مہر خبررساں ایجنسی: حسن بن علی بن محمد (232۔260 ھ )، امام حسن عسکریؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے گیارہویں امام ہیں اور ٢٣٢ ہجری میں متولد ہوئے۔ آپ امام علی نقیؑ کے فرزند اور امام مہدیؑ کے والد ہیں۔ والدہ کا نام "حدیثہ" ہے جبکہ بعض مورخین نے ان کا نام "سوسن" بھی ذکر کیا ہے۔ یہ خاتون بہت ہی متقی، پرہیزگار اور نیک صفت تھیں، ان کی فضیلت میں یہی کہنا کافی ہے کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد یہ خاتون شیعوں کے لئے پناہ گاہ تھیں۔
عباسی خلیفہ کے حکم سے امام حسن عسکری (علیہ السلام) کو "سامرا" کے "عسکر" نامی محلہ میں زبردستی رکھا گیا تھا ،اسی وجہ سے آپ کو "عسکری" کہتے ہیں۔ آپ کے دوسرے القاب میں ابن الرضا، ہادی، نقی، زکی، رفیق اور صامت مشہور ہیں۔ آپؑ کی کنیت ابو محمد تھی۔ بعض کتابوں میں ابوالحسن، ابو الحجہ، ابوالقائم مذکور ہیں۔
معتبر منابع کے مطابق آپ مدینہ میں پیدا ہوئے۔ امامیہ کے ہاں مشہور قول کے مطابق آپ کی ولادت ربیع الثانی ۲۳۲ھ میں ہوئی۔
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ ربیع الاول سنہ۲۶۰ ھ کے شروع میں معتمد عباسی کے ہاتھوں 28 سال کی عمر میں مسموم ہوئے اور اسی مہینے کی 8 تاریخ کو 28 سال کی عمر میں سرّ من رأی (سامرا) میں جام شہادت نوش کر گئے۔ امام عسکریؑ سامرا میں جس گھر میں آپ کے والد ماجد امام علی نقی علیہ السلام دفن ہوئے تھے ان کے پہلو میں دفن ہوئے۔
اکثر شیعہ اور سنی منابع کے مطابق، آپ کے اکلوتے فرزند امام زمانہ(عج) ہیں جو کہ محمد کے نام سے مشہور ہیں۔ منابع میں امام مہدی(عج) کی والدہ کے مختلف اور متعدد نام ذکر ہوئے ہیں تاہم آخری صدیوں میں امام زمانہ (عج) کی والدہ کے نام کے ساتھ نرجس کا عنوان شیعوں کے لئے باعث پہچان تھا۔ دوسری طرف جو سب سے مشہور نام منابع میں ملتا ہے وہ صیقل ہے۔
سامرا آمد
بچپنے میں ہی امام حسن عسکری، اپنے والد گرامی امام ہادی کے ساتھ جبری طور پر عراق طلب کر لئے گئے اس زمانے میں عباسیوں کا دارالحکومت سامرا تھا یہاں آپ کو تحت نظر رکھا گیا۔ امام حسن عسکری نے اپنی اکثر عمر سامرا میں گزاری۔
آپ کے دورۂ امامت میں معتز عباسی (۲۵۲-۲۵۵ ھ)، مہتدی (۲۵۵-۲۵۶ ھ) اور معتمد (۲۵۶-۲۷۹ ھ) عباسی خلیفہ رہے۔
سیاسی حالات
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور میں عباسی حکومت امراء کیلئے ایک بازیچہ بن چکی تھی خاص طور پر ترک سپہ سالاروں کا حکومتی سسٹم میں مؤثر کردار تھا۔ امام کی زندگی کی پہلی سیاسی سرگرمی اس وقت تاریخ میں ثبت ہوئی جب آپ کا سن 20 سال تھا اور آپ کے والد گرامی زندہ تھے۔ آپ نے اس وقت عبدالله بن عبدالله بن طاہر کو خط لکھا جس میں خلیفۂ وقت مستعین کو باغی اور طغیان گر کہا اور خدا سے اس کے سقوط کی تمنا کا اظہار کیا۔ یہ واقعہ مستعین کی حکومت کے سقوط سے چند روز پہلے کا ہے۔ عبد اللہ بن عبد اللہ عباسی حکومت میں صاحب نفوذ اور خلیفۂ وقت کے دشمنوں میں سے سمجھا جاتا تھا۔
مستعین کے قتل کے بعد اس کا دشمن معتز تخت نشین ہوا۔ معتز نے شروع میں امام حسن عسکری علیہ السلام اور آپ کے والد کی نسبت ظاہری طور پر کسی قسم کے خصومت آمیز رویہ کا اظہار نہیں کیا۔ حضرت امام علی نقی کی شہادت کے بعد شواہد اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ امام حسن عسکری کی فعالیتیں محدود ہونے کے باوجود کسی حد تک آپ کو آزادی حاصل تھی۔ آپ کی امامت کے ابتدائی دور میں آپ کی اپنے شیعوں سے بعض ملاقاتیں اس بات کی تائید کرتی ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے بعد خلیفہ امام کی نسبت بد گمان ہو گیا اور اس نے 255ق میں امام کو قید کر دیا۔ امام حسن عسکری معتز کے بعد خلیفہ مہتدی کے دور میں بھی قید میں ہی رہے۔ 256ق میں معتمد کی خلافت کے آغاز میں اسے شیعوں کے مسلسل قیاموں کا سامنا کرنا پڑا اور امام آزاد ہوئے۔
