مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ: ایران کی سرزمینی سالمیت پر صیہونی حکومت کے جارحانہ حملوں کے آغاز کو ایک ہفتہ گزر گیا ہے؛ اس دوران، ایران کے خلاف سفاک صیہونی حکومت کی کھلی جارحیت کے ساتھ ساتھ، ہم نے اس کی میڈیا کی نفسیاتی جنگ شروع کرنے، افواہیں پھیلانے، رپورٹنگ میں اثر انداز ہونے، خوف و دہشت پھیلانے، اختلافات کو ہوا دینے اور روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے رائے عامہ کو تشویش میں مبتلا کرنے کی حکمت عملی کا مشاہدہ کیا ہے۔
اس لیے صیہونی حکومت ایران کے ساتھ جنگ میں اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے میڈیا ٹیکنیکز کا ایک مجموعہ استعمال کرتی ہے، اور اپنے جارحانہ حملوں کو "جائز دفاع" اور "اپنے دفاع کا حق" جیسے مثبت الفاظ کا نام دیتی ہے۔
اس مضمون میں صیہونی حکومت کی ایران کی ارضی سالمیت کے خلاف جارحیت کے درمیان میڈیا کے ہتھکنڈوں اور تکنیکوں کا ایک مجموعہ تصویری شکل میں دکھایا گیا ہے۔
1. افواہ پھیلانا اور طاقت کا مظاہرہ
ایران پر اپنے حملوں میں، صیہونی حکومت نے نفسیاتی بمباری کی ایک بہترین مثال قائم کی، جس میں افواہیں پھیلانا، مشکوک ویڈیوز جاری کرنا، اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش شامل ہے۔ مثال کے طور پر، سوشل میڈیا پر، درجنوں جعلی اکاؤنٹس، جن کی جڑیں صہیونی سائبر آرمی تک جاتی پہنچتی ہیں، دعویٰ کرتے ہیں کہ ایرانی دفاعی نظام ناکارہ ہے۔ اور کئی زیر زمین مقامات زمین بوس ہوگئی ہیں۔ سرکاری طور پر جاری کردہ تصاویر میں، مبینہ اہداف کے اندر ایک بھی دھماکے کی تصویر ریکارڈ نہیں ہوئی ہے۔ درحقیقت یہ نفسیاتی آپریشن حقیقت کے بجائے ایرانی شہریوں کے اذہان میں اضطراب پیدا کرنے کی کوشش تھی، تاکہ اس طرح شاید لوگو کے حوصلے کمزور کرکے اور ملک کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں مایوسی پھیلا کر، ایرانی حکومت پر سیاسی دباؤ کے لیے راستہ ہموار کر سکیں۔
2. متبادل اور غلط خبریں بنانا
صیہونی حکومت کی نفسیاتی جنگ کے ستونوں میں سے ایک متبادل اخبار کی تخلیق ہے۔ یہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ حقائق اتنے اہم نہیں ہیں۔ بلکہ، لوگ جو مانتے ہیں وہی میدان جنگ کا تعین کرتا ہے۔ تہران، کرمانشاہ، اصفہان اور شیراز کے شہروں میں فوجی تنصیبات پر حالیہ فضائی حملوں کے دوران صیہونی حکومت نے پہلے ہی لمحوں میں وسیع پیمانے پر میڈیا کی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی۔ تاکہ عوام کے سامنے ایک کامیاب، ذہانت سے بھرپور، اور درست آپریشن کی تصویر پیش کریں؛ جبکہ ایرانی وزارت دفاع نے چند گھنٹے بعد ہی اعلان کیا کہ خودکش ڈرونز کی بڑی تعداد اپنے اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی مار گرایا گیا ہے۔ تاہم، دشمن نے فوری طور پر نیویارک ٹائمز اور ٹائمز آف اسرائیل کے ساتھ مل کر دعویٰ کیا کہ تمام حملے حساس فوجی مراکز کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ میڈیا کے اس فریب کا مقصد اطلاع رسانی نہیں تھا بلکہ ایرانی رائے عامہ میں شکست اور کمزوری کا احساس پیدا کرنا تھا۔
3. جعلی خبروں کی بڑے پیمانے پر پیداوار کا منصوبہ
صیہونی حکومت اپنے جارحانہ اقدامات کے ساتھ میڈیا کے میدان میں جنگ سے متعلق خبروں اور تصاویر کو جعل کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ ویڈیوز میں، اسرائیلی حکومت ایرانی لانچروں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ جب کہ ان ویڈیوز کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل نے صرف ایک لانچر کی تباہی کے مختلف زاویوں سے کئی ویڈیوز تیار کی ہیں اور انہیں ایڈٹ کر کے الگ الگ زاویے سے ترتیب دے کر شائع کیا ہے!
