1 اگست، 2025، 6:56 PM

مہر نيوز کی خصوصی رپورٹ؛

شہید اسماعیل ہنیہ: جہاد، مزاحمت اور شہادت کا درخشاں سفر

شہید اسماعیل ہنیہ: جہاد، مزاحمت اور شہادت کا درخشاں سفر

شہید اسماعیل ہنیہ نے پوری زندگی صہیونی مظالم کے خلاف اور مسئلہ فلسطین کے لیے جدوجہد میں گزار دی اور بالآخر اسی قابض حکومت کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، الناز رحمت نژاد: جب ہم عصر حاضر کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو ہمیں دنیا میں کوئی ایسا حکومت نظر نہیں آتی جو صہیونی حکومت کی مانند بیرون سرحد ٹارگٹ کلنگز اور منظم دہشت گردی کی مرتکب نہ ہوئی ہو۔

صہیونی حکومت نے گذشتہ کئی دہائیوں میں فلسطینیوں کو ختم کرنے اور ان کی قیادت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ہر سطح پر منظم منصوبہ بندی کی ہے۔ اس پالیسی کے تحت اس نے فلسطینی مزاحمت کے نمایاں چہروں کو مسلسل نشانہ بنایا، جن میں شیخ احمد یاسین، تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے بانی فتحی شقاقی، محمود المبحوح اور اب اسماعیل ہنیہ بھی شامل ہوچکے ہیں۔

شہید اسماعیل ہنیہ نے اپنی پوری حیات مقبوضہ فلسطین میں قابض صہیونیوں کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کر دی تھی۔ ان کی قیادت اور جدوجہد نے نہ صرف غزہ میں مزاحمت کی روح کو زندہ رکھا بلکہ عالمی سطح پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا۔

ہنیہ نے 2020 میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر تعزیت پیش کرنے کے لیے ایران کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے قدس فورس کے کمانڈر سردار اسماعیل قاآنی سے ملاقات کی اور شہید سلیمانی کے اہل خانہ سے بھی تعزیت کی۔

شہید اسماعیل ہنیہ: جہاد، مزاحمت اور شہادت کا درخشاں سفر

انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ مقاومت کے شہید رہنماؤں کا خون، مزاحمت کی راہ کو مزید تقویت اور پختگی دے گا۔ صہیونی حکومت اور امریکہ کو یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی سیاست ایک ناکام، بزدلانہ اور کمزور پالیسی ہے۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا۔ ان کی قربانی، صہیونی غاصب ریاست کے ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والے ہر فرد کے لیے مشعل راہ بن چکی ہے۔

1987 کی جنگ، ہنیہ کے والدین کی عسقلان سے بے دخلی

اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ ایک فلسطینی سیاستدان اور حماس کے رہنما تھے جنہوں نے 2007 سے غزہ کی حکومت سنبھالی۔ وہ 2006 سے 2007 تک فلسطینی خودمختار اتھارٹی کے وزیر اعظم بھی رہے۔ 2017 سے لے کر صہیونی رژیم کی طرف سے تہران میں ان کے قتل تک، وہ قطر میں مقیم تھے۔

ہنیہ کا تعلق مخیم الشاطی کے پناہ گزین کیمپ سے تھا جو اس وقت مصر کے قبضے میں تھا۔ ان کے والدین کو 1978 کی  جنگ کے دوران ان کے گھر سے نکال دیا گیا۔

ہنیہ نے اقوام متحدہ کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی اور 1987 میں پہلی انتفاضہ کے آغاز کے قریب اسلامی یونیورسٹی غزہ سے عربی ادب میں فارغ التحصیل ہوئے۔ 1985 سے 1986 تک وہ اخوان المسلمین کی نمائندگی کرتے ہوئے طلبہ کونسل کے صدر بھی رہے۔ وہ اسلامی ایسوسی ایشن کے فٹبال ٹیم میں ہافبیک کے طور پر بھی کھیلتے تھے۔

لبنان میں جلاوطنی؛ حماس کی عالمی شناخت

اسماعیل ہنیہ نے پہلی انتفاضہ کی تحریک میں حصہ لیا اور صہیونی فوج کی فوجی عدالت نے انہیں قید کی سزا دی۔ 1988 میں انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور چھ ماہ قید رکھا گیا، جبکہ 1989 میں تین سال کی قید کاٹنی پڑی۔

شہید اسماعیل ہنیہ: جہاد، مزاحمت اور شہادت کا درخشاں سفر

1992 میں رہائی کے بعد، صہیونی حکام نے انہیں عبدالعزیز الرنتیسی، محمود الزہار اور چار سو دیگر حماس کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ لبنان جلاوطن کیا۔ یہ کارکن جنوبی لبنان میں ایک سال سے زیادہ رہے جہاں حماس کو غیر معمولی میڈیا کوریج ملی اور دنیا بھر میں پہچانی گئی۔ ایک سال بعد، اسماعیل ہنیہ غزہ واپس آئے اور اسلامی یونیورسٹی کے صدر مقرر کیے گئے۔

وزارت عظمی؛ فتح اور حماس کے درمیان شدید تصادم کا عروج

اسماعیل ہنیہ کو 16 فروری 2006 کو انتخابات میں حماس کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ وہ رسمی طور پر 29 مارچ 2006 کو فلسطین کی حکومت کے دسویں وزیر اعظم کے طور پر حلف برداری کے ذریعے منتخب ہوئے؛ تاہم، 14 جون 2007 کو محمود عباس نے فتح اور حماس کے درمیان کشیدگی کے عروج پر انہیں وزارت عظمی سے ہٹا دیا۔ ہنیہ نے اس حکم کو تسلیم نہیں کیا اور غزہ میں وزیر اعظم کی حیثیت سے کام جاری رکھا۔

شہید اسماعیل ہنیہ: جہاد، مزاحمت اور شہادت کا درخشاں سفر

ڈاکٹر مروان رأس کے گھر پر شہید ہنیہ پر ناکام حملہ ہوا۔ اسماعیل ہنیہ نے ناکام قاتلانہ حملے کی تفصیلات کچھ یوں بیان کیں کہ ہم 2003 میں شیخ احمد یاسین کے ساتھ ڈاکٹر مروان ابو رأس کے گھر ملاقات کے لیے گئے تھے۔ جب ہم ان کے گھر کھانے پر تھے، اچانک ایک F-16 طیارے نے اس جگہ پر بمباری کی جہاں ہم موجود تھے۔ چھت گر گئی اور دھواں اور گرد و غبار ہر طرف پھیل گیا۔ خدا کے کرم سے ہم گھر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور اللہ نے ہمیں اور ڈاکٹر ابو رأس کے خاندان کو بچا لیا۔

سیاست میں شہید ہنیہ کا کردار

شہید ہنیہ نے 15 فروری 2007 کو حماس اور فتح کے درمیان قومی اتحاد کی حکومت کے قیام کے عمل کے تحت استعفی دے دیا۔ بعد ازاں، 18 مارچ 2007 کو انہوں نے ایک نئی کابینہ تشکیل دی جس کے سربراہ کے طور پر وہ منتخب ہوئے، اور اس کابینہ میں فتح اور حماس دونوں کے سیاسی رہنما شامل تھے۔ 14 جون 2007 کو محمود عباس نے قومی اتحاد کی حکومت کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔

سال 2016 میں ہنیہ نے غزہ چھوڑ کر قطر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے دوحہ میں دفتر قائم کیا۔ صہیونی حکام نے کئی بار انہیں امن مذاکرات کی ناکامی اور قیدیوں کی رہائی میں رکاوٹ ڈالنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