اس طرح ایک دفعہ پھر امام کو موقع ملا کہ وہ اپنے شیعوں کو منظم کرنے کیلئے معاشرتی اور مالی پروگراموں کا اہتمام کر سکیں۔ امام کی یہی فعالیتیں وہ بھی عباسی دار الحکومت میں ایک دفعہ پھر ان کیلئے پریشانی کا سبب بن گئیں۔ لہذا 260 ق میں معتمد کے حکم پر امام حسن عسکری کو دوبارہ قید کردیا گیا اور خلیفہ روزانہ امام سے مربوط اخبار کی چھان بین کرتا۔ ایک مہینے کے بعد امام زندان سے آزاد ہوئے لیکن مامون کے وزیر حسن بن سہل کے گھر میں نظر بند کر دئے گئے جو واسط نامی شہر کے قریب تھا۔
شیعوں سے رابطہ
امام حسن عسکری کے دور میں عباسیوں کی جانب سے شیعوں پر حالات سخت تھے۔ان حالات میں امام حسن عسکری شیعوں کے امور چلانے کیلئے اور وجوہات شرعی کی جمع آوری کیلئے مختلف علاقوں میں اپنے وکیل روانہ کرتے تھے۔ اس طرح حکومت وقت کی کڑی نگرانی کی وجہ سے اپنے پیرکاروں سے رابطہ برقرار رکھنے کے لئے آپ نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کئے اور وکالت سسٹم کے تحت اپنے نمایندوں سے رابطے میں رہے۔
امام سے ملاقات
جاسوسی کے پیش نظر شیعوں کیلئے ہر وقت امام سے ملاقات کرنا نہایت مشکل تھا یہاں تک کہ خلیفۂ عباسی کئی مرتبہ بصرہ گیا تو جاتے ہوئے امام کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا۔ اس دوران امام کے اصحاب آپ کی زیارت کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعوں کیلئےامام سے براہ راست ملاقات کرنا کس قدر دشوار تھا۔ اسماعیل بن محمد کہتا ہے: جہاں سے آپ کا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امامؑ کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی۔ ایک اور راوی نقل کرتا ہے کہ ایک دن جب امامؑ کو دار الخلافہ جانا تھا ہم عسکر کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے، اس حالت میں آپ کی جانب رقعہ توقیعی (یعنی کچھ لکھا ہوا) ہم تک پہنچا جو کہ اسطرح تھا: کوئی مجھ کو سلام اور حتیٰ میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے۔ اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کس حد تک امام اور شیعوں کے درمیان روابط کو زیر نظر رکھتا تھا۔ البتہ امام اور آپ کے شیعہ مختلف جگہوں پر آپس میں ملاقات کرتے تھے اور ملاقات کے مخفیانہ طریقے بھی تھے جو چیز آپ اور شیعوں کے درمیان رابطہ رکھنے میں زیادہ استعمال ہوئی وہ خطوط تھے اور بہت سے منابع میں بھی یہی لکھا گیا ہے۔
امام کے نمائندے
حاکم کی طرف سے شدید محدودیت کی وجہ سے امامؑ نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کیا ان افراد میں ایک آپ کا خاص خادم عقید تھا جس کو بچپن سے ہی آپ نے پالا تھا، اور آپ کے بہت سے خطوط کو آپ کے شیعوں تک پہنچاتا تھا۔ اسی طرح آپکے خادم جس کی کنیت ابو الادیان تھی اس کے ذمےبعض خطوط پہنچانا تھا۔ لیکن جو امامیہ منابع میں باب کے عنوان سے (امام کا رابط اور نمائندہ) پہنچانا جاتا تھا وہ عثمان بن سعید ہے اور یہی عثمان بن سعید آپ کے خاص نمائندوں میں سے تھے جو آپؑ کی شہادت کے بعد غیبت صغریٰ کی ابتدا میں امام زمانہ(عج) کے پہلے نائب خاص بھی رہے ہیں۔
معارف دینی کی وضاحت
شیعہ تعلیمات
آخری آئمہ کے زمانے میں امامت سے مربوط ابہامات اور پیچیدگوں کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری ؑکے اقوال اور خطوط میں اس کے متعلق ارشادات کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسے زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی ۔ اگر امامت کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور اس کا تسلسل ٹوٹ جائے تو خدا کے امور میں خلل واقع ہو جائے گا ۔ زمین پر خدا کی حجت ایسی نعمت ہے جو خدا نے مؤمنوں کو عطا کی ہے اور اس کے ذریعے ان کی ہدایت کرتا ہے۔
