مہر خبررساں ایجنسی، طبی ڈیسک: جوہری توانائی کو عموما ہتھیاروں، سیاسی تناؤ اور عالمی کشمکش سے جوڑا جاتا ہے، لیکن ایران نے اس طاقت کو انسان دوستی، علاج، اور سائنسی خودکفالت کے لیے استعمال کرکے ایک منفرد مثال قائم کی ہے۔ ایسے وقت میں جب مغرب کی جانب سے سخت ترین اقتصادی اور سائنسی پابندیاں عائد تھیں، ایران نے نیوکلیئر میڈیسن جیسے حساس اور تکنیکی شعبے میں قدم جماتے ہوئے دنیا کو دکھایا کہ پرامن جوہری ٹیکنالوجی، انسانی صحت کی خدمت میں کیسے کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ رپورٹ ایران کے جوہری طبی نظام کی ترقی، مقامی سطح پر ریڈیائی ادویات کی تیاری، اور لاکھوں مریضوں کو سستے اور مؤثر علاج کی فراہمی جیسے پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتی ہے کہ کس طرح ایک قوم نے سائنس، عزم اور خودانحصاری کو یکجا کر کے نہ صرف داخلی ضروریات پوری کیں بلکہ عالمی منڈی میں بھی اپنی اہمیت منوائی۔
بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ایران نے نیوکلیئر میڈیسن کے شعبے میں حیرت انگیز پیشرفت کی ہے اور آج ملک کی 90 فیصد سے زائد جوہری طبی خدمات مقامی سطح پر فراہم کی جارہی ہیں۔ ایران نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اس میدان میں ممتاز مقام حاصل کرچکا ہے۔
ایٹمی ٹیکنالوجی میں ایران کا مقام
ڈاکٹر محسن ساغری، جو تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے پروفیسر اور جوہری طب کی قومی سائنسی انجمن کے سابق صدر ہیں، اس تاریخی سفر کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انقلاب اسلامی سے قبل دنیا کے چند ہی ممالک اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہے تھے اور ایرانی مریضوں کو علاج کے لیے مہنگے اخراجات کے ساتھ بیرونِ ملک جانا پڑتا تھا۔
2018 میں ایران کی سب سے بڑی ریڈیو ایکٹو ادویات فراہم کرنے والی کمپنی "پارس ایزوٹوپ" کو خاموشی سے بین الاقوامی پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کمپنی کی تیار کردہ ادویات پر ملک کے 180 سے زائد جوہری طبی مراکز انحصار کرتے تھے، جو سالانہ 10 لاکھ سے زائد مریضوں کو خدمات فراہم کرتے ہیں۔ یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب ان ہی پابندیوں میں ادویات اور زرعی اشیاء کو مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، جو ایک واضح تضاد اور غیر انسانی اقدام تھا۔ اسی دباؤ کے تحت ایرانی سائنسدانوں نے اس شعبے میں خودکفالت کو اپنی ترجیح بنا لیا۔ آج ایران ان چند ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو مقامی سطح پر ریڈیائی ادویات نہ صرف تیار کر رہے ہیں بلکہ انہیں برآمد بھی کر رہے ہیں۔
جوہری ٹیکنالوجی میں ایران کی پوزیشن کے بارے میں ڈاکٹر محسن ساغری نے کہا کہ نیوکلیئر میڈیسن جدید طبی سائنس کی ایک اہم اور تخصصی شاخ ہے جو جوہری توانائی کے پُرامن استعمال کی نمایاں مثال سمجھی جاتی ہے۔ اس شعبے کی بنیاد دو عناصر پر ہے: Radio pharmaceuticals اور تخصصی آلات؛ جن میں سے کسی ایک کی کمی پورے نظام کو متاثر کر سکتی ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں میں ایران نے جوہری طب کے شعبے میں نمایاں ترقی کی ہے۔ اس میدان میں کام بنیادی طور پر تشخیص اور علاج کی دو جہتوں پر مرکوز ہے۔ جہاں یہ ٹیکنالوجی روایتی تشخیصی ذرائع کی تکمیل کرتی ہے، وہیں بعض بیماریوں میں اس کی کارکردگی منفرد اور ناگزیر ہے۔