بنا بر ایں عبرانی میڈیا نے ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر جعلی خبریں بنا کر محاذ کھول دیا ہے۔ وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ اور بجلی کی بندش سے لے کر بڑی تعداد میں خطرناک قسم کے قیدیوں کے فرار ہونے کے دعوؤں تک، منظم اور بامقصد پھیلائی جانے والی جعلی خبریں ہیں۔ ان اخبار کا تجزیہ و تحلیل کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شائع ہونے والی بہت سی ویڈیوز اور تصاویر کا تعلق یا دوسرے ممالک میں پیش آنے والے واقعات سے ہیں، یا وہ پرانے واقعات کی مسخ شدہ ری پرنٹ ہیں۔ اس نفسیاتی جنگ کی واضح مثالوں میں سے ایک ایران میں نشے کے علاج کے مرکز کے بارے میں نشر شدہ ویڈیو تھی، جسے عبرانی میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس میں "تہران کی بڑی جیل سے سخت سیکورٹی والے قیدیوں کا فرار" کے عنوان سے بڑے پیمانے پر دوبارہ شائع کیا گیا تھا۔ جبکہ ایک سادہ سی تحقیق سے اس کا من گھڑت ہونا مشخص ہوجاتا ہے۔
اس میڈیا اسٹریم کا بنیادی ہدف ایران میں عدم استحکام، داخلی سلامتی کا خاتمہ اور حکومت کے کنٹرول کے فقدان کو باور کرانا ہے۔ جبکہ اس طرح کی خبریں نہ فقط واقعی نہیں ہیں بلکہ صیہونی حکومت کی اپنے ملکی اور غیر ملکی سامعین کے لیے نفسیاتی بحران پیدا کرنے کی ضرورت کی زیادہ عکاسی کرتی ہیں۔ یہ حربہ نہ صرف ایران کی حقیقی صورتحال کے بارے میں ان کی معلومات کی کمی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ان کے لیے موجودہ جنگ کا محور عسکری کے بجائے میڈیا اور نفسیاتی ہے!
4. ایران میں عام شہریوں کی تحفظ کا یقین دلانا
اسرائیلی جارح حکومت اپنے پروپیگنڈے میں یہ بہانہ کرتی ہے کہ وہ اپنے حملے احتیاط سے اور رہائشی علاقوں پر حملے کیے بغیر کرتی ہے، لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ صیہونی حکومت کے جارحانہ حملوں سے ہسپتال اور مریض بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ان میں تہران کے حکیم ہسپتال اور ایک ایمبولینس کو نشانہ بنانا شامل ہے جس کے نتیجے میں تین طبی عملے کی شہادت ہوئی تھی۔ صیہونی حکومت نے جارحیت کے پہلے ہی دنوں میں کرمانشاہ کے فارابی اسپتال پر حملہ کیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہسپتالوں پر بمباری کے باوجود صیہونی حکومت کے حکام اور ذرائع ابلاغ نے عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ ایرانی شہریوں کو مختلف علاقوں سے نکلنے کی متعدد وارننگز کا بھی اسی تناظر میں تجزیہ کیا جا سکتا ہے اور وہ اس اقدام سے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عام شہریوں کی جانوں کا تحفظ ان کے لیے اہم ہے۔
5. یہ باور کرانا کہ اسرائیل ٹارگٹڈ حملے کرتا ہے جبکہ ایران اندھا دھند حملے کرتا ہے۔
صیہونی حکومت کا میڈیا یہ خیال پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کے حملے قطعی اور معینہ اہداف پر ہوتے ہیں، جبکہ ایران کے حملے پراگندہ اور اندھا دھند ہیں۔ صیہونی میڈیا پر ایک سرسری نظر اس حربے کو ظاہر کرتی ہے۔
ویزمین انسٹی ٹیوٹ، جو برسوں سے اسرائیلی حکومت کے ہتھیاروں کی تحقیق سے منسلک ہے، کو بھی ایرانی میزائل حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ عام شہریوں کے خلاف استعمال ہونے والے آلات تیار کرنے میں انسٹی ٹیوٹ کے کردار کے جواب میں کیا گیا۔
ہاریٹز (Haaretz) میڈیا گروپ سے وابستہ اقتصادی اخبار "دی مارکر" کے مطابق، ادارے کے اندر کئی عمارتوں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا، اور ایک اہم لیبارٹری کمپلیکس مکمل طور پر جل کر تباہ ہو گیا۔
یہ جدید تحقیقی مرکز بیالوجی، مصنوعی ذہانت، اور Molecular biology کے شعبوں میں کام کرتا ہے۔ وہ شعبے جنہوں نے صیہونی حکومت کی جاسوسی اور نظارتی سیسٹم میں ترقی، اہداف کو نشانہ بنانے اور ہتھیاروں کی ترقی میں براہ راست کردار ادا کیا ہے، ایسے سسٹمز جو خطے کے مختلف حصوں کے خلاف حکومت کی جارحیت میں استعمال ہوئے ہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل حال ہی میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ ایران نے ویزمین انسٹی ٹیوٹ کی 45 لیبارٹریوں کو تباہ کر دیا ہے۔ صرف ایک خالی لیبارٹری کی تعمیر کی تخمینہ لاگت تقریباً 50 ملین ڈالر ہے۔ اسے صحیح آلات سے لیس کرنے پر مزید $50 ملین لاگت آسکتی ہے۔
