مہر خبررساں ایجنسی، اقتصادی ڈیسک: ایران کے خلاف اسنیپ بیک میکانزم فعال کرنے کے لیے مغربی دباؤ کے باوجود، ایران نے خود انحصاری پر مبنی حکمت عملی کے تحت پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اور مغربی اقدامات کو زیادہ تر ناکام بنا دیا ہے۔
مغرب کا سخت گیر موقف اس بات کی علامت ہے کہ وہ مذاکرات کے بجائے پابندیاں بڑھانے پر مصر ہے تاہم ایران نے ان اقدامات کے اثرات کو داخلی قوت کے ذریعے کم کرنا ترجیح دی ہے، جسے "معاشی مزاحمت" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایران نے اہم شعبوں، جیسے پٹرولیم کی پیداوار، میں خودکفالت حاصل کرنے کے ساتھ مشرقی بلاکس کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری قائم کی، جس سے بیرونی اقتصادی دباؤ کے اثرات کو مؤثر طریقے سے کم کیا گیا ہے۔ کاغذی طور پر یہ امکان موجود ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ضمنی اجلاس میں ایران اور یورپ کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے، لیکن یورپ اور امریکہ کی سخت گیر پوزیشنیں واضح کرتی ہیں کہ فی الحال وہ اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ یہ پابندیاں حقیقت میں کتنی مؤثر ہیں؟
ایران کے لیے پابندیوں کا انتظار کرنے کی بجائے ان کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فعال اور حکمت عملی پر مبنی طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ ایران کی اقتصادی پالیسی اس بات پر قائم ہے کہ پابندیوں کے اثرات کو کم کرنا ملک کی اپنی طاقت اور صلاحیتوں سے ممکن ہے۔ یہ فلسفہ ملک گیر کوشش کا سبب بنا کہ ایک ایسی معیشت تیار کی جائے جو بیرونی دباؤ کے اثرات سے محفوظ ہو۔
اس کامیابی کی سب سے واضح مثال پٹرول کی پیداوار میں نظر آتی ہے۔ دہائیوں تک ایران خام تیل کی مصنوعات بشمول پٹرول کا خریدار رہا، جس کی وجہ سے سپلائی میں خلل اور مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کا شکار رہا۔ تاہم پابندیوں کی وجہ سے ایران نے صنعتی اور تکنیکی خودکفالت حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کردی۔
گزشتہ دس سالوں میں ایران نے نہ صرف یہ ہدف حاصل کیا بلکہ پٹرول کا برآمد کنندہ بھی بن گیا، جس نے ایک ممکنہ خطرے کو موقع میں بدل دیا۔ یہ کامیابی ملک بھر میں پابندیوں کے اثرات کو داخلی ترقی کے ذریعے کم کرنے کی وسیع تر قومی کوشش کی علامت ہے۔ اس کوشش کو رسمی طور پر "مزاحمتی معیشت" کے تصور میں شامل کیا گیا ہے، جو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہای کی معاشی حکمت عملی ہے۔
مزاحمتی معیشت صرف پابندیوں کے جواب میں ردعمل نہیں بلکہ ایک جامع منصوبہ ہے جو ایک مضبوط، خود مختار اور داخلی طور پر چلنے والی اقتصادی نظام قائم کرنے کا رہنما اصول ہے۔ اس کے بنیادی اصولوں میں تیل کی آمدنی پر انحصار کم کرنا، ہر شعبے میں داخلی پیداوار کو بڑھانا اور ایرانی مصنوعات کو فروغ دینا شامل ہے۔
داخلی پیداوار پر توجہ اس حکمت عملی کا اصل مرکز ہے۔ ایرانی مصنوعات خریدنے کی بار بار اپیل محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک اقتصادی ضرورت ہے۔ قومی مصنوعات کو ترجیح دے کر ایران اپنے داخلی بازار کو مضبوط کرنے کے ساتھ پائیدار روزگار پیدا کرسکتا ہے، اور اپنی اہم صنعتوں کو بیرونی مالی اور تجارتی پابندیوں کے جھٹکوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
مزید برآں، ایران کی خارجہ پالیسی کو بھی داخلی کوششوں کے مطابق حکمت عملی کے تحت تبدیل کیا گیا ہے۔ غیر فعال رہنے کی بجائے فعال طریقے سے آزاد عالمی طاقتوں اور علاقائی بلاکس کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط کو مضبوط کیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور بریکس گروپ کے ساتھ تعلقات اس میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
ان بلاکس کے ساتھ تعاون سے ایران کو متبادل تجارتی راستے، مالی ذرائع اور سیاسی حمایت فراہم ہوتی ہے، جس سے مغرب کی یکطرفہ پابندیاں بہت حد تک غیرمؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ حکمت عملی مضبوط دوطرفہ شراکت داریوں سے بھی تقویت پاتی ہے۔ چین کے ساتھ 25 سالہ جامع اسٹریٹجک شراکت داری اور روس کے ساتھ فوجی و اقتصادی تعلقات کی مضبوطی طویل مدتی تعاون کے قیام میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ان ممالک کے ساتھ شراکت داری کے نتیجے میں ایران کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی امریکی اور مغربی سازش ناکام ہوگئی۔
اگرچہ یہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پابندیاں مشکلات پیدا کرتی ہیں اور ایرانی قوم کے لیے ترقی کا راستہ مشکل بناتی ہیں، مگر آخرکار ان پابندیوں کے اہداف حاصل نہ ہوسکے۔ اس کا واضح ثبوت ملک میں ترقی کرتی ہوئی داخلی پیداوار، اہم شعبوں میں خودکفالت اور بڑھتی ہوئی بین الاقوامی شراکت داریان ہیں۔
روس اور چین جیسے ممالک کے ساتھ شراکت داری میں متبادل ادائیگی کے نظام اور ڈیجیٹل کرنسیوں کو فروغ ملنے کا امکان ہے، جو مالی پابندیوں کے خلاف مزید تحفظ فراہم کرے گی۔ مزید برآں، ایران کا تجربہ نہ صرف قومی سطح پر اہم ہے بلکہ یہ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک ماڈل ہے جو کثیر قطبی دنیا میں اقتصادی آزادی اور خودمختاری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
مزاحمتی معیشت کے اصول مغربی زیر اثر اقتصادی نظام کا ایک قابل عمل متبادل فراہم کرتے ہیں اور لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے ممالک کے لئے دلچسپ ہوسکتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