انقلاب اسلامی سے قبل ایران میں اس شعبے کا کوئی تربیت یافتہ ماہر موجود نہیں تھا۔ لیکن 1981 میں تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز میں جوہری طب کی تعلیم کا آغاز ہوا اور 1983 سے باقاعدہ اسپیشلائزیشن پروگرام بھی شروع ہوگیا۔ آج ایران میں سینکڑوں تربیت یافتہ ماہرین، ٹیکنیشنز اور سائنسدان اس شعبے میں سرگرمِ عمل ہیں۔
نیوکلئیر میڈیسن کے شعبے میں ایران کی پیشرفت
ملک میں جوہری طب کی پیشرفت کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر محسن ساغری کہتے ہیں کہ اس وقت ایران میں 200 سے زائد نیوکلیئر میڈیسن مراکز فعال ہیں جو روزانہ ہزاروں مریضوں کو تشخیصی اور علاج کی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ایران اس شعبے میں مغربی ایشیا کے تمام ممالک پر فوقیت رکھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایرانی ماہرین نے داخلی وسائل سے تقریباً 30 اقسام کی تشخیصی کٹس تیار کی ہیں جو مختلف بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ کینسر اور دیگر مہلک امراض کے علاج کے لیے جدید ریڈیائی ادویات کی تیاری میں بھی ایران نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بین الاقوامی پابندیاں، جو کہ خاص طور پر طبی آلات اور جوہری ادویات کی درآمد میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، ایران کی اس پیشرفت میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ آج ایران نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ علاقائی سطح پر جوہری طب کے اہم کردار کے طور پر بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔
کینسر کے علاج میں ایرانی ساختہ دوائیوں کی تاثیر
ملکی سطح پر تیار ہونے والی دوائیوں کے کینسر کے علاج پر اثرات کے بارے میں ڈاکٹر محسن ساغری نے کہا کہ ایران میں مقامی طور پر تیار کی گئی ریڈیائی ادویات نے کینسر کے علاج میں ایک انقلابی تبدیلی ایجاد کی ہے۔ جب کہ مغربی ممالک میں ایسے علاج پر فی مریض ہزاروں ڈالر خرچ ہوتے ہیں، ایران میں یہی خدمات نسبتاً انتہائی کم خرچ پر فراہم کی جاتی ہیں، جو طبی ترقی کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ ایرانی ماہرین اس وقت نئی ریڈیائی ادویات پر کام کررہے ہیں جو کلینیکل ٹرائل کے مراحل سے گزر رہی ہیں اور جلد ملک کے جوہری طبی مراکز میں استعمال کے لیے دستیاب ہوں گی۔ ان میں سب سے جدید ٹیکنالوجی "آلفا تھراپی" ہے۔ یہ طریقہ کینسر کے عالمی سطح پر جدید ترین علاج میں شمار ہوتا ہے اور ایران میں اس کا استعمال، سرطان کے علاج میں ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ایران نے جوہری طب میں 90 فیصد سے زیادہ تشخیصی و علاجی خدمات مقامی سطح پر مہیا کردی ہیں۔ یہ پیشرفت نہ صرف علاقائی برتری کی علامت ہے بلکہ ایران کو عالمی سطح پر بھی ایک باوقار مقام پر لے جاچکی ہے۔
نیوکلئیر میڈیسن کی تیاری میں ایٹمی توانائی کا کردار
ایران میں ریڈیوایکٹیو میڈیسن کی تیاری میں یورینیم کی افزودگی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ساغری نے کہا کہ یورینیم کی پرامن افزودگی اور جوہری توانائی سے استفادہ، جوہری طب کی ترقی کا بنیادی ستون ہیں۔ ان سائنسی پیشرفتوں کی بدولت نہ صرف مقامی سطح پر ریڈیائی ادویات کی تیاری ممکن ہوئی بلکہ جدید سرطان تھراپی کا راستہ بھی کھلا۔ ایران نے اب اس میدان میں معیار اور مقدار دونوں لحاظ سے بین الاقوامی معیار کے قریب تر پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایران نے ریڈیائی ادویات کی تیاری اور برآمدات میں اہم مقام حاصل کیا ہے، اور ہر سال 10 لاکھ سے زائد مریض ان ادویات سے مستفید ہوتے ہیں۔
ریڈیوفارماسیوٹیکلز کی دوسرے ممالک کو برآمد
دوسرے ممالک کو ریڈیو ایکٹیو میڈیسن برآمد کرنے کے بارے میں سوال پر ڈاکٹر ساغری نے کہا کہ ایران نے حالیہ برسوں میں نئی نسل کی ریڈیائی ادویات تیار کرکے نہ صرف ملک کے اندر پیچیدہ بیماریوں بالخصوص کینسر کے علاج میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، بلکہ ان ادویات کو 40 سے زائد ممالک کو برآمد بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ برآمدات ایران کے لیے سائنسی ساکھ، زرمبادلہ کمانے اور عالمی طبی زنجیر میں شمولیت کا باعث بنی ہیں، جو ایک اہم علمی-اقتصادی کامیابی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، سالانہ 10 لاکھ سے زائد ایرانی مریض جوہری طبی مراکز سے تشخیصی و علاجی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ یہ اعداد، جوہری طب کے قومی نظام کی وسعت اور اس کی معاشرتی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ یہ کامیابی مکمل طور پر پرامن جوہری توانائی کی ترقی اور ریڈیائی ادویات کی اندرون ملک تیاری کی مرہونِ منت ہے۔
ڈاکٹر ساغری خبردار کرتے ہیں کہ اگر ایران میں پرامن جوہری سرگرمیاں بند ہوجائیں تو لاکھوں شہریوں کی صحت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ کیونکہ ریڈیائی ادویات اور متعلقہ آلات کی تیاری میں جوہری ٹیکنالوجی بنیادی کردار ادا کرتی ہے اس لیے جوہری توانائی کی بقاء اور ترقی صرف سائنسی ضرورت نہیں بلکہ ایک قومی ترجیح بن چکی ہے۔
پابندیاں خودکفالت کا ذریعہ بنیں
جوہری پروگرام کی ترقی پر پابندیوں کے اثرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی سے پہلے، ایران زیادہ تر ریڈیو ایکٹیو میڈیسن کے لیے غیر ملکی سپلائرز پر انحصار کرتا تھا۔ لیکن پابندیوں کے شدت اختیار کرنے کے بعد، ایران نے ریڈیائی ادویات کی مقامی سطح پر تیاری کا آغاز کیا۔ جوہری ماہرین اور سائنسدانوں کی دن رات محنت کے نتیجے میں ایران نے جوہری توانائی میں اہم کامیابی حاصل کی۔ آج ایران نہ صرف ملکی سطح پر خودکفیل ہوچکا ہے بلکہ حالیہ برسوں میں ایران کی جانب سے ریڈیائی ادویات کی برآمدات میں بھی تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ یہ برآمدات ایران کے لیے زرمبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، عالمی سطح پر ایران کا سائنسی و صنعتی مقام بھی مستحکم ہوا ہے۔ ایرانی ساختہ ریڈیائی ادویات جیسے لوتیشیوم-177، استرانشیوم اور ساماریوم، جو دنیا بھر میں ہزاروں ڈالرز میں فروخت ہوتی ہیں، ایران میں انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ یہ دوائیں کینسر خصوصاً پروسٹیٹ کینسر اور ہڈیوں کی بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر ساغری کے بقول، یہ معاشی و طبی فائدہ صرف اس وقت ممکن ہوا جب ایران نے ان ادویات کی مقامی سطح پر تیاری کو ترجیح دی اور جوہری توانائی کے قومی ادارے نے بھرپور تکنیکی و مالی معاونت فراہم کی۔
آپ کا تبصرہ