مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران امریکی اقتصادی پابندیوں کو غیر موثر ثابت کرنے کے لئے مختلف ذرائع سے عالمی منڈیوں تک رسائی کی کوشش کررہا ہے۔ بین الاقوامی نمائشیں اب اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے محض تجارتی یا تشہیری سرگرمی نہیں رہیں بلکہ ایک مؤثر سفارتی حکمت عملی بن چکی ہیں، جس کے ذریعے ایران نہ صرف عالمی سطح پر اپنی اقتصادی ساکھ کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے اور پابندیوں کے باوجود عالمی معیشت سے اپنا تعلق جوڑنے کی راہیں بھی تلاش کر رہا ہے۔
دنیا بھر میں نمائشوں کا انعقاد اب روایتی مارکیٹنگ کے دائرے سے نکل کر عالمی تعاون، پائیدار ترقی، ٹیکنالوجی، اور ثقافتی پیشرفت کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے۔ اس کثیرالجہتی رجحان کو (Exhibition Diplomacy) کا نام دیا جاتا ہے، جس میں مختلف ممالک نہ صرف اپنی معاشی و صنعتی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اپنے قومی تشخص اور تکنیکی خودکفالت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔
پابندیوں کے باوجود معاشی ترقی کی طرف قدم
بین الاقوامی پابندیوں اور اقتصادی دباؤ کے باوجود ایران نے جس حکمت عملی کو اپنایا ہے، وہ اسے Global Value Chain میں اپنا فعال کردار دوبارہ حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ایران نے ایگزیبیشن ڈپلومیسی کو ایک اسٹریٹجک ضرورت کے طور پر اپنایا ہے، جو پابندیوں کے باوجود ملک کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، برآمدات میں تنوع پیدا کرنے اور اقتصادی خودمختاری کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہی ہے۔
ایران ایکسپو 2025، ایران-افریقہ تجارتی اجلاس، اور بین الاقوامی تیل و گیس نمائش جیسے ایونٹس ایران کے اس نئے وژن کی مثالیں ہیں، جن کے تحت نمائشوں کو قومی سطح پر منصوبہ بندی کے ساتھ منعقد کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی نمائشیں ایران اور غیر ملکی تاجروں، سرمایہ کاروں، اور اقتصادی اداروں کے درمیان براہِ راست ملاقاتوں اور تبادلۂ خیال کا ایک قیمتی موقع فراہم کرتی ہیں۔ ان ملاقاتوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اکثر اُن رسمی مالیاتی نظاموں سے آزاد ہوتی ہیں جو مغربی پابندیوں کے باعث متاثر ہوچکے ہیں۔ ایسی غیر رسمی ملاقاتیں بعض اوقات عملی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمسایہ ممالک اور ایشیائی اقتصادی شراکت دار خاص دلچسپی کے ساتھ ایرانی منڈی میں داخل ہونے یا اپنی موجودگی بڑھانے کے خواہاں ہیں ایسی نمائشیں اس ضمن میں پل کا کردار ادا کرتی ہیں۔
نان پیٹرولیم برآمدات کو بڑھانے کا نیا راستہ
ایران کے لیے تیل کی برآمدات ہمیشہ سے آمدنی کا بڑا ذریعہ رہی ہیں، لیکن پابندیوں کے باعث اس میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ان حالات میں غیر تیل برآمدات کو فروغ دینا ایک ناگزیر قومی ترجیح بن چکی ہے۔ بین الاقوامی نمائشیں ایران کی صنعتی، زرعی اور خدماتی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر پیش کرتی ہیں، جس کے ذریعے نئی برآمدی منڈیوں تک رسائی حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ عمل ایران کو ایک متنوع اور لچکدار برآمدی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے جو صرف تیل پر انحصار کرنے کے بجائے دیگر شعبوں کو بھی متحرک کرتا ہے۔
ملکی کامیابیوں کی نمائش اور تشخص کا فروغ
پابندیوں کے تناظر میں مقامی پیداوار، ٹیکنالوجی میں خودکفالت، اور قومی وقار کی اہمیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ایران بین الاقوامی نمائشوں کو ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر رہا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی صنعتی ترقی، سائنسی تحقیق، اور تکنیکی کامیابیوں کو دنیا کے سامنے لارہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف ایران کے قومی تشخص کو تقویت دیتا ہے بلکہ عالمی صارفین، شراکت داروں اور سرمایہ کاروں میں ایرانی مصنوعات اور خدمات کے لیے دلچسپی بھی پیدا کرتا ہے۔ اس سے ایران کا قومی برانڈ بھی عالمی سطح پر مستحکم ہو رہا ہے۔
ٹیکنالوجی کی منتقلی اور علم کا تبادلہ
نمائشوں میں شریک غیر ملکی کمپنیاں مقامی صنعتکاروں اور اداروں کے لیے سیکھنے، مشاہدہ کرنے، اور تعاون کی نئی راہیں فراہم کرتی ہیں۔ یہ روابط تکنیکی معلومات، مشینری، سافٹ ویئر، اور صنعتی تجربے کے تبادلے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں جب کہ ایران کو بیرونی ٹیکنالوجی اور ساز و سامان تک محدود رسائی حاصل ہے، یہ تبادلہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایرانی صنعتوں کی تکنیکی استعداد میں اضافہ نمائشوں کے ذریعے ممکن ہو رہا ہے۔
روزگار کے مواقع اور کاروباری سیاحت کو فروغ
بین الاقوامی نمائشیں معیشت کے مختلف شعبوں میں ملازمتوں کے براہِ راست اور بالواسطہ مواقع پیدا کرتی ہیں۔ ان نمائشوں کی تیاری، انعقاد اور بعد ازاں تجارتی سرگرمیوں سے متعلق خدمات میں ہزاروں افراد کو قلیل مدتی یا طویل مدتی روزگار حاصل ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، کاروباری سیاحت کو بھی فروغ ملتا ہے۔ ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ، خوراک، اور دیگر خدماتی شعبے براہ راست ان سرگرمیوں سے مستفید ہوتے ہیں، جو مجموعی قومی آمدنی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
نتیجہ: ایگزیبیشن طویل المدتی حکمت عملی
ایران کی ایگزیبیشن ڈپلومیسی دراصل ایک ہمہ جہت اور طویل المدتی قومی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد پابندیوں کے موجودہ حالات میں بھی عالمی برادری کے ساتھ تعمیری اور ذہانت پر مبنی رابطہ قائم رکھنا ہے۔ یہ حکمت عملی صرف معیشت تک محدود نہیں بلکہ اس میں ثقافت، ٹیکنالوجی اور سفارت کاری کو بھی مربوط انداز میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر اس منصوبے پر موثر منصوبہ بندی، باہمی تعاون، اور سرگرم پالیسی سازی کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو یہ ایران کی علاقائی اور عالمی حیثیت کی بحالی کے لیے ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ بین الاقوامی نمائشوں کو محض نمائشی یا علامتی سرگرمی نہ سمجھا جائے بلکہ انہیں ایک جامع اور دیرپا قومی حکمت عملی کا لازمی جزو تصور کیا جائے، جو ایران کی معیشت کو مضبوط، متنوع، اور عالمی سطح پر مؤثر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔
آپ کا تبصرہ