نومبر 2016 میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ خالد مشعل کی جگہ حماس کا نیا رہنما منتخب کیا جائے گا۔ ہنیہ، مشعل اور محمود عباس قطر میں ملاقات کے لیے جمع ہوئے تاکہ قومی مفاہمت اور آئندہ انتخابات پر بات چیت کریں۔ اس ملاقات سے ظاہر ہوا کہ ہنیہ، دوسرے ممکنہ امیدوار موسی ابومرزوق اور محمود الزہار کی جگہ حماس کا نیا رہنما منتخب ہوچکے ہیں۔

شہید ہنیہ؛ طوفان الاقصی کا مرکزی کردار

7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے طوفان الاقصی آپریشن کے فورا بعد اسماعیل ہنیہ دوحہ قطر میں اپنے دفتر میں ایک ویڈیو میں سامنے آئے جہاں وہ عزالدین القسام بریگیڈز کے جنگجوؤں کی ایک رپورٹ کا جائزہ لے رہے تھے، جنہوں نے اسرائیلی فوج کی گاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ برطانوی روزنامہ "دی ٹیلی گراف" کے مطابق، ہنیہ اس آپریشن کے مرکزی کردار بن گئے اور انہوں نے اسے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تصادم کے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا۔

شہید اسماعیل ہنیہ: جہاد، مزاحمت اور شہادت کا درخشاں سفر

ہنیہ نے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں مسجد الاقصی کے لئے خطرات، اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی اور فلسطینی مہاجرین کی مشکلات کا حوالہ دیا اور کہا کہ ہم نے کئی بار آپ کو خبردار کیا کہ فلسطینی عوام 75 سالوں سے پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں، اور آپ ہمارے حقوق سے انکار کر رہے ہیں؟ اسرائیل جو مزاحمت کرنے والوں کے مقابلے میں اپنی حفاظت نہیں کرسکتا، وہ دیگر عرب ممالک کی کیسے حفاظت کرسکتا ہے؟ آپ نے جس اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے جتنے معاہدے کیے ہیں، وہ سب فلسطین کے مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔

میرے بچوں کا خون فلسطینی بچوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں

10 اپریل کو صہیونی فوج نے اسماعیل ہنیہ کے خاندان کی گاڑی کو ساحلی کیمپ میں نشانہ بنایا، ان کے خاندان کے سات افراد، جن میں تین بیٹے اور پوتے پوتیاں شامل تھے، شہید ہوگئے۔ وہ وہاں عید فطر کی خوشیاں منانے کے لیے گئے تھے۔ اسی طرح 24 جون کو غزہ کے مغربی حصے میں واقع الشاطی کیمپ میں ان کے گھر پر اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجے میں ان کے خاندان کے 10 افراد شہید ہوئے۔ ہنیہ نے اس واقعے پر کہا کہ میری بہن ام ناہض اور ان کے بچوں و پوتوں کا خون غزہ، مغربی کنارے اور جہاں کہیں فلسطینی بستے ہیں، ان کے خون کے ساتھ مل کر بہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ شہادتیں ایک فاتحانہ لڑائی کا حصہ تھیں۔ ان شہادتوں سے صرف مزاحمت مضبوط ہوگی اور فتح کی یقین دہانی ہوتی ہے۔

اسماعیل ہنیہ نے اپنے بچوں اور پوتوں کی شہادت کی خبر سن کر کہا کہ میرے شہید بچوں اور پوتوں کا خون فلسطینی عوام کے بچوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے میرے تین بیٹے اور کچھ پوتے پوتیوں کی شہادت کا شرف بخشا۔

