مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی ڈیسک: حضرت امام حسن عسکریؑ نے اپنی نہایت مختصر مدتِ امامت میں، وکالت کے منظم نظام کو ترقی اور وسعت دے کر شیعیانِ اہل بیتؑ کو عصرِ غیبت کے لیے آمادہ کیا۔
امام حسن عسکریؑ، جن کا نام حسن بن علی بن محمد (ع) تھا، شیعہ اثنا عشری کے گیارہویں امام، امام علی نقیؑ کے فرزند اور امام مہدیؑ (عج) کے والد ہیں۔ آپ کی امامت صرف چھ سال رہی۔ چونکہ آپ کو سامرا میں جبری سکونت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا، اس لیے آپ کا مشہور لقب عسکری قرار پایا۔
سامرا میں عباسی حکومت کی طرف سے سخت ترین نگرانی اور پہرے بٹھائے گئے تھے۔ ان کڑی پابندیوں کی وجہ سے امامؑ اپنی سرگرمیاں کھلے عام انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اسی لیے آپ نے نمایندوں (وکلا) اور خط و کتابت کے ذریعے اپنے ماننے والوں اور شیعہ معاشرے سے رابطہ قائم رکھا۔
عباسی خلفاء کا زمانہ ائمہ کرام کے لیے نہایت دشوار تھا۔ تین ظالم حکمران، معتز، مہتدی اور معتمد اپنی تمام طاقت اور درباری وسائل استعمال کرتے ہوئے امام اور ان کے ماننے والوں کو دبا رہے تھے، یہاں تک کہ انہیں تقیہ پر مجبور کیا گیا۔ اسی لیے شیخ مفید نے امام حسن عسکریؑ کی امامت کو مشکل ترین دور قرار دیا ہے۔
بالآخر آٹھ ربیع الاول 260 ہجری کو سامرا کے لوگوں نے امامِ مظلوم کی شہادت کی خبر سنی۔ امامؑ کی عمر اس وقت بہت کم تھی۔ یہ غم اتنا شدید تھا کہ وہ لوگ جو کل تک امامؑ کی محبت چھپاتے تھے، اب کھل کر اپنے امام کے غم میں صدائے ماتم بلند کرنے لگے۔
معتمد عباسی ہمیشہ امام کے بے مثال روحانی اثر و رسوخ اور قیادت سے خائف رہتا تھا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ ظلم و ستم کے ذریعے وہ امام کی راہ نہیں روک سکتا تو اس نے اپنے پیش رو جابروں کی طرح امام کو شہید کرنے کی سازش کی اور خفیہ طور پر زہر دے کر آپ کو مسموم کیا۔
معروف شیعہ عالم دین علامہ طبرسی اس بارے میں لکھتے ہیں کہ بیشتر علما کا اجماع ہے کہ امام حسن عسکریؑ کو زہر دے کر شہید کیا گیا۔ اسی طرح دوسرے محققین جیسے کفعمی اور محمد بن جریر بن رستم بھی امام کی شہادت کو مسمومیت ہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
امامت اور عقیدۂ مهدویت کو زندہ رکھنے کے لیے امام حسن عسکریؑ کی کوششیں
عباسی حکومت اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی کہ امامت کا جانشین واضح ہوجائے اور اس مقصد کے لیے ظلم و ستم کی کوئی حد باقی نہ چھوڑی۔ وہ تمام روایات اور خبروں کے بارے میں تحقیق کرتے تھے جو بارہویں امام (عج) کے وجود کے بارے میں تھیں؛ یعنی وہ امام جو دنیا کی ظالم حکومتوں کو نابود کرے گا۔ عباسی حکمران اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ امام، امام حسن عسکریؑ کی نسل سے ہوگا۔ اسی لیے انہوں نے متعدد اقدامات کیے؛ مثلاً امام کی ایک کنیز کو اس احتمال کی بنا پر کہ شاید وہ حاملہ ہو، دو سال تک قید میں رکھا۔ اسی طرح امام عسکریؑ کے ترکہ کو ان کی والدہ اور بھائی جعفر کے درمیان تقسیم کرنے کا حکم دیا تاکہ یہ ظاہر کریں کہ امام کے بعد کوئی فرزند باقی نہیں رہا۔