6. سنسر شپ اور مخفی کاری
صیہونی حکومت نے مسلسل یہ ثابت کیا ہے کہ وہ جنگی علاقوں تک میڈیا کی رسائی کو کنٹرول کرکے، جنگی علاقوں تک صحافیوں کی رسائی کو محدود کرکے، مقبوضہ علاقوں پر ایرانی حملوں کی تصاویر شائع کرنے والے متعدد صحافیوں کو گرفتار کرکے، اور غیر ملکی صحافیوں کو بے دخل کرکے اطلاعات کے عام ہونے پر سخت کنٹرول رکھتی ہے۔
میڈیا کو تباہی کی حد اور ہلاکتوں کی تعداد کی اطلاع دینے سے روکنے کی کوششوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور سیکیورٹی ادارے مقبوضہ علاقوں پر ایرانی میزائل حملوں سے ہونے والے جانی نقصان کے اعدادوشمار کو شائع کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ بعض ذرائع نے ان حملوں کے دوران بہت زیادہ اسرائیلی زخمیوں اور ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اطلاع دی ہے کہ ایران کی میزائل کارروائیوں کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد 1800 سے تجاوز کر گئی ہے۔
اس کے علاوہ، سنسرشپ کے ساتھ عوام میں نفسیاتی طور پر رعب و وحشت پھیلنے سے روکنے کی کوشش بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکاری عبرانی میڈیا ایرانی حملوں سے ہونے والے دھماکوں اور نقصانات کی خبریں شائع کرنے سے سختی سے گریز کرتا ہے۔ اگر دھماکہ بہت شدید ہے اور اسے چھپایا نہیں جا سکتا، تو اس کا اعلان زیادہ سے زیادہ 15 گھنٹے کی تاخیر سے کیا جاتا ہے، وہ بھی صرف ایک مختصر خبر کے طور پر۔ متاثرہ علاقوں کی ویڈیو بنانا اور رپورٹنگ کو "داخلی سلامتی کے لیے خطرہ" سمجھا جاتا ہے اور ایسا کرنے پر صحافیوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ ایک خبر رساں ایجنسی کے عملے کو ایرانی حملے سے پہلے صرف حیفہ کے آسمان کی فلم بندی کرنے پر حراست میں لیا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ 550,000 سبسکرائبرز رکھنے والے تل ابیب کے ایک مشہور چینل نے دو ٹوک الفاظ میں لکھا: "اب ہمارے اپنے لوگوں کے علاوہ پوری دنیا ہمارے حالات کے بارے میں جانتی ہے!" معلومات کو دبانے کی اتنی کوششیں عوام میں نفسیاتی شکست ظاہر ہونے کے گہرے خوف کی علامت ہے۔
7. اسرائیلی فوج کی جعلی فوجی طاقت دکھا کر حقیقت سے فرار
عبرانی ذرائع ابلاغ روزانہ ایرانی سرزمین پر مبینہ حملوں کی کئی ویڈیوز شائع کرتے ہیں، جو اکثر جعلی، من گھڑت یا مبالغہ آمیز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انہوں نے فخر کے ساتھ مہر آباد میں دو پرانے F-14 ریپلیکس کو ایرانی لڑاکا طیاروں کے طور پر مارا! یا انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے لڑاکا طیارے مشہد پہنچ گئے اور اسے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی آپریشن قرار دیا۔ جبکہ تکنیکی طور پر جنگی طیارے ایندھن بھرے بغیر اتنی دوری سے واپس نہیں جا سکتے، ڈرونز یا جاسوسوں کے ذریعے کی جانے والی بہت سی کارروائیوں کو "مکمل برتری" کی تصویر پیش کرنے کے لیے فضائی حملوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
8. مصنوعی ذہانت، ہیش ٹیگز، اور ہیرا پھیری
حملے کے بعد کے دنوں میں ٹوئٹر پر کچھ ہیش ٹیگز کا ٹرینڈ ہونا کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ صہیونی سائبر آرمی کی جانب سے روبوٹک اکاؤنٹس اور مصنوعی ذہانت کو متحرک کرنے کا نتیجہ تھا۔ ان ہیش ٹیگز کا مقصد ہر طرف سے جنگ کو بھڑکانا، خوف کو ہوا دینا اور نفسیاتی عدم استحکام پھیلانا تھا۔ سائبرسیکیوریٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ابتدائی اوقات میں ان ہیش ٹیگز کو ٹرینڈ کرنے والے اکاؤنٹس میں سے 70% سے زیادہ غیر انسانی روبوٹک تھے اور ان کا مقصد حملوں کی شدت اور گہرائی کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو اپنے فائدے میں ہموار کرنا تھا۔
آپ کا تبصرہ