2 ستمبر، 2025، 4:28 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

شام پر صہیونی حملے، الجولانی اور اردوغان کی پراسرار خاموشی

شام پر صہیونی حملے، الجولانی اور اردوغان کی پراسرار خاموشی

صہیونی حکومت کے مسلسل حملوں کے باوجود اردوغان اور ان کے مہرے الجولانی کی پراسرار خاموشی سے شام کی تقسیم اور اسرائیلی قبضے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: شام میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ابو محمد الجولانی نہ صرف ملک کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے خاموش اور غیر فعال رہ کر مشکلات کو دوگنا کردیا ہے۔ دمشق اور دیگر علاقوں پر اسرائیل کے حملوں نے شام کو بڑے چیلنجز اور مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ نتیجتا شام کی سلامتی اور استحکام کمزور اور غیر یقینی حالت میں ہیں۔ الجولانی نہ تو شام کے اندرونی سیاسی ماحول اور تناؤ کو کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی بیرونی خطرات کے مقابلے میں کسی قسم کی طاقت دکھا سکے ہیں۔ اسرائیل کے معاملے میں الجولانی اور دمشق کی عبوری حکومت کے دیگر حکام عملا کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں۔ حالانکہ جولائی اور اگست میں اسرائیل نے شام میں کم از کم چھ بڑے فوجی آپریشن کیے ہیں، جن میں فضائی حملے، ڈرون حملے اور زمینی کارروائیاں شامل ہیں۔

اس حوالے سے امریکی اخبار نے کہا ہے کہ دسمبر 2024ء سے اسرائیل نے شام میں سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں، جو اوسطاً ہر تین سے چار دن بعد ایک حملہ بنتا ہے۔ جبکہ الجزیرہ نے ایک تفصیلی رپورٹ میں ذکر کیا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل کم از کم 400 زمینی کارروائیاں شام میں انجام دے چکا ہے۔ صرف چار روز قبل، دمشق کے جنوبی علاقے القیسیوہ کے قریب سابقہ فضائی دفاعی اڈہ اسرائیلی فوجی حملے کی زد میں آیا۔ اسرائیلی کارروائیاں صرف فضائی اور ڈرون حملوں تک محدود نہیں رہیں۔ گارڈین کے مطابق، 47 فضائی حملوں اور 9 زمینی آپریشنز کے علاوہ شامی اسلحہ ڈپو، کمانڈ سینٹرز اور فوجی ساز و سامان کو توپ خانے سے بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہے کہ نیتن یاہو کی فوج نے الجولانی کی بے عملی دیکھ کر شام میں اپنی کارروائیوں کو مزید تیز کر دیا ہے اور فضائی، زمینی اور توپ خانے کے حملوں کو یکجا کر کے شام پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ دریں اثنا شام کی شمالی سرحد کے پار ترکی اسرائیل کے خلاف صرف سفارتی اشارے دیتا ہے۔ اگرچہ ترکی جسے تحریر الشام کا سب سے بڑا حامی سمجھا جاتا ہے، نے پارلیمنٹ میں ایک بیان جاری کرکے اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیا۔ تاہم شام کی سرزمین پر اسرائیل کے جارحانہ حملوں کے بارے میں ترکی کا رویہ بھی نرم ہی رہا ہے۔ اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کے جواب میں ترکی کے اقدامات صرف وزارتِ خارجہ کے بیانات تک محدود ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے شام پر حملوں کے ردعمل میں انقرہ اور دمشق کے رویے میں ایسی یکسانیت کیوں ہے؟ کیا یہ کسی قسم کی سیاسی ہم آہنگی اور ترکی و شام کے نئے نظام کے درمیان قلیل مدتی مفادات پر مبنی تعاون کی نشاندہی کرتا ہے یا نہیں؟

اس سوال کا جواب دینے کے لیے گذشتہ چند ماہ کے واقعات خاص طور پر الجولانی کی ٹیم اور اسرائیلی حکام کے درمیان ہونے والی سفارتی ملاقاتوں کو یاد کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ امریکی اور ترک ثالثی کے ذریعے الجولانی حکومت اور اسرائیل کے درمیان کم از کم دو اعلی سطحی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان ملاقاتوں میں بھی شام کی جانب سے اسرائیلی حملوں پر کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا گیا، اور الجولانی حکومت کے حکام نے نتن یاہو کی فوج کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے سے گریز کیا ہے۔

ڈرامے کا مرکزی کردار کون؟

اسرائیلی حکام نے شام کی فضائی و زمینی حدود میں اپنی جارحیت کو جواز فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ بے بنیاد بہانے پیش کیے ہیں، جیسے ایرانی اثر و رسوخ کو روکنا، اسلحہ و گولہ بارود کی منتقلی کو بند کرنا اور دفاعی اقدامات۔ مثال کے طور پر ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا کہ ان حملوں میں اسلحہ کے بڑے ذخائر، فوجی ہوائی اڈے اور بحری تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ جدید ہتھیار پراکسی فورسز تک نہ پہنچ سکیں۔