اس زمانے کی ایک اور دینی تعلیم کہ جس کی وجہ سے شیعہ تحت فشار رہے وہ مومنین کو آپس میں صبر کی تلقین انتظار فرج کا پیغام ہے جو امام کے ارشادات میں زیادہ بیان ہوا ہے ۔ اسی طرح آپ کی احادیث میں شیعوں کے درمیان باہمی منظم ارتباط اور باہمی بھائی چارے کی فضا کے قیام کے بارے میں بیشتر تاکید ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
تفسیر قرآن
امام حسن عسکری ؑ کے مورد توجہ قرار پانے والی چیزوں میں سے ایک تفسیر قرآن کا عنوان ہے ۔تفسیر قرآن کا ایک مکمل اور تفصیلی متن امام حسن عسکری(تفسیر امام حسن عسکری) سے منسوب ہے کہ جو امامیہ کے قدیمی آثار میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ امام کی طرف اس کتاب کی نسبت درست نہ ہونے کی صورت میں بھی اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ تفسیری ابحاث کی نسبت امام حسن عسکریؑ کی شہرت نے اس کتاب کے امام کی طرف منسوب ہونے کے مقدمات فراہم کئے ہیں ۔
کلام اور عقائد
ایسے حالات میں امامیہ کی رہبری اور امامت حضرت امام حسن عسکری ؑ کے ہاتھ آئی جب امامیہ کی صفوں میں بعض ایسی اعتقادی مشکلات موجود تھیں جن میں سے کچھ تو چند دہائیاں پہلے اور کچھ آپ کے زمانے میں پیدا ہوئیں۔ان اعتقادی مسائل میں سے خدا کی جسمیت کی نفی ایک مسئلہ تھا کہ جو کافی سال پہلے پیدا ہوا تھا اور ممتاز ترین اصحاب ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کے درمیان اس کی وجہ سے اختلافات پائے جاتے تھے ۔امام حسن عسکری کے زمانے میں اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کی کہ سہل بن زیاد آدمی نے امام کو خط لکھ کر آپ سے راہنمائی حاصل کرنے کی درخواست کی۔
امام نے اسے جواب دیتے ہوئے ابتدائی طور پر اللہ کی ذات کے متعلق بحث کرنے سے پرہیز کرنے کا کہا پھر قرآنی آیات سے اس مسئلہ کی جانب ہوں اشارہ فرمایا کہ قرآن میں اس طرح آیا ہے :
اللہ واحد و یکتا ہے، وہ نہ تو کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا ہے۔ اسکا کوئی نظیر و ہمتا نہیں ہے ۔وہ پیدا کرنے والا ہے پیدا ہونے والا نہیں ہے ۔ جسم اور غیر جسم سے جسے چاہے خلق کرسکتا ہے ۔وہ خود جسم و جسمانیت سے مبرا ہے۔۔۔۔کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے وہ بصیر اور سمیع ہے ۔
فقہ
علم حدیث میں آپ کو فقیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے درمیان اس لقب سے خصوصی طور پر پہچانے جاتے تھے ۔اسی بنیاد پر فقہ کے بعض ابواب میں آپ سے احادیث منقول ہیں۔ البتہ امامیہ مذہب کی فقہ کا بیشترین حصہ حضرت امام جعفر صادق ؑ سے ترتیب شدہ ہے اور اس کے بعد فقہ نے اپنے تکمیلی مراحل طے کئے ہیں لہذا امام حسن عسکری کی زیادہ تر احادیث ان فروعی مسائل کے بارے میں ہیں جو اس دور میں نئے پیدا ہوئے تھے یا ان مسائل کے بارے میں ہیں جو انکے زمانے میں چیلنج کے طور پر پیش ہوئے ۔مثال کے طور پر رمضان کے آغاز کا مسئلہ اور خمس کی بحث ۔
امام حسن عسکریؑ 8 ربیع الاول سنہ 260 ھ کو 28 سال کی عمر میں سامرا میں شہید ہوئے اور اپنے والد امام علی نقیؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔ ان دونوں اماموں کا مدفن حرم عسکریین کے نام سے مشہور ہے اور عراق میں شیعہ زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ یہ حرم دو مرتبہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مسمار ہوا۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006 ء کو جبکہ دوسرا حملہ اس کے 16 مہینے بعد یعنی 13 مئی 2007ء کو کیا گیا۔
بشکریہ ویکی شیعہ
آپ کا تبصرہ