اس کے مقابلے میں امام حسن عسکری علیہ السلام نے نہایت حکمت و تدبیر سے اقدامات کیے۔ آپ نے امام مهدیؑ (عج) کی ولادت کو نہ صرف لوگوں سے مخفی رکھا بلکہ ولادت کے بعد بھی انہیں پوشیدہ رکھا تاکہ دشمنانِ دین اپنے مقصد میں ناکام رہیں۔
امام حسن عسکریؑ جانتے تھے کہ اگرچہ ان کے والد امام ہادیؑ نے پہلے ہی امامت کے اثبات کے لیے راہیں ہموار کی تھیں اور خود ان کی موجودگی بھی ایک بڑی دلیل تھی، لیکن پھر بھی شیعیانِ اہل بیت کو قائل کرنے میں بے پناہ مشقت برداشت کرنا پڑرہی تھی۔ اسی لیے امام عسکریؑ نے ضروری سمجھا کہ اپنے خاص شیعوں کو امام مھدی علیہ السلام کا تعارف کرائیں تاکہ وہ گمراہی کا شکار نہ ہوں۔
اس سلسلے میں حسین بن ایوب بن نوح نقل کرتے ہیں: "ہم چالیس افراد تھے جو عثمان بن سعید عمری (جو بعد میں امام زمانؑ کے وکیل بنے) کے ہمراہ امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ جانشین کے بارے میں سوال کریں۔ عثمان بن سعید نے اجازت چاہی، امامؑ نے انہیں بیٹھنے کو کہا۔ کچھ دیر بعد ایک نورانی چہرے والا بچہ اندر تشریف لایا جو سب سے زیادہ امام عسکریؑ سے مشابہ تھا۔ امامؑ نے فرمایا: یہ تمہارا امام اور میرا جانشین ہے، اس کی اطاعت کرو اور میرے بعد اختلاف میں نہ پڑو۔"
اسی طرح امام عسکریؑ کا ایک اور نہایت اہم اقدام یہ تھا کہ شیعہ معاشرے کو دورانِ غیبت کے لیے تیار کریں۔ کیوں کہ ایک ایسا معاشرہ جو ڈھائی سو سال تک براہِ راست امام معصومؑ کے ساتھ جڑا رہا ہو، اچانک اس حالت کے لیے آمادہ نہیں تھا کہ امام و رہبر کے بغیر زندگی گزارے۔
ادھر عباسی حکومت اور دینِ خدا کے دشمن بھی شب و روز لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے، انہیں گمراہ کرنے اور باطل راہوں پر لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ اس صورتِ حال نے اور بھی زیادہ ضروری بنا دیا کہ شیعوں کو نئے حالات کے لیے تیار کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے امام عسکریؑ کا سب سے اہم اور مؤثر اقدام وکالت و نمائندگی کے نظام کو فروغ دینا تھا، جو دراصل امام جوادؑ کے زمانے سے شروع ہوا تھا لیکن امام عسکریؑ کے دور میں مزید وسیع ہوا۔
امام حسن عسکریؑ کی علمی و ثقافتی کاوشیں
امام حسن عسکریؑ کی زندگی کے بابرکت ابواب میں دینِ خدا کے تحفظ اور گذشتہ ائمہؑ کے راستے کو جاری رکھنے کے لیے کی گئی کوششیں شامل ہیں۔ ان اہم کوششوں کو درج ذیل طور پر واضح کیا جا سکتا ہے:
شاگردوں کی تربیت:
امام نے متعدد شاگرد تیار کیے تاکہ فکری اور معنوی طور پر وکالت کے نیٹ ورک کو مضبوط بنایا جاسکے۔
تقیہ کا اہتمام:
اپنی حفاظت اور دشمنوں کی سازشوں سے بچنے کے لیے امامؑ نے اپنے کاموں میں تقیہ اختیار کیا۔
خط و پیغام کے ذریعے رابطہ:
امام نے قابل اعتماد قاصدوں کے ذریعے شیعیان کو خطوط اور پیغامات بھیجے تاکہ علم و ہدایت پہنچتی رہے۔
مالی معاونت:
شیعوں اور اہل بیتؑ کے محبان کو مالی امداد فراہم کی جاتی رہی تاکہ وہ دین کی خدمت کرسکیں۔
علمی سرگرمیاں اور حوزہ علمی:
امام نے علمی حوزے قائم کیے اور علمی سرگرمیوں کا اہتمام کیا، جس سے مسلمان علاقوں میں ایک بڑے ثقافتی انقلاب کی بنیاد پڑی۔
خفیہ روابط:
مختلف علاقوں میں پیروکاروں سے خفیہ رابطے قائم رکھے تاکہ رابطے منقطع نہ ہوں۔
فکری و اعتقادی قیادت:
امامؑ نے فکری و اعتقادی انحرافات کے خلاف جدوجہد کی اور شیعیان کو صحیح رہنمائی فراہم کی۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی دیگر ادیان کے ساتھ مثبت روابط کی سفارش
حجت الاسلام حمیدرضا شریعتمداری نے خبر رساں ایجنسی مہر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: امام حسن عسکریؑ بائیس سال کی عمر میں منصبِ امامت پر فائز ہوئے اور اٹھائیس سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ ان کی زندگی کے سال سامرا میں گزرے جو سب سے زیادہ سخت ایام تھے اور آپ اپنے والد امام ہادیؑ کی طرح شہادت تک اسی شہر میں مقیم رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سامرا کا وہ علاقہ جہاں امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ رہائش پذیر تھے، ایک فوجی چھاؤنی تھا۔ یہاں کی فضا امام کے لیے دشواریوں کا باعث بنی۔ چونکہ اکثر شیعہ وہاں موجود نہیں تھے، امام بھی اپنے پیروکاروں کے درمیان براہِ راست موجود نہیں رہ سکتے تھے اور اس سے آپ کی مشکلات اور بڑھ گئیں۔ امامؑ اور شیعوں کے درمیان رابطے کا ایک بنیادی ذریعہ آپ کے وکلا تھے، جن میں سب سے نمایاں عثمان بن سعید عمری تھے جو بعد میں امام زمانہؑ کے پہلے نائب خاص بنے۔ دوسرا ذریعہ خطوط کے ذریعے رابطہ تھا۔ کبھی کبھار ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں لیکن امام اکثر اصحاب کو براہ راست ملاقات سے روکتے تاکہ روابط خفیہ رہیں۔
شریعتمداری کے مطابق، علویوں نے امام حسن عسکریؑ کے دورِ حیات میں کئی قیام کیے جو اکثر ناکام ہوئے اور بعض ان میں سے امامؑ کی تائید سے خالی تھے۔ اگرچہ امام عسکریؑ سب قیاموں کے ہمراہ نہ تھے، لیکن عباسی خلفا کے مقابل آپ کا رویہ سخت اور واضح تھا۔ اسی کے ساتھ آپ کی علمی و سماجی سرگرمیاں بھی جاری رہتی تھیں۔ آپ ہمیشہ اپنے خطوط اور پیغامات میں شیعوں کو دیگر ادیان و مذاہب کے ساتھ مثبت روابط کی تلقین کرتے رہے اور اپنے شیعوں کو انتظارِ فرج کی دعوت دیتے تاکہ معاشرہ عقیدہ مھدویت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو۔
آپ کا تبصرہ