شیخ احمد یاسین کے دفتر کی سربراہی سے لے کر غزہ میں اسلامی جمعیت کی قیادت تک

اسماعیل ہنیہ نے مختلف ادوار میں اہم ذمہ داریاں سنبھالی ہیں جن میں اسلامی یونیورسٹی غزہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے سیکرٹری، یونیورسٹی کے انتظامی اور تعلیمی شعبے کے مدیر۔ اس کے علاوہ، وہ حماس کے دیگر فلسطینی گروپوں اور خودمختار تنظیموں کے ساتھ اعلی سطحی مذاکراتی کمیٹی کے رکن تھے۔ وہ انتفاضہ کی پیروی کے لیے حماس کی نمائندگی کرتے ہوئے اعلی کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ شیخ احمد یاسین کے دفتر کے سربراہ اور حماس تحریک کی اعلی سیاسی کمیٹی کے رکن تھے۔ انہوں نے غزہ کے اسلامی جمعیت کے انتظامی بورڈ میں بھی خدمات انجام دیں اور اسلامی جمعیت غزہ کے کلب کے دس سال تک صدر رہے۔

قطر میں جلاوطنی اور تہران میں شہادت

61 سالہ رہنما، جو دہائیوں تک حماس کی ایک ممتاز شخصیت رہے، حالیہ سالوں میں قطر میں جلاوطنی میں اپنی سیاسی دفتر کی سربراہی کر رہے تھے۔ آخرکار 31 جولائی 2024 کو صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری کے ایک روز بعد اپنے ایک محافظ کے ساتھ شہید ہوگئے۔

مراجع تقلید جیسے آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ حسین نوری ہمدانی، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، اور آیت اللہ عبد اللہ جوادی آملی نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر تعزیت کی اور اس کی سخت مذمت کی۔

لبنان کی حزب اللہ، یمن کی انصار اللہ، فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک، لبنان کے وزیر اعظم، چین، ترکی، روس، شام، پاکستان اور قطر کے وزرائے خارجہ، فلسطینی خودمختار انتظامیہ، فتح تحریک، اور عراق کی حکمت ملی تحریک نے بھی ہنیہ کی شہادت کی شدید مذمت کی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس بلایا اور اس قتل کی مذمت کی۔

ایران، یمن، اور فلسطین میں عمومی سوگ کا اعلان کیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی اور خطے کی سلامتی و استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔ یکم اگست کو رہبر معظم آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران میں ہنیہ کے جنازے پر نماز پڑھائی۔

شہید اسماعیل ہنیہ: جہاد، مزاحمت اور شہادت کا درخشاں سفر

رہبر معظم نے اپنے تسلیتی پیغام میں اس قتل کی ایران میں وقوع پذیری کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ہنیہ کے خون کا بدلہ ایرانی حکومت کی ذمہ داری قرار دیا اور سخت سزا کی وارننگ دی۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے ایک بیان جاری کر کے اس قتل کو صہیونی حکومت کی کاروائی قرار دیا، اس کی مذمت کی۔ ایران میں اسماعیل ہنیہ کو شہید القدس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

شہید ہنیہ کا آخری سفر

شہید اسماعیل ہنیہ اپنی زندگی کی آخری پرواز میں، جب اُن کے ہاتھ میں قرآن کریم کی ایک جلد تھی، سورۂ نساء کی آیت نمبر 74 پر نگاہ جمائے ہوئے تھے: فَلْیُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ الَّذِینَ یَشْرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالْآخِرَةِ وَمَن یُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَیُقْتَلْ أَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیهِ أَجْرًا عَظِیمًا؛

"پس جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ چکے ہیں، اُنہیں اللہ کی راہ میں قتال کرنا چاہیے، اور جو کوئی اللہ کی راہ میں قتال کرے، خواہ وہ شہید ہوجائے یا غالب آجائے، ہم عنقریب اُسے عظیم اجر عطا کریں گے۔"

اُن لمحوں میں، شہید ہنیہ عبادت اور خضوع کی حالت میں دنیا سے رخصت ہورہے تھے۔ وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت سے اپنی وابستگی، اور جہاد کے اُس راستے پر اپنی ثابت قدمی کا اعلان کر رہے تھے، جسے انہوں نے پوری صداقت اور ایمان کے ساتھ چنا تھا۔

News ID 1934615

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha