13 دسمبر، 2025، 3:48 PM

جنوبی لبنان کو مزاحمت نے آزادا کرایا ہے وزیر خارجہ نے نہیں، حزب اللہ

جنوبی لبنان کو مزاحمت نے آزادا کرایا ہے وزیر خارجہ نے نہیں، حزب اللہ

حزب اللہ کے سینئر رکن حسین الحاج حسن نے لبنانی وزیر خارجہ یوسف رجی کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کر دیا جس میں رجی نے کہا تھا کہ حزب اللہ کا اسلحہ غزہ کی حمایت اور ملک کے دفاع میں بے اثر ثابت ہوا ہے۔ الحاج حسن نے یاد دلایا کہ سنہ 2000 میں جنوبی لبنان کو مزاحمت کے اسلحے نے آزاد کرایا تھا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے رکن حسین الحاج حسن نے لبنانی وزیر خارجہ یوسف رجی کے الجزیرہ چینل کو دیے گئے انٹرویو کے بارے میں کہا کہ اس کے بیانات وزیر خارجہ کے نہیں لگتے بلکہ اپنی پارٹی کے نمائندے زیادہ لگتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کسی کے ساتھ صلح کا خواہشمند نہیں ہے اور یہ ایک جارح اور ظالم ریاست ہے، لبنان کے وزیر خارجہ ہونے کے ناطے یوسف رجی کی کم از کم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی سفارتی سرگرمی کو فعال کریں اور دنیا کو یہ واضح کریں کہ لبنان گزشتہ ایک سال سے جنگ بندی کے معاہدے پر قائم رہا ہے، جبکہ صیہونی دشمن نے کبھی بھی اس معاہدے کی پابندی نہیں کی اور وہ لبنان پر مسلسل جارحیت کر رہا ہے۔

الحاج حسن نے یاد دلایا کہ جنوبی لبنان کو یوسف رجی نے نہیں، بلکہ مزاحمت کے اسلحہ نے سنہ 2000 میں ایسے وقت میں آزاد کرایا تھا، جب موجودہ وزیر خارجہ اور ان کی جماعت (لبنانی افواج پارٹی) ایک مختلف محاذ پر تھیں۔

حزب اللہ کے اس سینئر رکن نے زور دیا کہ مزاحمت نے کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن جیسے تمام ممالک اور قومیں جن پر حملہ ہوتا ہے، مزاحمت اور حزب اللہ پر بھی حملہ ہوا ہے، ہم اس سے انکار نہیں کرتے، لیکن کسی کو بھی سنہ 2000 میں جنوبی لبنان کی آزادی اور سنہ 2006 میں اسرائیلی جنگ اور سنہ 2017 میں تکفیریوں کے مقابلے میں اسلحہ اور مزاحمت، نیز حركة امل اور مزاحمتی عناصر کے کردار سے انکار کرنے کا حق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ لبنانی وزیر خارجہ کو ملک پر صیہونی جارحیت کا جواز پیش نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جناب وزیر کی اولیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ دشمن کے انخلا، قیدیوں کی واپسی اور جارحیت کے خاتمے پر توجہ مرکوز کریں۔

شام کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے برادر ملک شام میں، جہاں اسلحہ اور مزاحمت نہیں ہے، وہاں جارحیت کیوں جاری ہے؟ وہ بہانہ جس کا سہارا صیہونی حکومت لبنان میں اسلحہ اور مزاحمت کی موجودگی کے باوجود لیتی ہے، وہ سوریہ میں موجود نہیں ہے، اس کے باوجود قبضہ اور جارحیت جاری ہے۔

الحاج حسن نے مزید کہا کہ ہم جو کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب دشمن پیچھے ہٹ جائے، جارحیت رک جائے، قیدی واپس آ جائیں اور تعمیر نو شروع ہو جائے، تو لبنان کو اپنی قومی دفاعی اور سلامتی کی حکمت عملی پر بحث کرنی چاہیے، اور اس کی بنیاد پر لبنانی جس بھی چیز پر متفق ہوں گے وہ قابل قبول ہوگی۔

انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ مستقبل میں لبنان کا دفاع کیسے کیا جائے گا جب کہ صیہونی حکومت اب لبنان پر شام جیسے حالات مسلط کرنا چاہتی ہے؟ نیتن یاہو شام کی سرزمین میں داخل ہو کر کہتے ہیں کہ وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں۔

حزب اللہ کے سینئر رکن نے گزشتہ ایک سال سے صیہونی حکومت اور شام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ شام اور اسرائیل کے درمیان ایک سال سے مذاکرات جاری ہیں اور وزراء کی سطح پر ملاقاتیں ہوئی ہیں، ان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلا؟ نیتن یاہو نے گزشتہ دو دنوں میں کہا کہ انہیں شام کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے کی کوئی جلدی نہیں ہے اور وہ ایک بفر زون بنانا چاہتے ہیں اور جبل الشیخ میں رہنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ لبنان کے وزیر خارجہ یوسف رجی نے اس سے قبل الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ حزب اللہ کا اسلحہ غزہ کی حمایت اور ملک کے دفاع میں بے اثر ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لبنانی حکومت حزب اللہ کو اس کے ہتھیار حوالے کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے مذاکرات کر رہی ہے، لیکن حزب اللہ اس سے انکار کر رہی ہے۔

News ID 1937054

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha