7 جون، 2025، 3:49 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

ایران کا اپنے جوہری حقوق کے تحفظ کا غیر متزلزل عزم، قومی خودمختاری کی نشاندہی کرتا ہے

ایران کا اپنے جوہری حقوق کے تحفظ کا غیر متزلزل عزم، قومی خودمختاری کی نشاندہی کرتا ہے

حال ہی میں رہبر معظم انقلاب نے اپنے خطاب میں یورینیم افزودگی کے ایران کے حق کا دفاع کرتے ہوئے امریکی مطالبات کو واضح طور پر مسترد کر دیا۔

مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی کی رحلت کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں یورینیم افزودگی کے ایران کے حق کا دفاع کیا۔

انہوں نے افزودگی کے عمل کو روکنے کے امریکی مطالبات کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مطالبات ایران کی قومی امنگوں اور خود انحصاری کے خلاف ہیں۔

رہبر انقلاب نے واضح کیا کہ امریکہ یہ حکم دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ آیا ایران کو افزودگی میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں۔"

انہوں نے یورینیم افزودگی کو ایران کی جوہری صنعت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ایک سو ایٹمی بجلی گھر بھی آزادانہ طور پر جوہری ایندھن پیدا کرنے کی صلاحیت کے بغیر بے معنی ہوں گے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ امریکہ کا اصل مقصد جوہری عدم پھیلاؤ نہیں ہے بلکہ ایران کی جوہری صلاحیتوں کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے جسے ایران ہرگز قبول نہیں کرے گا۔

یہ ریمارکس ایک گہرا پیغام رکھتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام قومی ترقی اور آزادی کا ایک اسٹریٹجک ستون ہے۔

جیسا کہ رہبر انقلاب نے واضح کیا کہ جوہری ٹیکنالوجی صرف توانائی کی پیداوار کا ایک ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک "مدر انڈسٹری" ہے جو طب، زراعت، فارماسیوٹیکل، ایرو اسپیس، نینو ٹیکنالوجی اور دفاعی شعبے میں ترقی کی ضامن ہے، اس صنعت کا تحفظ ایران کے سائنسی اور تکنیکی مستقبل کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔

آج کی دنیا میں، جہاں توانائی کی عالمی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ترقی یافتہ ممالک اپنے جوہری شعبوں کو وسعت دے رہے ہیں، ایران کی پرامن جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی سے انکار نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ بین الاقوامی اصولوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔

ایران، جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کے پابند دستخط کنندہ کے طور پر، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ مسلسل تعاون کرتا رہا ہے اور اسے اپنے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت کی بارہا تصدیقیں موصول ہوئی ہیں۔ پھر بھی، کچھ مغربی طاقتیں—خاص طور پر امریکہ — جوہری ہتھیاروں کے خطرے سے نہیں، بلکہ ایک آزاد، سائنسی طور پر ترقی یافتہ ایران سے خوف زدہ ہے جو بیرونی تسلط کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔

رہبر انقلاب نے بجا طور پر یورینیم افزودگی کو اسٹریٹجک خود مختاری کی علامت کی قرار دیا ہے، کیونکہ مغربی دباؤ خواہ اقتصادی ہو یا سیاسی وہ صرف ایران کے جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ تاہم، ایک ایسی قوم جو اپنے ری ایکٹر کا ایندھن خود تیار نہیں کر سکتی اور وہ غیر ملکی سپلائرز کے رحم و کرم پر ہو، اسے اعلیٰ قیمتوں پر اور سیاسی طور پر محرک حالات میں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس طرح کا انحصار بنیادی طور پر قومی خودمختاری کے اصول سے متصادم ہے۔

رہبر انقلاب کے خطاب کے سب سے زیادہ متاثر کن حصوں میں سے ایک عالمی سفارت کاری کے لیے امریکی نقطہ نظر کو ان کا براہ راست چیلنج تھا۔ "آپ اس میں مداخلت کیوں کرتے ہیں کہ آیا ایران یورینیم افزودہ کرتا ہے؟ آپ کون ہوتے ہیں جو یہ فیصلہ کریں؟

یہ سوال عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار اور تسلط پسندانہ ہتھکنڈوں کے خلاف ایک زبردست احتجاج تھا۔

امریکہ اور یورپ کے اس روئے نے مشترکہ جامع منصوبہ بندی (JCPOA) جیسے مغربی وعدوں پر ایرانی اعتماد کو ختم کر دیا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ایران اب دفاعی انداز میں نہیں ہے۔ کئی دہائیوں کی سائنسی سرمایہ کاری، اپنے نوجوانوں کی لگن اور محنت سے حاصل کئے گئے سفارتی تجربے کے ساتھ، یہ ملک اب مستقبل کے کسی بھی مذاکرات میں اپنی شرائط خود طے کرنے کے قابل ہے۔

اسلامی جمہوریہ کی ایٹمی کامیابیاں ملک کی انتھک کوششوں، بین الاقوامی مزاحمت اور اس کے سائنسدانوں کی قربانیوں اور عوام کی استقامت کا نتیجہ ہیں۔

ان کامیابیوں کو ترک کرنے کا مطلب صرف ایک جدید ٹیکنالوجی کو ترک کرنا نہیں ہوگا بلکہ یہ بیرونی دباؤ کے سامنے پسپائی اور قوم سے خیانت کی نمائندگی کرے گا۔

آج کی دنیا میں، جہاں سائنسی ایجادات طاقت کی تعریف کرتی ہوں، ایران کی جوہری صلاحیت نے ابھرتی ہوئی کثیر قطبی دنیا میں ایک سنجیدہ اور قابل احترام ملک کے طور پر اس کی پوزیشن مضبوط کر دی ہے۔ امریکہ کے زیر تسلط یک قطبی نظام سے آگے دیکھنے والی بہت سی قومیں اب ایران کے تجربے کو سائنسی مزاحمت اور متوازن سفارت کاری کے نمونے کے طور پر دیکھتی ہیں۔

رہبر معظم کا ایرانی قوم کے نام پیغام بھی واضح تھا: سائنسی ترقی اور قومی آزادی کے راستے پر اتحاد، اعتماد اور عزم کے ساتھ چلنا چاہیے۔ سائنس دانوں کی حمایت، فکری وسائل کا تحفظ اور غیر ملکی خطرات کے مقابلے میں لچک قومی ترجیحات میں رہنا چاہیے۔

بالآخر، رہبر انقلاب کے ریمارکس صرف حق کے دفاع کے بارے میں نہیں تھے بلکہ وہ ایک سفر جاری رکھنے کا مطالبہ تھے۔ ایک ایسا سفر جو ظلم کے خلاف مزاحمت سے شروع ہوا اور علم، وقار اور قومی ترقی کے لیے غیر متزلزل عزم کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔

News ID 1933273

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha