کے سرکردہ شیعہ علماء میں سے ایک ہیں جنہیں 2005 سے لے کر اب تک متعدد بار مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور شیعوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور ان کی توہین پر تنقید کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اور رہا کیا گیا تھا۔ شیخ "حسین الراضی"، شیخ "حبیب الخباز"، شیخ "حسن آل زاید"، شیخ "بدر آل طالب"، شیخ "محمد حسن زین الدین"، شیخ "محمد العطیہ"، شیخ "جلال آل جمال، سید "جعفر العلوی"، شیخ "عبدالجلیل العیثان" اور شیخ "محمد حسن الحبیب" سعودی عرب کے ان ممتاز شیعہ علماء میں سے ہیں جنہیں شیعوں کو دبانے کے لئے سعودی حکومت کی مختلف مہم جوئیوں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور ابھی تک جیلوں میں ہیں۔
جنوری 2021 میں لبنان کے "النور" ریڈیو نے رپورٹ دی کہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور نگراں اداروں کے ریکارڈ اور اعلان کے مطابق آل سعود حکومت نے اس وقت 16 سعودی شیعہ علماء کو قید میں رکھا ہوا ہے۔
"اجتماعی پھانسی" کی شکل میں ریاستی دہشت گردی
گزشتہ برسوں کے دوران سعودی عرب ملک کے اندر دانشوروں، وکلاء اور سیاسی کارکنوں سمیت اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ خطے کے عوام کے خلاف بھی "دہشت گردی" کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کی ایک اور مثال ترکیہ میں سعودیہ پر تنقید کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کا ہولناک قتل تھا۔
"ریاستی دہشت گردی" سے مراد کسی ریاست کی جانب سے اپنے عوام یا غیر ملکی اہداف کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ اصطلاح کسی ملک کی طرف سے اپنے عوام کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے پھیلاؤ کی وضاحت پر بھی اشارہ ہوسکتی ہے۔
معاشرے میں دہشت پیدا کرنے کا ایک عام طریقہ اجتماعی پھانسی ہے جسے ہم ہر سال آل سعود کی جانب سے دہراتے ہوئے دیکھتے ہیں، حتیٰ کہ 2016 کے اسی سال سعودی عرب نے آیت اللہ شیخ نمر کو 46 دیگر افراد کے ساتھ پھانسی دی تھی۔ تین سال بعد اپریل 2019 میں سعودی حکومت نے 2011 کے پرامن احتجاج میں حصہ لینے والے 37 شیعوں کو "دہشت گردی" کے الزام میں پھانسی دے دی جبکہ ان میں سے بہت سے کم عمر بچے تھے۔
اس سے قبل 1980 میں سعودی عرب نے مسجد نبوی پر قبضے کے الزام میں ایک ہی دن میں 63 افراد کو پھانسی دی تھی جو کہ ملک میں اجتماعی پھانسیوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ حال ہی میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مخالفین کو پھانسی دینے کے مقدمات کی نگرانی کرنے والے قانونی ادارے "سند" نے اعلان کیا ہے کہ آل سعود حکومت کی فوجی عدالت نے اپنے درجنوں (تقریباً 60 افراد) فوجی قیدیوں کو پھانسی کی سزا سنائی ہے جنہیں نظریاتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر قید کیا گیا ہے۔ دو ماہ قبل انہیں ریاض کے قریب واقع "الحائر" جیل میں منتقل کیا گیا تھا۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق جن دو سعودی فوجیوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے اور ملک بدری کی مخالفت کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اس سے قبل خبری ذرائع بشمول "ٹیلی گراف" نے خبردار کیا تھا کہ سعودی عرب نئے سال کی تعطیلات کو اجتماعی پھانسیوں کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
مبصرین کے مطابق ریاض کے حکام کرسمس کی چھٹیوں سے ڈھال کے طور پر اور رائے عامہ کو منحرف کرنے کے لئے کا فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ وہی کام ہے جو انہوں نے دسمبر 2016 میں 50 افراد کو پھانسی دے کر اور دسمبر 2021 میں مزید 81 افراد کو پھانسی دے کر کیا۔ سعودی عرب کی جدید تاریخ میں ایک دن میں اتنی بڑی تعداد میں پھانسی کی مثال نہیں ملتی۔
نتیجہٴ سخن
گزشتہ دہائی کے دوران آل سعود نے ملک کے اندر اور باہر شیعہ آبادی سے لے کر دانشوروں، وکلاء اور سیاسی کارکنوں تک اپنے شہریوں کے خلاف قتل اور دہشت کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔ یہ نقطہ نظر 2017 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے اور کئی شہروں میں سکیورٹی کے نئے نظام کو جدید بنانے کے بعد سے پھیلایا گیا ہے جس کی ایک مثال خاشقجی کا گھناؤنا قتل تھا۔ قدامت پسند سعودی معاشرے میں علامتی آزادیوں اور مغربی ثقافت کے فروغ کی آڑ میں تخت تک پہنچنے کے لیے ایک خونی راستے کا انتخاب کرنے والے سعودی ولی عہد نے شیعوں سمیت حزب اختلاف کو کچلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ سعودی عرب کا شروع سے ہی سب سے محروم اور مظلوم طبقہ بن سلمان کی نئی پالیسیوں کے سائے میں سب سے زیادہ نقصان بھی اٹھا رہا ہے۔
اس دوران سعودی عرب میں ہونے والے قتل عام اور زیادتیوں پر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کے دعویدار مغربی ممالک کی جانب سے خاموشی اور سنجیدہ اقدام کا فقدان تاثر اور تامل کا مقام ہے جس پر جتنا بھی افسوس اور تعجب کیا جائے کم ہوگا۔ یہ وہ دعویدار ہیں جنہوں نے اپنی معنوی اور انسانی ذمہ داریوں کو معاشی مفادات کے لیے قربان کیا ہوا ہے جبکہ آل سعود نے پیٹرو ڈالر ڈپلومیسی سے انسانی حقوق کے دعویداروں کو ٹھکانے لگایا ہوا ہے۔
آپ کا تبصرہ