تاہم ان دعووں سے بہت پہلے رائٹرز اور گارڈین نے اسرائیلی وزیر اسرائیل کاتز کے حوالے سے لکھا تھا کہ اسرائیل کا اصل مقصد شام کے جنوبی حصے میں ایک دفاعی زون قائم کرنا ہے تاکہ شمالی اسرائیل کو خطرہ نہ در پیش نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی دلیل درست نہیں۔ اسرائیل شام میں دو بڑے اقدامات انجام دینا چاہتا ہے جن میں سرحدی سلامتی کے بہانے شام کی ایک بڑی زمین پر قبضہ، اور السویدا میں دروزہ برادری کے ساتھ ساتھ شمالی و مشرقی شام میں کرد ملیشیاؤں کو بھڑکانا شامل ہے۔

ادھر امریکہ نے اسرائیل کے سب سے بڑے حامی کی حیثیت سے نتن یاہو کی مداخلتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک سیاسی ڈرامہ رچایا ہے، گویا مسئلہ صرف سرحدی تنازعات کا ہے اور ان تنازعات کو حل کرنے کے لیے امریکی سفارتکار ٹام براک کی مستقل موجودگی اور ثالثی ضروری ہے۔

ٹام براک ایک ہی وقت میں انقرہ میں امریکی سفیر بھی ہیں اور شام کے معاملے پر امریکی صدر کے خصوصی ایلچی بھی۔ لیکن انہوں نے خود کو صرف اس ذمہ داری تک محدود نہیں رکھا بلکہ لبنان میں بھی مداخلت کی ہے، خاص طور پر حزب اللہ کے غیر مسلح کیے جانے کے امریکی مطالبات کے حوالے سے۔

اسی دوران اسرائیل نے بفرزون بنانے کے بہانے گولان کی پہاڑیوں پر اپنا کنٹرول بڑھایا ہے اور 1974ء کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ٹام براک یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحدی اور سیاسی تنازعات ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا گولان پر قبضہ، دمشق اور اس کے نواح پر مسلسل حملے، السویدہ میں مداخلت، ہیلی کاپٹر کے ذریعے فوجی تعیناتی، دھمکیاں اور طاقت کا مظاہرہ آہستہ آہستہ معمول بنتے جا رہے ہیں اور الجولانی کی حکومت اسرائیل کی غنڈہ گردی کے مقابلے میں کوئی سنجیدہ ردعمل نہیں دے رہی۔

براک نے بارہا دعوی کیا ہے کہ شام اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات میں ان کا اصل مقصد کشیدگی کو کم کرنا اور ایک نیا سکیورٹی ڈھانچہ قائم کرنا ہے۔ اس کے باوجود اب تک کسی مثبت تبدیلی کی کوئی علامت نظر نہیں آتی، اور شام کے لیے صورتحال غیر مستحکم اور نازک ہی بنی ہوئی ہے۔

خوف، محتاط حکمت عملی یا خاموش رضامندی؟

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی فوج اور اس کے سکیورٹی و دفاعی ڈھانچے ابھی تک مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی عسکری صلاحیت محدود اور سکیورٹی کمزور ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ صورتحال میں تعمیر و ترقی کی کوششیں ہر چیز پر ترجیح رکھتی ہیں۔ اسرائیل، دمشق کی کمزوریوں کو بھانپتے ہوئے، اپنے دباؤ اور دھمکی آمیز رویے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

حالیہ مہینوں میں، شام اور ترکی کے حکام کے درمیان انقرہ اور دمشق میں کئی دفاعی و سکیورٹی تعاون کے دستاویزات پر دستخط ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شام کی نئی فوج اور انٹیلی جنس سروسز کا بنیادی ڈھانچہ ترک مشیروں کی نگرانی میں تیار کیا جارہا ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ الجولانی کی اسرائیل کے حملوں کے مقابلے میں غیر فعال رویہ کی اصل وجہ فوجی صلاحیت کی کمی نہیں بلکہ سیاسی ارادے کی کمی ہے۔

جہاں تک ترکی کے موقف کا تعلق ہے، اردوغان اور ترک پارلیمنٹ کے اراکین اکثر پارلیمانی قراردادوں، تقاریر اور علامتی سفارتی مذمت جیسے اوزار استعمال کرتے ہیں۔ انقرہ خود کو فلسطینی عوام کا محافظ دکھانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن عملی طور پر ترکی اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے سے گریز کرتا ہے، اور امید رکھتا ہے کہ پس پردہ امریکی مدد کے ساتھ وہ اسرائیل سے بھی روابط برقرار رکھ سکتا ہے۔ اردوغان اور الجولانی کے مفادات پر موقف کا اصل نقصان شام اور شامی عوام کو ہورہا ہے۔ اگر صہیونی حکومت اور امریکہ کے ساتھ پس پردہ تعلقات کا سلسلہ برقرار رہے اور شام اور فلسطین پر صہیونی جارحیت کے خلاف اقدامات علامتی ہی رہیں تو شام کی سالمیت کو درپیش خطرات عملی شکل اختیار کریں گے اور اسرائیل شام کے اہم حصوں پر کنٹرول حاصل کرکے باقی ملک کو ٹکروں میں تقسیم کردے گا۔

News ID 1935158

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha