مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ایران میں آج خلیج فارس کا قومی دن منایا جارہا ہے، جو 1622ء میں اس اسٹریٹجک سمندری علاقے سے نوآبادیاتی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کی سالگرہ کی یادگار ہے۔
ایرانی کلینڈر کے دوسرے مہینے اردی بہشت کی دسویں تاریخ کو "خلیج فارس کا قومی دن" قرار دیا گیا ہے تاکہ نہ صرف ایرانی افواج کی جنوبی پانیوں میں تاریخی فتح کی یاد تازہ کی جائے بلکہ دنیا کو یہ بھی یاد دلایا جائے کہ خلیج فارس کا اصل اور دائمی نام ہمیشہ "خلیج فارس" ہی رہے گا۔
اس خطے کی تاریخ نشیب و فراز سے بھری رہی ہے، لیکن خلیج فارس ہمیشہ سے "خلیج فارس" کے نام سے یا اس کے مترادف ناموں سے تمام عالمی زبانوں میں لکھا اور پڑھا گیا ہے۔ قبل از مسیح کے زمانے سے لے کر آج تک، خلیج فارس کو ہمیشہ اسی قدیم نام یا "دریائے فارس" کے طور پر مختلف کتابوں، سفرناموں، دستاویزات، نقشوں، تاریخی تحقیقات اور متعدد بین الاقوامی دستاویزات میں پکارا گیا ہے۔ مورخین اور محققین نے بالخصوص اسلامی اور عربی مآخذ میں اس نام پر زور دیا ہے۔
اسلامی جمہوری ایران ہمسائیگی پر مبنی پالیسی پر زور دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کرتا ہے کہ یہ سمندری خطہ علاقائی سلامتی و استحکام کا مرکز بنے گا، اور امن، دوستی اور بقائے باہمی کی علامت رہے گا۔ اسی طرح ایران دیگر ممالک سے بھی توقع رکھتا ہے کہ وہ خلیج فارس میں ساحلی ممالک کے ذریعے قائم کیے گئے امن اور سلامتی کا احترام کریں گے۔
خلیج فارس میں واقع ایرانی جزائر ابو موسیٰ، تنبِ بزرگ اور تنبِ کوچک ایران کے اٹوٹ حصے ہیں، اور ان کے بارے میں کسی بھی تیسرے فریق کی رائے بنیادی طور پر بے بنیاد اور ناقابل قبول ہے۔
حالیہ برسوں میں متحدہ عرب امارات نے خلیج فارس میں واقع ایران کے تینوں جزائر کے حوالے سے بے بنیاد دعوے کیے ہیں۔
یو اے ای نے بعض دیگر ممالک کے ساتھ مل کر سیاسی بیانات جاری کیے ہیں، تاہم ان دعووں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور یہ جزائر ایران کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اسلامی جمہوری ایران کی ان پر ملکیت قطعی، غیر متنازع اور ناقابلِ تغیر ہے۔
حال ہی میں خلیج فارس تعاون کونسل اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے مشترکہ اختتامی بیان میں مستند بین الاقوامی دستاویزات کے برخلاف ایران سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان تین ایرانی جزائر پر مبینہ قبضے کو ختم کرے۔ یہ بیان تہران کے خلاف ایک معاندانہ مؤقف کی عکاسی کرتا ہے اور بین الاقوامی قانون کی حقیقی دستاویزات کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس بیان میں دعوی کیا گیا ہے کہ ان جزائر پر ایران کی ملکیت عرب امارات کی زمینی سالمیت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم بین الاقوامی قانون کے مطابق ان تینوں جزائر پر اسلامی جمہوری ایران کی حاکمیت مسلم، قانونی اور ناقابل تردید ہے۔ تاریخی شواہد اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔ عرب امارات اور اس کے حامی ممالک اس حقیقت کو مسخ نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ایرانی حکام بارہا واضح کر چکے ہیں کہ یہ تینوں جزائر اسلامی جمہوری ایران کی سرزمین کا ناقابلِ تفکیک حصہ ہیں، اور ایران کسی بھی غیر ملکی فریق کو اپنے داخلی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف ان جزائر پر اپنی ملکیت کا برملا اعلان کرتا ہے بلکہ کسی بھی ایسی سرگرمی پر گہری نظر رکھتا ہے جو اس کے قومی یا علاقائی مفادات کے لیے خطرہ بنے۔ اگر ایرانی سرزمین پر کسی بھی قسم کی جارحیت کی گئی تو اس کا فوری اور مناسب جواب دیا جائے گا۔
ایران یوم خلیج فارس کے عظیم موقع پر تمام ایرانیوں اور ان تمام افراد کو مبارکباد پیش کرتا ہے جنہوں نے اس سرزمین اور اس کے پانیوں کے تحفظ کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ یہ دن خلیج فارس سے استعماری قوتوں کے انخلا کی یاد دلاتا ہے۔ ہم اس موقع پر خلیج فارس کے معزز شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
خلیج فارس صدیوں سے ایرانی قوم کے لیے فخر اور عزت کا نشان رہا ہے۔ ہزاروں برسوں سے ایرانی عوام اس عظیم سمندر کے کنارے آباد ہیں اور اس کے ان گنت فوائد سے مستفید ہوتے آئے ہیں۔
توانائی کے وافر وسائل اور اقتصادی اہمیت کے ساتھ ساتھ، خلیج فارس ایک قدیم اور منفرد تہذیب و ثقافت کا مظہر بھی ہے، جو اس کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے طرز زندگی، فنون لطیفہ اور روایات میں جھلکتی ہے۔ ان علاقوں کی ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھنا اور آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا ایک قومی فریضہ ہے۔
ایران کے جنوبی علاقوں کا ذکر قدیم مورخین اور متون میں ہمیشہ "فارس" کے نام سے ہوا ہے، خاص طور پر جب 550 قبلِ مسیح میں ایران میں ہخامنشی سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔
تاریخی کتابوں کے مطابق لفظ "خلیج فارس" اور اس کے مترادفات 400 قبل مسیح سے بھی پہلے تمام زبانوں، بالخصوص عربی میں مسلسل استعمال ہوتے آئے ہیں۔
1960ء سے قبل شائع ہونے والے تقریبا تمام نقشوں اور بیشتر جدید بین الاقوامی معاہدات، دستاویزات و نقشوں میں اس آبی خطے کو "خلیج فارس" ہی کہا گیا ہے۔ "فارس" دراصل ایران کا تاریخی نام ہے۔
تاہم انیسویں صدی کے وسط سے بعض عرب ممالک نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر میڈیا میں اس تاریخی نام کو تبدیل کرنے کی کوششیں کیں، جنہیں ایران نے ایک سیاسی حربہ قرار دیا ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔
اسی پس منظر میں، ایران نے 2006ء میں ایرانی کیلنڈر کے دوسرے مہینے "اردی بہشت" کی دسویں تاریخ کو "خلیج فارس کا قومی دن" قرار دیا تاکہ دنیا کو یاد دلایا جاسکے کہ اس پانی کا نام ہمیشہ "خلیج فارس" ہی رہے گا۔
یہ تاریخ دراصل شاہ عباس اول کی اس کامیاب فوجی مہم کی سالگرہ سے بھی مطابقت رکھتی ہے، جس میں پرتگالی بحریہ کو آبنائے ہرمز سے نکالا گیا تھا۔ 1602ء میں ایران-پرتگال جنگ کے دوران شاہ عباس اول کے حکم پر قلی خان کی قیادت میں ایرانی فوج نے بحرین سے پرتگالیوں کو نکال باہر کیا۔ بعد ازاں 1612ء میں پرتگالی سلطنت نے بندرگاہی شہر "گمبرون" پر قبضہ کر کے اس کا نام "کوموراؤ" رکھا۔ لیکن دو سال بعد 1615ء میں، شاہ عباس نے پرتگالیوں کے ساتھ بحری معرکے کے بعد اس شہر پر دوبارہ قبضہ کیا اور اس کا نام "بندر عباس" رکھا، یعنی "عباس کی بندرگاہ"۔
1622ء میں شاہ عباس نے پرتگالیوں کو مکمل طور پر آبنائے ہرمز سے نکال دیا جسے "فتحِ ہرمز" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یوں اس اہم مقام پر ایرانی کنٹرول بحال کیا گیا۔
خلیج فارس طویل عرصے سے عالمی سیاست، توانائی اور دفاعی اسٹریٹجی کا محور رہا ہے۔ تقریبا 250,000 مربع کلومیٹر پر محیط یہ سمندری خطہ شمال میں "اروند رود" (شط العرب) سے شروع ہوتا ہے جو ایران اور عراق کی سرحد بناتا ہے اور جنوب میں "آبنائے ہرمز" سے ہوتا ہوا بحیرہ عمان اور بحر ہند سے جڑتا ہے۔
یہ خلیج ایران، عمان، عراق، کویت، سعودی عرب، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے ساحلی ممالک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اور مشرق وسطی کو افریقہ، بھارت اور چین سے جوڑنے والی ایک اہم سمندری گزرگاہ ہے۔
انیسویں صدی کے اوائل میں ایران کے شہر "مسجد سلیمان" میں تیل کی دریافت نے خلیج فارس کی جغرافیائی اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیا، اور اس کے بعد تیل کی تلاش، نکاسی اور استحصال کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کی تاریخ بدل دی۔
آج خلیج فارس کو دنیا میں توانائی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ روزانہ تقریباً 2 کروڑ بیرل خام تیل خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے ذریعے عالمی منڈیوں تک پہنچتا ہے۔ چونکہ دنیا بھر میں یومیہ تیل کی کھپت تقریباً 10 کروڑ بیرل ہے، اس لیے دنیا کے تقریبا پانچویں حصے کی توانائی اس راستے سے گزرتی ہے۔
سالانہ تقریبا 50,000 بحری جہاز اس آبی گزرگاہ سے گزرتے ہیں، جن میں 17,000 تیل بردار جہاز ہوتے ہیں جو بالخصوص ایشیائی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ خلیج فارس کی اسٹریٹجک اہمیت صرف تیل تک محدود نہیں۔ مختلف ادوار میں عالمی سیاست، فوجی کشمکش، اور طاقت کے توازن نے اس خطے پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں میں خلیج فارس کے علاقے میں متعدد ہمسایہ ممالک کے درمیان جنگوں، علاقائی و غیر علاقائی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں، بحری مشقوں، اور عرب ریاستوں میں غیر ملکی فوجی اڈوں کے قیام جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو اس خطے کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ماہرین متفق ہیں کہ اگر خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں امن و سلامتی برقرار نہ رکھی گئی تو اس کے اثرات پوری دنیا کی معیشت پر منفی انداز میں پڑیں گے، کیونکہ عالمی توانائی کا ایک بڑا حصہ اسی راستے سے گزرتا ہے۔
آپ کا تبصرہ